باخبر صحافیوں کو پہلے سے ہی علم
ہو چکا تھا کہ ایک خوفناک سازش جنم لے رہی ہے ۔تصدیق اس وقت ممکن نہ تھی
اور اس ڈر سے بات لبوں تک آتے آتے دم توڑ دیتی تھی کہ کہیں انجانے میں کسی
ایسی سازش کا حصہ نہ بن جائیں جس سے پاکستان کا وقار اور عدلیہ کی ساکھ
کمزور ہو لیکن صحافتی تجسس مزید تحقیق پر بھی ابھارتا تھا کہ اگر کوئی
کرپشن ہوئی ہے تو اسے چھپانے کے گنا ہگار نہ بن جائیں۔ یقین اور بے یقینی
کی سی کیفیت تھی ۔ ایک طرف ملک ریاض تھے جنہوں نے غریبوں کے لیے اعلٰی درجے
کا دسترخوان سجانے کا کارنامہ انجام دیا ۔ ایک ایسا دسترخوان جہاں یہ خیال
رکھا جاتا ہے کہ آنے وا لے مزدور اور بے گھر شخص کو مہمانوں کا سا مکمل
پروٹوکول دیا جائے اور اس کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیا جائے ۔ ملک ریاض
نے سڑکوں پر کھانا بانٹنے یا فٹ پاتھ پر غریبوں کو کھانا کھلانے کی پرانی
روایت کا خاتمہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ غریب شخص بھی عزت اور احترام کے
لائق ہے ۔ اس نے غریبوں کو کرسی میز پر کھانا کھلایا اور انہیں ویٹر سروس
فراہم کی ۔ دوسری طرف چیف جسٹس کا نام تھا جنہوں نے اتنے سوموٹو ایکشن لیے
کہ خودبخود ثابت ہو گیا کہ ان کا دامن کرپشن سے پاک ہے ورنہ مختلف اداروں
اور اہم افراد کے خلاف ایکشن لینا اور انہیں سزائیں سنانا ممکن نہ تھا ۔
ملک ریاض کے متعدد کیس سپریم کورٹ میں تھے اور ان کیسسز میں سے اکثر کا
فیصلہ ملک ریاض کے خلاف سنایا گیا ۔چھوٹی عدالتوں میں کرپشن کا علم اکثر
صحافیوں کو ہی نہیں عام لوگوں کو بھی ہے ۔ فیصلہ کس طرح اپنے حق میں کروایا
جاتا ہے اس کا علم بھی متعدد لوگوں کو ہے لیکن یہاں بات چیف جسٹس کی تھی
جنہیں انصاف فراہم کرنے اور نہ بکنے پر اعزازات دیے جا رہے تھے ۔ جہاں تک
مجھے علم ہے ملک ریاض نے ارسلان کے خلاف اس کیس میں کوئی مقدمہ درج نہیں
کروایا تھا ۔ انہوں نے دوسرے راستے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے
میں میڈیا اور دیگر لوگوں سے رابطہ کیا لیکن چیف جسٹس نے اس بارے میں اطلاع
ملتے ہی اپنے بیٹے کے خلاف ایکشن لے لیا اور ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا کہ
وہ انصاف کے راستے میں کسی کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گے ۔ جیسے ہی کیس کی
سماعت شروع ہوئی تو ایک نیا اعتراض آگیا کہ چیف جسٹس اپنے بیٹے کے کیس کا
فیصلہ کریں گے تو انصاف نہیں ہو سکے گا ۔ چیف جسٹس نے پھر ایک روایت قائم
کرتے ہوئے خود کو بنچ سے الگ کر لیا۔ اب یہ سوال اٹھایا جا ئے گا کہ چیف
جسٹس اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیں ورنہ اس عہدے پر ان کی موجودگی انصاف کے
راستے میں رکاوٹ بن جائے گی ۔ یہ بھی سرگوشیاں کی جائیں گی کہ وہ بنچ سے
الگ ہونے کے باوجود وہ عدالتی عملے اور ججز پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کھیل چیف جسٹس کو ان کے عہدے سے الگ کرنے کے لیے
کھیلا گیا؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ گیم دو تین سال سے چل رہی تھی
اور ملک ریاض ارسلان کو رشوت کے طور پر بھاری رقم دے رہے تھے تو یہ پٹاری
ان دو تین سالوں میں کھولنے کی بجائے عین اس وقت کیوں کھولی گئی جب چیف
جسٹس نے وزیر آعظم کو سزا سنانے کے ساتھ ساتھ دوہری شہریت کے حامل افراد کو
اسمبلی اور سینٹ سے نکال باہر پھینکنا شروع کیا؟ اسی طرح یہ سوال بھی اہم
ہے کہ ملک ریاض جیسی شخصیت جو کہ قانونی طریقہ کار سے بخوبی واقف ہے اور جن
کے کئی مقدمات اعلی عدالتوں میں چل رہے ہیں ، انہوں نے ارسلان کے خلاف کسی
قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی جبکہ اس کے بر عکس میڈیا کے کچھ لوگوں کو
الگ الگ ارسلان کے خلاف دستاویز دکھائیں اور اس حوالے سے بریفنگ دی اس سے
بھی دلچسپ بات یہ تھی کہ ملک ریاض نے ان میں سے کسی بھی صحافی کو یہ
دستاویز یا ان کی کاپی نہیں دی ۔ یہاں یہ بات بھی اہم تھی کہ ملک ریاض نے
یہ دستاویز کسی پریس کانفرنس میں شو نہیں کیں یعنی جو باتیں ہوئیں اور جو
دستاویز دکھائی گئیں وہ ابھی تک ملک ریاض کی ملکیت ہیں اور کسی صحافی کے
پاس نہیں ہیں ۔ ملک ریاض اگر ایسی کسی دستاویز کی موجودگی سے انکار کر دیں
یا عدالت میں کہہ دیں کہ انہوں نے کسی صحافی سے نہ تو ایسی کوئی بات کی اور
نہ دستاویز دکھائیں تو اس حوالے سے پروگرام کرنے والے صحافیوں کی پوزیشن
کیا ہو گی؟ یہ وہ پتے ہیں جو ملک صاحب آہستہ آہستہ شو کریں گے البتہ ہمارے
سینئر صحافیوں نے ایک بہت بڑی غلطی یہ کی کہ صحافت کا پہلا اصول بھلا دیا
کہ ایسی رپورٹس دینے سے پہلے متعلقہ ثبوت اپنے قبضہ میں کر نا ضروری ہے ۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر ملک ریاض اس بات پر قائم رہتے ہیں کہ انہوں نے
اپنے مقدمات میں فوائد حاصل کرنے کے لیے چیف جسٹس کے بیٹے کو پیسے دیے تھے
تو کیا وہ کیس جیتنے یا ہارنے دونوں صورتوں میں سزا کے اہل بن جائیں گے؟
اگر وہ کیس ہار گئے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی لیکن اگر وہ کیس جیت
گئے اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ انہوں نے ارسلان کو پیسے دیے
تھے تو کیا ان کے خلاف رشوت دینے اور چیف جسٹس کو خریدنے کی بھر پور کوشش
کا مقدمہ درج نہیں ہو گا اور انہیںاس حرکت پر سزا سنائی جائے گی؟ اب اگر
ملک ریاض اس بات سے انکار کر دیں کہ انہوں نے کسی صحافی کو دستاویز دکھائی
ہیں یا ارسلان پر الزام لگایا ہے تو پھر اس ایشو پر پروگرام کرنے والے
صحافی کٹہرے میں آئیں گے اور ورنہ دوسری دونوں صورتوں میں سزا ملک ریاض کا
مقدر بن چکی ہے چاہے اکیلے کاٹیں چاہے ارسلان کے ساتھ !! |