”ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ
سے ادنیٰ خبر بھی کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے
لیئے ہم یہودیوں کے لیئے ضروری ہے کہ ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا
بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو۔ اس صورت میں
ہم اس بات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی
خبر شائع نہ ہو۔“یہ اقتباس یہودیوں کی مقبول کتاب ”پروٹوکولز“ کے بارہویں
باب سے لیا گیا ہے۔ بظاہر دیکھنے میں تو یہ محض ایک عام سی کتاب لگتی ہے
مگر کئی اعتبار سے انوکھی ہے کیونکہ اس کتاب کو دنیا بھر سے منتخب کی گئی
یہودی داناﺅں کی ایک پوری جماعت نے لکھا ہے۔ پروٹوکول نامی اس کتاب میں صرف
پوری دنیا کے میڈیا پر کنٹرول ہی نہیں بلکہ وسیع تر اسرائیل کا جو پلان
بتایا گیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہودی بہت جلد پوری دنیا پر قابض ہو
جائیں گے جبکہ آخر میں انہوں نے چند پروٹوکول بھی لکھے ہیں کہ دنیا پر قبضے
کے بعد وہ کس طرح حکومت کرینگے۔
پروٹوکولز کا نام پانے والی دستاویزات کی کل تعداد چالیس سے زیادہ بتائی
جاتی ہے اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ پاکستان
میں پہلی بار مصباح السلام فاروقی نے ”جی وِش کنسپائریسی“ کے نام سے
پروٹوکولز کا انگریزی ترجمہ جبکہ محمد یحییٰ خان نے ”یہودی پروٹوکولز“ کے
نام سے اردو ترجمہ کیا ہے۔ یہ صیہونی پروٹوکولز متعدد اعلیٰ پائے کے یہودی
تاریخ دان نہ صرف جھٹلا چکے ہیں بلکہ یہودی اس کے نسخے خرید کر تلف بھی
کرتے رہے۔ یہودی تاریخ دانوں کے مطابق پروٹوکولز مکمل طور پر ایک من گھڑت
کہانی ہے جسے اس ارادے کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے کہ یہودیوں کو کئی برائیوں
کے لیئے مورد الزام ٹھہرایا جا سکے لیکن موجودہ حالات سو فیصد ان کی
موجودگی کا اقرار کرتے ہیں جو کہ آج سے ایک صدی پہلے لکھے گئے۔ پروٹوکولز
نامی اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو دنیا میں موجود غربت، بیروزگاری،
نفسانفسی، مادہ پرستی، بے سکونی، جنگ و جدل، جرائم اور فحاشی جیسے مسائل کی
موجودگی کی اصل وجہ معلوم ہو جائے گی۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فرنگ کی
رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ آج نہ صرف پوری دنیا کے
معاشی نیٹ ورک پر یہودی قابض ہیں بلکہ وہ سیاست اور صحافت سمیت ہر شعبہ
زندگی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ خالص صیہونی میڈیا
سمجھا جاتا ہے جو کہ ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے حتیٰ کہ عالمی
حالات پر بھی اس میڈیا کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ ہم اس کے منفی پروپیگنڈوں
کے باوجود بھی اسے اپنے قومی میڈیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ
دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں لیکن
یہی میڈیا عوام کی برین واشنگ کےلئے ایک موثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال
ہو رہا ہے۔ دنیا کی طاقت ور لابیاں اپنے مقاصد کے لیئے ذرائع ابلاغ کو
ڈھٹائی سے استعمال کر رہی ہیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب
رہی ہیں۔
برین واشنگ یا ذہنی دھلائی سے مراد غیر اخلاقی طور پر انفرادی یا اجتماعی
سطح پر کسی کے خیالات کو اپنی مرضی کے تابع کرنا ہے۔ عموماً یہ عمل مفعول
کی مرضی کیخلاف سرانجام دیا جاتا ہے اور یہ کام نفسیاتی یا غیر نفسیاتی
طریقے کی مدد سے سرانجام پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مفعول اپنی سوچ، اپنے
رویئے، اپنے جذبات اور اپنی قوتِ فیصلہ پر اپنا قابو کھو دیتا ہے۔ برین
واشنگ یا مائنڈ کنٹرول کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی آدمی سے اس کا ہر طرح
کا ماحول، اس کی خوشحالی اور فلاح کی تمام راہیں چھین کر اسے تنہا کر دیا
جائے۔ مائنڈ کنٹرول کا شکار آدمی حقیقت اور فکشن میں فرق نہیں کر پاتا اور
جھوٹ کو بھی اپنے تئیں حقیقت ہی سمجھتا ہے۔ مغرب یہ جانتا ہے کہ آج کا دور
میڈیا، برین واشنگ اور فکری یلغار کا ہے۔ اس لیئے وہ اسلام کا مقابلہ کرنے
اور اسے پسپا کرنے کے لیئے نت نئے طریقے استعمال میں لاتا ہے۔ وہ باہر سے
بھی دباﺅ ڈالتا ہے اور اندر سے بھی جڑیں کھوکھلی کرکے نقب لگاتا ہے۔ آج کے
دور میں ہم سر سے پاﺅں تک دجالی نظام میں جکڑے جا چکے ہیں۔ جس طرح سے
آہستگی کے ساتھ پوری دنیا پر دجالی نظام قائم ہوتا جا رہا ہے آج معاشی،
سیاسی اور سماجی طور پر تقریباً پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔
آج کے ماڈرن دور میں جدید ایجادات کے ذریعے حکومتیں میڈیا مائنڈ کنٹرول کے
ذریعے کسی قوم کو اپنے تابع کرنے کی بھرپور کوششیں کرتی ہیں۔ مثال کے طور
پر نائن الیون کے جعلی حملے، عراق میں جوہری توانائی و کیمیائی ہتھیاروں کا
جھوٹا پروپیگنڈہ وغیرہ۔ اسی چیز کا نام مائنڈ کنٹرول آف میڈیا ہے ۔ مائنڈ
کنٹرول یا برین واشنگ کے لیئے ٹی وی اور میس میڈیا کا استعمال اب ایک سائنس
بن گیا ہے اور یہ میڈیا ایک نہایت طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا
ہے۔ اس وقت عالمی یہودی میڈیا اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف برین
واشنگ کرکے یہودی مفادات کے لیئے سرگرم عمل ہے۔اس دجالی میڈیا سے قومی
ذرائع ابلاغ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ ہمارے قومی میڈیا کے ذریعے
بعض معاملات پر ایسے برین واشنگ کی جاتی ہے کہ حیرانی کے سوا کچھ نہیں کیا
جا سکا۔ آج کل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کی دھلائی کرکے جس طرح امریکی
اور یہودی مفادات کی ترجمانی کی جاتی ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا
اور یورپ سمیت متعدد ممالک کا میڈیا اب جیوش نیوز (Jewish News) بن گیا ہے۔ |