مرد اور عورت

معاشرے کے دو اہم ستون جن پر معاشرے کی افزائش و بقاء ہے ۔مرد اور عورت ۔آج میں نے سوچاکیوں نہ قران کی طب کے متعلق عطاکردہ معلومات سے اکتسابِ فیض کیا جائے ۔چنانچہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ یَّخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِیعنی انسان کو چاہیے کہ غور کرے، وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے؟ وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے جو کمر اور چھاتیوں سے نکلتا ہے (الطارق :٥تا٧)۔اس آیت میں کمر سے نکلنے والے پانی سے مراد مرد کی منی ہے جس کا خزانہ مرد کی کمر میں ہوتا ہے اور چھاتیوں سے نکلنے والے پانی سے مراد عورت کی منی ہے جس کا خزانہ عورت کی چھاتیوں میں ہوتا ہے۔ بچے کی تخلیق میں مرد اور عورت کی نکلنے والی ساری کی ساری منی استعمال نہیں ہوتی بلکہ مرد کا صرف ایک جرثومہ عورت کے صرف ایک جرثومے میں پیوست اور مخلوط ہو کر بچے کی بنیاد رکھتا ہے۔ اﷲ کریم فرماتا ہے: اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ یعنی ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے(الانسان:٢)۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مَا مِنْ کُلِّ الْمَاءِ یَکُوْنُ الْوَلَدُ یعنی بچے کی پیدائش پر سارے کا سارا پانی استعمال نہیں ہوتا (مسلم جلد ١ صفحہ ٤٦٤ )۔ گویا محض ایک نطفے یا جرثومے سے بچے کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔

حبیب کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مزید وضاحت فرمائی ہے کہ:اِنَّ مَآءَ الرَّجُلِ غَلِیْظٌ اَبْیَضُ وَ مَآءَ الْمَرْأَۃِ رَقِیْقٌ اَصْفَرُ فَمِنْ اَیِّہِمَا عَلَا اَوْسَبَقَ یَکُوْنُ مِنْہُ الشِّبْہُ یعنی مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے جب کہ عورت کا پانی پتلا اور پیلا ہوتا ہے ان میں جو پانی غالب آ جائے یا سبقت لے جائے ،بچے کی شکل و شباہت اسی پر جاتی ہے(صحیح مسلم جلد١ صفحہ١٤٥)۔

اﷲ کریم نے تخلیقِ انسانی کا مکمل ضابطہ (Process) اس طرح بیان فرمایا ہے کہ : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ اَنْشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ یعنی بے شک ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا ،پھر ہم نے اسے ایک نطفے کی شکل میں محفوظ مقام میں رکھا ،پھر ہم نے اس نطفے کو خون کا لوتھڑا بنایا، پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کوچبائے ہوئے نوالے کی طرح کی بوٹی بنایا ،پھر ہم نے اس گوشت سے ہڈیاں پید اکیں۔ بالآخر ہم نے اُس کو ایک نئی مخلوق کی شکل میں تبدیل کردیا۔ پس اﷲ بہت ہی برکت والا ہے جو بہترین خالق ہے(المومنون :١٢تا١٤) ۔

اس آیت شریفہ میں رحم ِ مادر کے اندر بچے کے مدارج بیان ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے پانی یا نطفہ ہوتا ہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ نطفہ سخت ہو کر جم جاتا ہے جسے علقہ کہا جاتا ہے۔ علق سے مراد لٹکی ہوئی یا معلّق چیز ہے جو نہ پانی ہے اور نہ گوشت۔ بلکہ پانی اور گوشت کے درمیان معلّق ہونے کی وجہ سے علقہ کے نام سے موسو م ہوئی ہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ علقہ مزید سخت ہو کر باقاعدہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے جسے مضغہ کا نام دیا گیا ہے۔ عربی زبان میں مضغہ کا لفظی معنی ہے چبایا ہوا نوالہ۔ جب نوالے کو چبا کر اکٹھا کر دیا جائے اور پھر اس پر دانتوں کے نشانات باقی ہوں تو اسے عربی میں مضغہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد اس مضغہ میں مزید سختی آتی ہے اوروہ ہڈی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس ہڈی پر گوشت اور چمڑا چڑھا دیا جاتا ہے۔

محترم قارئین :دیکھا آپ نے کہ قران و حدیث نے کتنے خوبصورت پیرائے میں علم الابدان کے اس گوشے کوبیان کیا۔اللہ عزوجل ہمیں فہم دین کی نعمت سے بہرمند فرمائے۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593788 views i am scholar.serve the humainbeing... View More