کون بنے گا مسیحا پھر؟

کہتے ہیں کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچا لی ۔بلا شبہ زندگی اور موت کے درمیان جاری اس جنگ میں محتسب اللہ کی پاک ذات ہے اور اسی ذات نے فیصلہ کرنا ہے کہ کب کس کی جیت ہوگی۔اسی تناظر میں بہت سے لوگ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مسیحائی کی اگر بات کی جائے تو زمانہ قدیم میں علاج کا واحد ذریعہ حکیم ہو اکرتے تھے مگر جوں جوں انسان ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا گیااس نے جدت اپنا لی یہاں تک کہ مسیحائی کے انداز بدل دیے گئے۔ڈاکٹر اور بعد ازاں نرسنگ سٹاف کا تصور پیش کیا گیا۔صنف نازک کا انتخاب مسیحائی کہ اس شعبہ کے لیے اس لیے موزوں سمجھا گیا کہ ان کی فطرت کو حساسیت اور ہمدردانہ تصور کیا جاتا ہے۔پھر اس میں یہ محرکات بھی تھے کہ بنتِ حوا نے انسانی زندگی کے آغاز سے شفقت اور دیکھ بھال کا ذمہ ماں کی صورت میں لیا۔بہن کی صورت میں ہمدردانہ رویہ صنف نازک کے بہترین مسیحا ہونے کی دلیل بن کر سامنے آیا۔اب اگر ہم نے ان کو ہسپتالوں میں یا کلینک پر کام کرنے کس لیے چُن لیا تو ہم اس بات سے اکثر غافل ہو جاتے ہیں کہ اول تو یہ ہماری محسن ہیں جو ہماری خدمت میں اور جان بچانے میں اپنی صلاحیتوں کے بہترین استعما ل کے ذریعے سے کو شاں ہیں۔اور پھر یہی حوا کی اولاد ہمارے گھر میں ماں ،بہن ، بیٹی اور بیوی کی شکل میں بھی موجود ہے۔ان سب باتوں سے بالا تر ہو کر علم کی کمی ہمیں اس بات کے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ یہ در اصل حکومت یا ادارے کی نہیں ہماری ملازمت کے لیے مختص ہیں اور ان پر ادارے کی بجائے ہماری پسند اور خواہش کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔کبھی تو ان کو تنخواہیں نہ ملنے کا مسئلہ پھر اگر مل بھی گئی تو سب کی بڑھا دی گئی ان کی سب سے کم رکھی گئی ۔جب ان معاملات سے جان چھوٹی تو سامنے ایسے واقعات آنے لگے جن سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شائد ہم اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ہم بھی ایک عورت کے پیٹ میں نو ماہ تک اس کے زیر کفالت رہے۔ہسپتالوں میں نر سوں سے بد تمیزی کر نا کوئی نئی بات نہ تھی مگر اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ لوگ نعوذبااللہ اللہ کی پاک ذات کے شریک ہونے لگ گئے ہیں۔ہم نے اس بات کو بھلا دیا ہے کہ زندگی موت کا فیصلہ اللہ کی ذات نے کرنا ہے ہم نے یہ تصور کر لیا ہے کہ اگر مریض ہسپتا ل میں آگیا ہے تو اس کے بعد اس کی زندگی ڈاکٹر صاحبان کے ہاتھ میں ہے۔جہالت ،تشدد اور کم عقلی کا سب سے بڑا ثبوت میانوالی میں پیش آنے والا وہ واقعہ ہے جس میں ایک عورت 80%جلے ہوئے جسم کے ساتھ ہسپتال لائی گئی ۔ میڈیکل کے مطابق 40% تک جلنے کے بعد زندگی کی امید ایک فیصد رہ جاتی ہے۔مگر اس کی سانسوں کی ڈور اللہ نے چند دن تک باندھے رکھی۔ مگر جب وہ سلسلہ ٹوٹا تو لواحقین نے نا صرف انتظامیہ کو برے بھلے القاب سے نوازا بلکہ ڈیوٹی پر موجود ایک نرس کو تھپڑ مارے گئے اور اس کو گھسیٹنے کی کوشش بھی کی گئی۔جس کے خلاف مقدمہ تو جیسے تیسے کر کے درج ہو گیا مگر اس کے بعد گرفتاری کے لیے انہوں نے اتنی جدوجہد کی کہ اس سے درجنوں مریضوں کی زندگی داﺅ پر لگ گئی۔چار گھنٹے کے احتجاج کے بعد ملزم گرفتار ہوا ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت بل پاس کرتی جا رہی ہے مگر اس پر عمل کون کرائے گا؟ کون آکر میانوالی میں نرسوں کو تحفظ دے گا؟اگر اس سلسلے کو یہیں پر نہ روکا گیا تو اس کے نہ صرف سنگین نتائج بر آمد ہونگے بلکہ ہمیں سوچنا ہو گا کہ نظام نہ بدلا تو کون بنے گا مسیحا پھر؟ کون ایسے احسان فراموش اور جاہلانہ طبقہءفکر کے لیے اپنی صلاحتیوں کا استعمال کرے گا سوچنا ہوگا کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ہماری چند لمحوں کی خطاءہمیں صدیوں تک پچھتاوے کا سبب بن جائے۔کیونکہ جب انسانیت سے اعتماد اٹھ گیاتو وہ وقت دور نہیں جب انسان جنگلوں اور پتھروں کے دور میں واپس چلے جائیں گے۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 48083 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More