عدلیہ نشانہ کیوں ؟

گزشتہ کئی دنوں سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کا معاملہ میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ ہر کوئی بھانت بھانت کی بولی بول رہا ہے۔ تجزیے پیش کیے جارہے ہیں، اظہار رائے کے ”صحیح“ استعمال سے انار کی پھیلائی جارہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب تک کوئی ثبوت منظر عام پر نہیں لایا جاسکا۔

چیف جسٹس کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار پر الزام ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹاﺅن کے مالک ملک ریاض حسین سے 30 سے 40 کروڑ روپے لیے اور ان کے خرچ پر بیرونی دورے کیے، یہ تاثر دیا گیا کہ ڈاکٹر ارسلان نے بعض فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیے یہ رقم لی اور اپنے اہل خانہ سمیت بیرون ملک میں سیر اور شاپنگ کی۔

چیف جسٹس کے بیٹے کے ذریعے سپریم کورٹ کو نشانہ بنانے اور اسے بدنام کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ جسٹس افتخار محمد چودھری اپنے بیٹے کے خلاف الزامات کا از خود نوٹس لے کر اسے بھی عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں گے اور مقدمے کے فیصلے تک اس سے قطع تعلق کرکے اسے گھر سے بے دخل کردیں گے۔ معمولی ٹھیکیدار کی حیثیت سے کام شروع کرنے والے بحریہ ٹاﺅن اسکیموں کے سربراہ بن کر اربوں کھربوں میں کھیلنے والے ملک ریاض نے بظاہر اعلیٰ عدلیہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، لیکن چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کر ان کی توقعات پر پانی پھیر دیا اور اب سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاﺅن کا ریکارڈ طلب کرنے پر اس کی انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ان کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں اور اب وہ آنے والی بلاکو ٹالنے کے لیے لائحہ عمل وضع کرنے میں مصروف ہیں۔

اس کیس میں اب تک کوئی بھی فریق ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ ملک ریاض کے خلاف سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں 50 سے زاید مقدمات دائر کیے گئے۔ جن میں اکثر مقدمات کے فیصلے اس کے خلاف آئے اور اب وہ ملک سے باہر زیرِعلاج ہیں اور بحریہ ٹاﺅن سے وہ پہلے ہی مستعفی ہوچکے ہیں۔ اُن کے بیٹے علی ریاض اور دیگر 10 عہدیداروں کو کل 11 جون تک تمام ریکارڈ عدالت ِعظمیٰ میں پیش کرنے کا حکم مل چکا ہے، بصورت دیگر ان کے دفاتر سیل اور تمام جائیدادیں ضبط ہوسکتی ہیں۔

ڈاکٹر ارسلان کا معاملہ اب انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ پورے ملک کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے اس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ سے علیحدگی اختیار کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ کو وزیراعظم کے بیٹے موسیٰ گیلانی کیس، دہری شہریت اور لاپتا افراد کی بازیابی کے کیس میں کردار ادا کرنے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ بہت خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اور اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری یہ ریمارکس دے چکے ہیں کہ ہم قرآنی آیات کی روشنی میں فیصلہ دیں گے اور بیٹا مجرم ثابت ہوا تو اسے سزا ضرور ملے گی۔

چیف جسٹس کے اس عزم سے یہ اسکینڈل میڈیا میں لانے والے اب پچھتارے ہیں، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ چیف جسٹس اپنے بیٹے کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے اور یوں وہ متنازعہ ہو جائیں گے۔ صدر زرداری نے پی پی رہنماﺅں کو اس کیس پر تبصروں سے روک دیا ہے لیکن اس کے باوجود بعض افراد کی جانب سے صدر زرداری پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں، قائد حزب اختلاف چودھری نثار نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف سازش میں ملوث ملک ریاض کے پیچھے صدر زرداری کا ہاتھ ہے۔

اس معاملے کا ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اب تک قیاس آرائیوں اور افواہوں کا بازار گرم ہے۔ بغیر ثبوت کے ایسے ٹی وی پروگرام کیے گئے جن سے اداروں کی بدنامی ہورہی ہے۔ میڈیا دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے۔ کم ازکم صحافیوں کو تو خود کو غیر جانبدار رکھنا چاہیے۔ ہمارے خیال میں اب اس کیس میں کچھ بھی نہیں بچا اور اس سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ کیوں کہ مبینہ مدعی عدالت میں ثبوت تو ایک طرف خود پیش ہو نے سے بھی گریزاں ہیں اور عام تاثر یہی ہے کہ وہ حقائق پر مبنی ثبوت سامنے نہیں آئیں گے۔ اس لڑائی سے ملک کا نقصان ضرور ہورہا ہے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا سمیت تمام ریاستی ادارے اپنی ساکھ بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ہر ادارہ اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ کوئی بھی پاکستان کے لیے نہیں سوچ رہا۔ اس ملک اور اس کے عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ لیکن افسوس تو اس بات پر ہے کہ ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے یہ ملک بھی بیچنے کو تیار ہیں اور آج انہی کی وجہ سے ہم اس بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔

حکومت نے عدلیہ کے ہر فیصلے کو پاﺅں تلے روندنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عدمِ عمل درآمد سے ہم عالمی سطح پر رسوا ہورہے ہیں مگر ہمارے حکمران اسے اپنی فتح سمجھ کر عدلیہ کی تضحیک کررہے ہیں۔ اٹارنی جنرل ریاست کا نمایندہ ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اٹارنی جنرل عرفان قادر یوسف رضا گیلانی کے مقدمے میں انہیں بچانے کے لیے ہاتھ پاﺅں ماررہے ہیں۔ زاہد بخاری وہ وکیل ہیں جو امریکی جاسوس اور دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس اور سابق سفیر حسین حقانی کے بعد اب بحریہ ٹاﺅن کے مالک ملک ریاض کو بچانے کے لیے میدان میں آئے ہیں۔

ان حالات میں جب ملک میں اندرونی طور پر سخت انتشار کا ماحول ہے، ملک کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہمیں ملک بچانے کے لیے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ آج ہم جو کچھ بھی ہیں اس ملک کی وجہ سے ہی ہیں، لیکن ہم نے اسے کیا دیا؟ ہم نے کن معاملات میں خود کو الجھادیا ہے؟ ڈاکٹر ارسلان افتخار کے ذریعے عدلیہ پر حملہ کرنے والوں نے اس ملک کی کوئی خدمت نہیں کی، ہمیں یقین ہے کہ انہیں جلد اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔ لیکن ان کے اس عمل سے وطن عزیز کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، اس کا کفارہ کون ادا کرے گا؟
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.