عورت کی حیثیت و اہمیت کل اور آج کے تناظر میں

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ!

وجودِ زن (عورت) اگر ماں ہے تو قربانی و ایثار کا پیکر ، بہن ہے تو چاہت کا سرچشمہ، بیوی ہے تو وفا کی دیوی، بلکہ عورت کا نام ہی صبر و تحمل ، برداشت، سلیقہ شعار اور وہ تمام خوبیاں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہیں وہ سب کی سب موجود ہیں۔ اسی لیئے تو یہ شعر جو میں نیچے درج کرنے جا رہا ہوں وہ صرف عورت کی ہی تصویر کشی کرتی ہے:
وجودِ زن ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز و دروں

ہمارے یہاں مسلمان خواتین کی زبوں حالی کے بے شمار اسباب ہیں ان میں چند وجوہات کا اگر عقلی بنیادوں پر تجزیہ کریں تو منجملہ دیگر وجوہات کے دو باتیں تو یقینی طور پر آپ کے سامنے آئیں گی ، اس میں سرِ فہرست تو تعلیم کا فقدان اور دوسرے نمبر پر عورت کی نفسیات جو طویل عرصے کی جہالت کے سبب اتنی مسلم ہو چکی ہیں کہ اس میں تبدیلی لانا نہایت کٹھن امر لگتا ہے ، تعلیم کا حصول خود اپنی جگہ ایک طویل مدتی کام ہے لیکن جہالت کے نتیجے میں عورت کی جو ذہنی کیفیت یا نفسیات بن چکی ہے اس کی تبدیلی کے لیئے ایک بہت طویل مدت درکار ہوگی۔ اسلام نے تمام مسائل کا بہترین حل پیش کر دیا ہے لیکن ظاہر ہے وہ اسی وقت مفید ہوگا جب اس پر تہہ دل سے عمل بھی کیا جائے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ ویسے تو مسائل اس وقت بڑھ جاتے ہیں جب قوم کا ذی حیثیت طبقہ غریب طبقے سے کٹ کر الگ تھلگ رہنے لگتے ہیں اور ان کے مسائل کو حل کرنے توجہ نہیں دیتے ۔ وسائل کی کمی ان کے ہر پلان کو ناکام بنا دیتی ہے اور بس وہ دو وقت کی روٹی کے چکر میں اپنی ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔

میاں بیوی کے روپ میں ہوں تو زندگی میں ہر وقت ایک دوسرے کے رفیقِ حیات اور ہمسفر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت و حاجت ہمہ وقت درپیش رہتی ہے۔ اسی لیئے تو کہتے ہیں کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کیونکہ قرآن مجید میں متعدد مرتبہ قرآن کریم نے نسل انسانی کی بقاءکو مرد و زن سے تعبیر کیا ہے جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کو جب تخلیقِ کائنات کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور آپ ہی کی بائیں پسلی سے آپ کی روح کی تسکین کیلئے اور زندگی کی تمام راحتوں کے لیئے حضرت حوا علیہما السلام کو وجود بخشا، اس لیئے یہاں یہ بات ثابت ہے کہ مرد کے وجود کی بقاءصنفِ نازک سے ہی ہے۔ دورِ جاہلیت میں جب کسی گھرانے میں بیٹی پیدا ہوا کرتی تھی جو اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا جبکہ بیٹی قدرت کا انمول تحفہ ہوتی ہے۔ قدرتِ الہٰی نے نسلِ انسانی کی بقاءو ارتقاءکے لئے مرد و زن کو لازم و ملزوم قرار دیا باوجود اس کے مردوں کا صنف نازک کو عار و عیب سمجھنا ، دختر کشی کرنا، اسقاط حمل کرنا یا نسل کشی کرنا نظامِ قدرتِ الہٰی کے خلاف جنگ کرنا تصور کیا جاتا ہے۔

ایامِ جاہلیت کا دور تھا جس میں صنف نازک کے ساتھ اس قدر ظالمانہ سلوک برتا جاتا تھا بچیوں کی پیدائش کو منحوس گردانا جاتا تھا۔ زندہ در گور کرنا تو جیسے اس ادوار کے لوگوں کا وطیرہ تھا۔ دورِ جاہلیت میں بے حیائی و بے شرمی عروج پر تھی اسی طرح اس وقت بھی اس بات کو ناپسند کیا جاتا تھا کہ ان کی بیویاں ، بیٹیاں کوئی ایسی نازیبا حرکت کرے جس سے ان کی عزت و ناموس کی شان داغدار ہو جائے اور سارے عرب میں ان کی ذلت ہو۔ لڑکی پیدا ہونے پر ماتم برپا کیا کرتے تھے۔ باپ کا چہرہ مارے غم کے زرد ی مائل ہو جایا کرتا تھا۔

اسلام نے خواتین کو بے لوث حقوق عطا کیئے ہیں اس کی دنیا بھر میں کہیں نظیر نہیں ملتی ۔ عورت کی ساخت اور نازک مزاجی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے عورت پر محدود ذمہ داری عائد کی ہیں اور یوں اس کے حقوق مردوں پر لازم و ملزوم ہوئے ہیں۔ یوں تو عورت ایک ماں، ایک بیوی، ایک بہن کے روپ میں معاشرے کو سدھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور آج تک کر رہی ہے اور شاید قیامت تک کرتی رہے گی۔ اسی لیئے اسلام نے ہر موقعے پر عورت کے تحفظ کو اولین بنایا ہے۔ اسلام نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر بچیوں کی اچھی پرورش کی جائے تو جنت کی خوشخبری سنائی جائے گی۔ اور ماں کی خدمت کو جنت میں پہنچنے کی ضمانت قرار دیا ہے۔ ویسے بھی کہتے ہی ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔اسلام نے مال متروکہ پر بھی عورت کے حقوق کی ادائیگی و وراثت کا حق دیا ہے۔ جو اسلام ہی کا ایک امتیاز ہے ورنہ دوسرے مذہب میں اس وراثت پر بھی شب خون مارا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ آج بچیوں کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ اور ان کی پرورش لوح و قلم میں کنجوسی کا عنصر نمایاں ہے۔ وراثت کے سلسلے میں بھی ٹال مٹول سے ہی کام لیا جاتا ہے۔

ویسے تو اسلام ایسا مذہب ہے جس پر عمل کرنا مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے نہایت آسان ہے۔ یہی نہیں ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے اس میں ہدایتیں اور لچک ملتی ہیں لیکن ہم نے اس لچک کا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش ہی نہیں کی، خواتین (عورت) گھر میں بیٹھ کر بہت سے ایسے کام سر انجام دے سکتی ہیں جو ان کی معاشی حالات کو سدھارنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ غریبوں کا استحصال آج تک جاری و ساری ہے۔

آج کی خواتین بڑی تذبذب کا شکارہیں کیونکہ مغرب کی طرف سے آنے والا سیلابِ فحاش جس نے عورت کی نسوانیت کو داغ دار بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ دوسری طرف خود اپنے ہی معاشرے میں حق تلفی و بے حسی کی فضا قائم و دائم ہے۔ آج ہماری عورتیں نماز سے دور ہیں ، قرآن کو بھلا بیٹھی ہیں ، ظاہر ہے کہ ایسا تمام خواتین کیلئے نہیں لکھا جا رہا کیونکہ زیادہ تعداد نماز و روزہ کے ساتھ پرہیز گاری کی زندگی بھی گزار رہی ہیں۔ جو کہ اسلام کا ہی شاخسانہ ہے۔ آج کی عورت عالمہ بھی ہے۔ مقررہ بھی ہے، ڈاکٹر، بینکر ،انجینئر، پائیلٹ بھی ہیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ تعلیمی میدان میں بھی خواتین کی دلچسپی خاص رہی ہے۔ جدید دور کی خواتین (عورت) مردوں کے شانہ بشانہ کام میں مشغول ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اسلامی طریقہ سے یہ تمام کام سر انجام دیتیں جس میں شرم و حیا کی زیور ڈوپٹہ کا استعمال ترک نہ ہوتا، کھلے عام چلنے پھرنے کی بجائے عبایہ کا استعمال بھی کر لیا جاتا، کیا تو جاتا ہے مگر اس ریشو سے نہیں جس کا اسلام نے ذکر کیا ہے۔

اُمّ المومنین حضرت خدیجة الکبریٰ طاہرہ رضی اللہ عنہا زوجہ رسول رحمت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تاریخِ انسانی کی وہ جلیل القدر خاتون ہیں جن کی بزرگی و عظمت کی برابری دنیائے انسانیت کی کوئی اور خاتون نہیں کر سکتی۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہ حیات ہونا ہی ان کے علوئے مرتبت کی دلیل ہے لیکن حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی عظیم الشان شخصیت کو خواتینِ اسلام میں وہ برتری حاصل ہے جو ان سے قبل یا بعد کسی خاتون کو نصیب نہیں ہوئی۔ نبی آخر زماں حضورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رفیقہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں محسنہ اسلام ہونے کا شرف بخشا اور انہیں قیامت تک پیدا ہونے والے ہر مسلمان مرد و عورت کی مقدس ماں کا دائمی رتبہ عطا کیا۔ ان کی نیک خصلت، صالح عادات و پاکیزہ اطوار کی وجہ سے لوگ انہیں طاہرہ کے لقب سے مخاطب کرتے تھے۔ وہ قبیلہ قریش کی سب سے زیادہ دولت مند اور صاحبِ ثروت خاتون تھیں۔ کیونکہ انہیں والد اور پہلے شوہروں سے بھی ترکے میں کافی مال و اسباب ملا تھا اس لیئے وہ تجارت کے پیشے سے بھی وابستہ رہی تھیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جب حضرت جبرئیل علیہ السلام ” اقرا بسم ربک....کا پیغام لیکر آئے تو اس بات کا ذکر بھی انہوں نے سب سے پہلے حضرت خدیجة الکبریٰ ؓکو ہی سنایایوں دنیا میں سب سے پہلے کلامِ الہیٰ سننے کا شرف بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ہی نصیب ہوا۔ یہ تو چند حقائق جو ان سے منسوب ہیں راقم نے تحریر کر دیا ہے اسی طرح بے حساب حقائق ہیں جو ان سے منسوب ہیں اور انہیں اپنا کر ہماری خواتین اپنا منصب و رتبہ اور بڑھا سکتیں ہیں۔

آج کی عورت میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے حسنِ سلیقہ سے جہاں تک ممکن ہو اپنے گھر کو ہر طرح کی بلاﺅں سے محفوظ رکھیں۔ آج بھی وہ اپنی خوبیوں، یعنی صبر و ضبط اور خاموشی کو یکسر نہ چھوڑیں، ان کے پاس نہایت مضبوط اور دھاری دار ہتھیار ان کا اپنا شعور اور سلیقہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو یکسر نظر انداز کر دیں، وہ باتیں جن کو تھوڑی سی سمجھ داری سے ٹالا جا سکتا ہے ان کو بڑھاوا نہ دیں۔ اپنے گھر کے ناخوشگوار حالات کو بدل کر خوشگوار فضا میں ڈھال سکتی ہے۔ اور یہ سب جبھی ممکن ہو سکے گا جب آج کی عورت بھی اسلام کی پیرو کار بن جائے، نماز و روزہ کی مکمل ادائیگی کرے، اور قرآنِ شریف سے شغف پیدا کرے،صرف دنیاوی رسومات اور فیشن سے نہیں بلکہ اوپر لکھے گئے تمام فرائض کو ادا کرکے ہی ہماری آج کی عورت مکمل عورت کہلائے گی۔
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.