عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے
(Yousuf Alamgarian, Rawalpindi)
چیف جسٹس جناب افتخار محمدچوہدری
نے اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف جس طرح سے از خود نوٹس لیتے ہوئے اُسے
عدالتی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے پاکستانی معاشرہ شاید اس قسم کی روایات سے
کچھ زیادہ آشنا نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نبی
کریم ﷺ نے اپنے پھوپھا کی پوتی فاطمہ کو چوری کے مقدمے میں سزا سناتے ہوئے
اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ سفارش آنے پر فرمایا کہ اگر محمد(ﷺ) کی بیٹی
فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ یہی روایات خلفائے راشدین اور بعض
دیگر اسلامی حکمرانوں کے ادوار میں بھی قائم رہیں۔ پاکستان قائم تو شائد
اسلام کے نام پر ہوا لیکن یہاں ان سُنہری سیاسی‘ معاشرتی اور عدالتی روایات
کو نہیں پنپنے دیا گیا جن کی کسی معاشرے کی تعمیر میں ضرورت ہوتی ہے۔
ممتاز معلم و مصنف پروفیسر سعید راشد اپنی کتاب گفتار و کردارِ قائدِاعظم
میں ایک واقعہ روایت کرتے ہیں کہ اواخر1947 میں قائدِاعظم کے بھائی احمدعلی
بغیر ملاقات کا وقت طے کئے انہیں ملنے چلے گئے اور کارڈ پر اپنے نام کے
ساتھ گورنرجنرل آف پاکستان کے بھائی بھی تحریر کرکے اے ڈی سی کیپٹن گل حسن
کو دیا۔ اے ڈی سی نے اندر جا کر کارڈ قائدِاعظم کو دیا تو انہوں نے دریافت
کیا یہ کون صاحب ہیں؟ کیپٹن گل حسن نے بتایا کہ آپ کے بھائی ہیں۔ اس پر
قائد نے پوچھا کہ انہوں نے ملاقات کے لئے وقت لیا تھا۔ گل حسن نے نفی میں
جواب دیا تو قائدِاعظم نے کہا اُن سے کہئے میں بغیر اپوائنٹمنٹ کے ان سے
نہیں مل سکتا۔ گل حسن کارڈ لے کر واپس جانے لگے تو قائد نے اپنے ہاتھ سے
کارڈ پر سے ”گورنر جنرل کے بھائی“ کے الفاظ کاٹے اور انہیں ہدایت کی کہ ان
سے کہیں کہ کارڈ پر صرف اپنا نام لکھیں۔
قائدِاعظم پاکستانی قوم کی جس انداز سے تربیت کرنا چاہتے تھے شائد زندگی نے
اُنہیں اُس کی مہلت نہ دی۔ اسی طرح جب قیام پاکستان کے بعد ان کے بھانجے
اکبر پیر بھائی بارایٹ لاءجو ممبئی میں وکالت کرتے تھے ‘ کراچی میں
قائدِاعظم سے ملے اور انہیں بتایا کہ وہ کراچی میں سکونت اختیار کرنا چاہتے
ہیں۔ قائدِاعظم نے فرمایا”میری قرابت داری کی وجہ سے تمہاری اہلیت اور
تمہاری ضرورت کے باوجود تمہیں یہاں کوئی فائدہ نہیں دیا جاسکتا“ اس پر ان
کے بھانجے نے کہا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں ملازمت کا خواہش مند نہیں ہوں‘
میں آپ سے الگ تھلگ رہ کر یہاں وکالت کروں گا ۔اس پر قائداعظم نے جواب دیا:
”مجھے معلوم ہے کہ تم ایک اچھے وکیل ہو لیکن میرے عہدہ کی وجہ سے اہلِ
مقدمہ اور عدالتوں کا تمہارے حق میں رجوع خارج ازامکان نہیں لہٰذا میں
تمہیں یہاں وکالت کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتا۔“
سبحان اﷲ! جب ذاتی کردار کی پختگی اس حد تک ہو تو پھر کوئی ایسے شخص کا نام
اور مقام استعمال نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی کو عہدہ بعد میں
ملتا ہے جب کہ اس کے بیوی بچوں کے وزیٹنگ کارڈ پہلے تیار ہونا شروع ہو جاتے
ہیں۔ قائداعظم نے تو اپنے قریبی عزیزوں کو اہل اور قابل ہونے کے باوجود کسی
عہدے پر تعینات نہیں کیا جبکہ ہمارے ہاں عدالتوں کے حکم پر بیسیوں لوگوں کو
ایسے عہدوں سے ہٹایا گیا جس کے وہ اہل نہیں تھے۔ بدقسمتی سے میرٹ کی دھجیاں
ہر ہر سطح پر اڑائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے
گریڈ19 کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کی ایک اسامی جس کے لئے میڈیا اور پبلک
ریلیشنز سے متعلق 17 گریڈ میں کم از کم 12 سالہ تجربہ درکار تھا پر پشاور
کے ایک کالج کے انگریزی کے لیکچرار کو بھرتی کرلیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ
ہر بُرائی کی ذمہ داری سیاسی شخصیات اور عہدیداروں پر ڈال دی جاتی ہے لیکن
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تو کسی سیاسی شخصیت کا عمل دخل نہیں ہے۔ وہاں
تعینات تمام ذمہ دار لوگ اورپڑھے لکھے بیوروکریٹ ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ
بھرتی سے متعلق اپنے ہی بنائے گئے رولز اور ریگولیشنز پر بھی عملدرآمد نہیں
کرسکے۔بدعنوانی چاہے چھوٹی ہو یا بڑے پیمانے کی معاشرے میں بگاڑ ضرور پیدا
کرتی ہے‘ غیر یقینی فضا پیدا کرتی ہے اور انارکی کی جانب لے کر جاتی ہے۔
ایسے میں چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کو سلام پیش کرنے کو کو جی چاہتا ہے
کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے متعلق جب اُڑتی اُڑتی خبریں سنیں تو از خود نوٹس
لیتے ہوئے اُسے ایک عام شخص کی طرح نہ صرف کٹہرے میں کھڑا کردیا بلکہ خود
بھی اس کیس کی سماعت سے الگ ہو گئے ہیں اور دو رُکنی بنچ کو اس مقدمے کی
سماعت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ سُنا ہے اس حوالے سے سب سے پہلے سوشل میڈیا
یعنی ٹوئٹر پر بحث شروع ہوئی۔ ظاہر ہے ارسلان افتخار کے پاس کوئی سرکاری یا
عوامی عہدہ نہیں ہے اگر کوئی معاملہ تھا بھی تو ایک بالغ فر دکا دوسرے فرد
کے ساتھ کاروباری لین دین کا تھا لیکن ارسلان افتخار چونکہ چیف جسٹس سپریم
کورٹ کے صاحبزادے بھی ہیں لہٰذا چیف جسٹس نے اس معاملے کی ٹھیک ٹھیک چھان
بین کرنے کے لئے از خود نوٹس لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا پر بہت
سے اینکر پرسنز نے پروگراموں کی ایجنڈا سیٹنگ بھی اسی کیس کے حوالے سے سیٹ
کرتے ہوئے اس کا تجزیہ کرنے کی بجائے باقاعدہ کیس کے حوالے سے اپنی رائے سے
بھی ”نوازنا“ شروع کردیا ہے۔
بہرکیف شنید ہے کہ متعلقہ کاروباری شخصیت نے مختلف سرکردہ صحافیوں ‘
اینکرپرسنز اور وکلاءبرادری کے کچھ لوگوں کو کیس سے متعلق ثبوت بھی دکھائے
ہیں۔ سُنا ہے ایک معروف وکیل تو پھوٹ پھوٹ کر روئے کہ وہ لانگ مارچ کے
دوران چیف جسٹس کی گاڑی چلاتے رہے ہیں ۔ حالانکہ لانگ مارچ کے بعد جس طرح
سے انہوں نے ”شارٹ مارچ“ کی اور بابر اعوان کی ”ڈبل مارچ“ بلکہ دوڑے چل
ہوئی شائد اُس پر بھی بہت سے لوگ دھاڑیں مار مار کر روئے ہوں۔
مولانا مودودی کے ایک بیٹے کے حوالے سے ایک واقعہ ہے جس کے راوی ممتاز
صحافی نصر اﷲ غلزئی مرحوم تھے ۔ اُن کے مطابق مولانا مودودی کے کسی بیٹے جس
نے پی آئی اے کے لئے اپلائی کیا لیکن اُسے نوکری نہ ملی تو اُس نے اپنے
والد یعنی مولانا مودودی کے لیٹر پیڈ پر اُس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی
بھٹو کو خط لکھا کہ آپ کی دشمنی میرے ساتھ ہو سکتی ہے میرے بیٹے کے ساتھ تو
انتقامی کاروائی نہ کریں- اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے فوری خط کا جواب دیا
جو ظاہر ہے بیٹے کی بجائے مولانا مودودی کے نام تھا۔ اُس میں ذوالفقار علی
بھٹو نے معذرت کی اور اور کہا کہ مجھے تو اس کا علم تک نہیں۔ ہاں اگر آپ
چاہتے ہیں تو میں پی آئی اے انتظامیہ سے کہہ کر آپ کے بیٹے کو ملازمت
دلوادیتا ہوں۔ خط ملنے پر مولانا مودودی بہت ڈسٹرب ہوئے اور دوستوں کی
موجودگی میں اپنے بیٹے کو اندر بلا لیا اور کہا تم نے ایسے کیوں کیا۔ بیٹے
نے کہا ابا جی اگر آپ ہمارے لئے کچھ نہیں کریں گے تو کیا ہم خود بھی ہاتھ
پاﺅں مارنا چھوڑ دیں؟ اس معا شرے میں نجانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس قسم کے
بچوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جن کے ذریعے اُن کے والدین کو بلیک میل یا
استعمال کیا جا سکے۔
بہرحال چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے اپنی عدالتی پیشہ ورانہ وزڈم‘ چیف
جسٹس کے اخلاقی اور قومی منصب کا خیال کرتے ہوئے اپنے بیٹے کے خلاف از خود
نوٹس لیتے ہوئے کیس ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت میں لے آئے ہیں۔ اس سے ایک
بات تو بہرحال عیاں ہوتی ہے کہ جو کاروباری شخصیت چیف جسٹس کے بیٹے پر
نوازشیں کرنے کے الزامات عائد کرتی دکھائی دیتی ہے اس کے کاروباری معاملات
یقیناً اس حد تک صاف اور شفاف نہیں ہوں گے جتنے کہ ہونے چاہئیں۔ ملک میں
یکساں مواقع مہیا کرنے کا کوئی نظام موجود نہ ہو تو پھر بعض لوگ قانون اور
آئین کو چکمے دیتے ہوئے جہاں اپنے اپنے کاروبارکو ریاست کے بڑے بڑے اداروں
کے مقابل لے آتے ہیںبلکہ”ریاست کے اندر ریاست بنا لیتے ہیں“ وہاں لوگ فاقہ
کشی اور اپنے بیوی بچوں کی روٹی پوری نہ کرسکنے کی وجہ سے خود کشیوں پر بھی
مجبور ہو جاتے ہیں۔ عطاءالحق قاسمی نے شائد اسی لئے ہی کہا تھا
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے |
|