جون کے اختتام سے قبل اور جولائی
کے بعد والے درمیانی عرصہ میں آزاد کشمیر کا محکمہ برقیات بقایا جات کی
وصولی کیلئے سردھڑ کی بازی لگا کر میدان میں عمل میں پوری توانائیوں کے
ساتھ سرگرم ہو جاتا ہے پیسہ اکٹھا کرنے کی دوڑ میں لالچی انسان کی طرح
بالکل اندھا ہو جاتا ہے سچ اور جھوٹ کی اسے پھر کوئی تعمیز نہیں ہوتی
کروڑوں روپے ماہانہ تنخوائیں اور مراعات حاصل کرنے والے لاڈلے آفیسران اور
ا ن کے ماتحت کام کرنے والے ملازمین کمال کی فرض شناسی اور ادارے کے ساتھ
اپنی نظریاتی وابستگی کو ثابت کرنے کیلئے صارفین کو اوسط یونٹیں اضافی
یونٹس کے بوگس بلات بھی دھڑا دھڑ جاری کر دیتے ہیں تاکہ اربوں روپے کا
متعلقہ ہدف پورا ہو جائے یہ ہدف چاہے غلط ہے یا درست اسے پورا کرنا ہی ہوتا
ہے اگرچہ بڑے بیوروکریٹس ہر سال کے اختتا م پر محکمہ برقیات کا وصولی ہدف
اپنی مرضی سے پوراکرتے ہیں لیکن ہر طرح کی مار دھاڑ کرنے کے باوجود پتہ
چلتا ہے کہ محکمہ برقیات پھرخسارے میں ہے کیا وجہ ہے کہ محکمہ برقیات اپنا
پورازور بھی لگا رہا ہے لوگوں کو ناجائز اور اوسط اورناجائز یونٹس ڈال کر
بند میٹروں کے بلات بھی کروڑوں نہیں اربوں روپے وصول کرتا ہے اور رزلٹ پھر
صفر ہے بات سمجھنے کی ہے جس قدر محکمہ برقیات کے ملازمین اور بیوروکریٹس
بجلی کے بلات خود ساختہ بقایا جات کی وصولی کیلئے سنجیدہ ہوتے ہیں اسی طرح
اگر یہی ساری مشنری اپنا سارا زور بجلی کی چوری کی روک تھام پر لگائیں تو
پھر واقعی کمال ہے محکمہ برقیات کو اس قدر آمدنی ہو کہ یہ آزاد کشمیر کے
دیگر محکموں کو ترقیاتی مد میں قرضہ بھی دے مگر ایسا نہیں امر واقع یہ ہے
کہ میرے انتہائی شفیق اور پیارے دوست جن کا نام لکھنا ضروری نہیں سمجھتا
ہوں کہ گھر جانے پر جائے گفتگو والے کمرے میں ونڈو اے سی پوری طاقت کے ساتھ
قابل تعریف کولنگ کر رہا تھا اسی دوران بجلی بند ہو گئی میرے دوست کا چھوٹا
بھائی اٹھا اور اس نے لائن کو چینچ اوور سے چینج کر دیا اور پھر بجلی چل
پڑی دیکھتا کیا ہوں کہ کہ اے سی چل رہا ہے کمرے میں کولنگ بہت ہو چکی ہے
میں نے عرض کی کہ اے سی کا ٹمپریچر کم کروتومیرے دوست فرمانے لگے کیا ضرورت
ہے کم کرنے کی کونسا میں نے بجلی کا بل دینا ہے میرے چچا کے دوست محکمہ
برقیات میں ملازم ہے برقیاتی دوست کا فائدہ اٹھا کر ہم بجلی کا بل بھی نہیں
دیتے کیونکہ میرا بجلی کا کنکشن بھی ڈائریکٹ لگا ہوا ہے یہ تمام باتیں سن
کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں یہ واقع صرف ایک ملازم کا ہے جس نے
اپنے دوست کے گھر بھی ڈائرکٹ کنکشن دیا ہوا ہے اور اس کے رشتہ دارکتنے ایسے
ہوں گے جو اپنی رشتہ داری کی بنیاد پر بجلی کا ڈائریکٹ کنکشن لیکر مفت بجلی
کے مزت لوٹ رہے ہیں ہے نہ لمحہ فکریہ ۔۔۔۔۔جس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے
ہرسال کروڑوں،اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اس اربوں روپے بجلی میں
صرف10فیصد ایسی بجلی ہے جو کسی ملازم کی نسبت کے بغیر چوری ہو رہی ہے
باقی90فیصد کے متعلق آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ریکوری ایسے ہوتی ہے جیسے
ہر آدمی ڈیفالٹر ہو حالانکہ ہر صارم ڈیفالٹر نہیں ہو سکتا بلکہ ڈیفالٹر کی
اکثریت ایسی ہے جو کسی اورکے گناﺅں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں یقینا حکومت کو
ایسی پالیسی بنانی چاہے یعنی بے لاگ بالیسی جس کے نفاذ سے ملازمین بجلی کے
غیر قانونی استعمال کو صرف اپنے حد تک محدود رکھ سکیں اگر ایسا ہو گیا تو
شائد کوئی ڈیفالٹر نہ رہے ۔۔۔۔۔۔ |