وسیلہ اور ضعیف احادیث (١)
محترم بھائیو۔ السلام علیکم ،
میرے چند بھائیو کا یہ اصرار تھاکہ میں وسیلہ کے بارے میں اپنا موقف واضح
کروں اور اسی بنا پر میں نے یہ مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وسیلہ کے
بارے میں اپنے بھائیوں کے اشکال دور کر سکوں۔
اسلام نے وسیلہ کو قطعی طور پر واضح کردیا ہے اور اس میں کسی بھی چور
دروازے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن اور حدیث صحیحہ میں اس کا واضح
بیان موجود ہے وسیلہ کی جائز صورتوں کو بیان کرنے سے قبل ہم اس کے بارے میں
مختصر سی وضاحت رکھتے ہیں۔
وسیلہ
وسیلہ کا لفظ عربی اور اردو دونوں میں استعمال ہوتا ہے مگر دونوں کے معنی
میں زمین آسمان کا فرق ہے قرآن مجید میں وسیلہ قرب کے معنی میں استعمال ہوا
ہے اور اردو لغت میں یہ با معنی ذریعہ اور واسطے کے استعمال ہوتا ہے قرآن
مجید میں ارشاد ہوتا ہے “ اے ایمان والوں“ اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی طرف
تقرب اور جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ(سورہ المائدہ ٣٣)
بعض افراد لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کا اردو والا معنی لیتے ہیں یعنی
اللہ کی جانب ذریعہ تلاش کرو چنانچہ وسیلہ کے یہ مفہوم سلف و اکابریں سے
ثابت نہیں ہے اس کی تفسیر مجاہد، ابو وائل، عطا رحم اللہ علیہم نے تقرب الی
اللہ کی ہے اور قتادہ فرماتے ہیں “ اللہ کا تقرب اس کی فرمابرداری اور
پسندیدہ عمل سے حاصل کرو،(تفسیر طبری جلد ٤ ص ٥٦٧ سورہ المائدہ ٣٣) چنانچہ
اکابرین سے اس کے معنی تقرب فی العمل و اطاعت ہے اور اس کے معنی ذریعہ اور
واسطہ سلف اور اکابرین سے ثابت نہیں ہے، اس مختصر سی وضاحت کے بعد ہم ان
صورتوں کی جانب چلتے ہیں جو قران اور صحیح حدیث میں وسیلہ کے بارے میں بیان
ہوئی ہیں اور یہ وسیلہ کی وہ صورتیں ہیں جن کو اسلام نے جائز رکھا ہے۔
(١) اللہ کے اسماء مبارکہ کا وسیلہ:
اللہ کے ناموں کے وسیلہ سے مانگنا جائز ہے قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے “
اللہ کے نام سب اچھے ہیں تو اسے انہی ناموں سے پکارو“ (سورہ الاعراف ١٨٠)
اور اس کے دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پریشانی میں ہوتے
تو اللہ کے ناموں کے وسیلہ سے پکارتے تھے
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ“ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کو
کسی بات کی پریشانی ہوتی تو فرماتے اے حی القیوم میں تیری رحمت کے ساتھ تجھ
سے فریاد کرتا ہوں۔(سنن ترمزی کتاب الدعوت رقم ٣٥٢٤) یہاں میں امام ابو
حنیفہ کا قول نقل کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے مانتے والے جس وسیلہ کو جائز
کہتے ہے امام ابو حنیفہ اس کو ناجائز مانتے تھے " امام ابو حنیفہ فرماتے
ہیں : کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ الله کے ناموں کے علاوہ کسی مخلوق کے
وسیلے سے الله کو پکارے (شرح کرخی کتاب الکرہت )تو امام ابو حنیفہ بھی
مخلوق کے وسیلہ سے مانگنے کے قائل نہیں ہیں اب ان کے مقلد شاید ان کی بات
مان لیں .
(٢) نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ: احادیث میں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کسی
نیک آدمی سے دعا کی درخواست کی جاسکتی ہے چنانچہ اس کی دلیل متعدد احادیث
سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم سے
دعا کی درخواست کیا کرتے اور آُپ کے وصال کے بعد عباس رضی اللہ عنہ سے بارش
کی دعا کی درخواست کی گئی (صحیح بخاری کتاب استسقاء ١٠١٠ )
بعض حضرات اس سے یہ دلیل اخذ کرتے ہیں کہ ہم بھی اولیا الله کی قبر پر جا
کر ان سے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ اپ ہمارے حق میں دعا فرمائیں یا اس
طرح کہتے ہیں کہ اے الله اس بزرگ اور نیک ولی کے وسیلے سے ہماری دعا قبول
کر یہ استدلال باطل ہے نبی صلی الله علیھ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام
رضی الله عنہم نے نبی صلی الله علیھ وسلم کی قبر پر جا کر اس طرح سے کبھی
دعا کی درخواست نہیں کی ہے بلکہ قحط کے دور میں بھی عباس رضی الله عنھ کے
پاس دعا کروانے گئے ہیں اور عباس رضی الله عنھ نے بھی ان سے یہ نہیں فرمایا
کہ میرے پاس کیوں آئیں ہیں جبکہ نبی صلی الله علیھ وسلم اپنی قبر میں حیات
ہیں تو نبی کے حیات ہوتے ہوے میرے پاس کیوں آتے ہو مگر عباس رضی الله عنھ
نے ایسا کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ بھی صحابہ کرام رضی الله عنھم کی طرح جانتے
تھے کے نبی صلی الله علیھ وسلم کا وصال ہو گیا ہے اب نبی صلی الله علیھ
وسلم کے پاس دعا کے لئے نہیں جا سکتے اس لئے عباس رضی الله عنھ صحابہ کرام
رضی الله عنھم کے ساتھ دعا میں شریک ہوۓ.
ان دلائل سے یہ معلوم ہوا کے زندہ آدمی سے دعا کروائی جا سکتی ہے قبر پر جا
کر کسی سے دعا درخواست کرنا جائز نہیں ہے ورنہ صحابہ کرام رضی الله عنھم
نبی صلی الله علیھ وسلم کی قبر پر ضرور دعا کے لئے جاتے کیونکہ وہ جانتے
تھے کے نبی صلی الله علیھ وسلم کا وصال ہو گیا ہے اور اب ان کی قبر پر جاکر
دعا کرنا جائز نہیں ہے. اگر صحابہ کرام سے کوئی ایسی بات ثابت ہو تو ضرور
مجھے بتایا جائے .
(٣) نیک اعمال کا وسیلہ : الله کی بارگاہ میں اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے
دعا کی جا سکتی ہے اور اس کی دلیل قرآن اور حدیث میں موجود ہے "جو الله سے
فریاد کرتے ہیں اے پروردگار ہم ایمان لائے سو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور
ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا "(سوره ال عمران ٥٣ ) اور صحیح مسلم کی ایک طویل
حدیث میں موجود ہے کہ تین لوگ ایک غار میں بند ہو گئے تو انھوں نے اپنے نیک
اعمال کے وسیلے سے دعا تو الله نے ان کی دعا کو قبول فرمایا (مسلم رقم ٢٧٤٣
باب قصہ اصحاب الغار )
یہ چند صورتیں ہیں جن کو وسیلے کے باب میں جائز رکھا ہے اور اس کے علاوہ
کوئی صورت موجود نہیں ہے اگر ہے تو اسے قرآن اور صحیح حدیث یا پھر صحابہ
کرام رضی الله عنھم کے عمل سے ثابت کرے ١٠٠٠ ہجری کے بعد کے چند علما کا
کوئی قول حجت نہیں ہے اب ہم ان ضعیف روایات کی جانب آتے ہیں جو اس حوالے سے
عموما پیش کی جاتی ہے یہ تمام روایات ضعیف ہیں اور یہ میں کبائر محدثین کے
اقوال سے ثابت کروں گا .
وسیلہ سے متعلق ضعیف احادیث
(١) عمر بن خطاب رضی الله عنھ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیھ وسلم نے
فرمایا جب آدم علیھ السلام سے خطا ہوئی تو انھوں نے الله سے عرض کیا اے
مالک میں تجھ سے محمد صلی الله علیھ وسلم کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں میری
مغفرت فرما الله نے فرمایا تو نے محمد صلی الله علیھ وسلم کو کیسے پہچان
لیا میں نے ابھی ان کو پیدا بھی نہیں کیا ہے آدم علیھ السلام نے عرض کی اے
مالک جب تو نے مجھ بنایا اور جب میرے اندر روح ڈالی تو میں نے اپنا سر
اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر لکھا دیکھا تو میں نے سمجھ لیا کہ کہ تیرے نام
کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تجھے سب سے زیادھ محبوب ہے اے آدم علیھ
السلام تو نے سچ کہا مجھے سب سے زیادہ وہی محبوب ہے اب جبکہ تم نے ان کے
وسیلے سے دعا کر لی ہے تو میں نے تجھے معاف کیا اگر محمد صلی الله علیھ
وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا.
(مستدرک حاکم رقم ٤٢٢٨ دلائل النبوی للبیہقی ٥/٤٨٩ ، طبرانی الکبیر رقم ٩٩٢
اوسط ٦٥٠٢ )
تحقیق : اس روایت کی تمام اسناد میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے اور جس کے
بارے میں محدثین فرماتے ہیں .
امام حاکم فرماتے ہیں عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے جو بھی اپنے والد سے
بیان کیا ہے وہ سب من گھڑت ہے (المدخل الی مرفہ الصحیح و السقم جلد ١ ص
١٧٠)
امام بخاری فرماتے ہیں : وہ بہت زیادہ ضعیف ہے ، ابن جوزی فرماتے ہیں :
محدثین کا اجماع ہے کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہے (تہذیب التہذیب
جلد ٥ ص ٩٠ ترجمہ ٣٩٧٤ )
بعض حضرات عوام کو گمراہ کرنے کے لئے امام حاکم کے حوالے سے یہ بیان کرتے
ہیں کہ انھوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب مستدرک میں صحیح کہا ہے مگر یہ ان کا
اس دور کا قول ہے جب ان کے حفظ میں تغیر ہو گیا تھا اور انہوں نے بہت سی
احادیث کو صحیح کہا تھا جبکہ وہ ضعیف تھی اور ان میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے
چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " امام حاکم نے آخری عمر میں مستدرک تصنیف
کی تھی اور اس وجہ سے وہ غفلت کا شکار ہو گئے تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ
انھوں نے اپنی "الضعفا " میں جن راویوں سے روایت لینا ترک کر دیا اور ان سے
احتجاج اخذ نہیں کیا پھر ان میں سے بعض سے اپنی مستدرک میں روایات لی ہے
اور اس کو صحیح بھی کہا ہے اور ان میں سے ایک عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے
جس کے بارے میں انھوں نے اپنی "الضعفا" میں لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن زید بن
اسلم نے جو بھی اپنے والد سے بیان کیا ہے وہ سب من گھڑت ہے. (لسان المیزان
جلد ٦ ترجمہ ٧٦٦٦ )
حافظ ابن حجر کی وضاحت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امام حاکم نے جو مستدرک
میں اس حدیث کو صحیح کہا یہ وہ ان کا تغیر کے زمانے کا قول ہے جبکہ ان کے
اصل اور راجع قول وہی ہے جو ہم نے اوپر نقل کیا ہے تو امام حاکم کے نزدیک
بھی یہ حدیث من گھڑت ہے .
(٢) ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں " الله نے عیسیٰ علیھ السلام کو
وحی کی کہ ایمان لاؤ محمد صلی الله علیھ وسلم پر اور اپنی امت کو حکم دو جو
ان کا زمانہ پاے وہ ان پر ایمان لائیں اور محمد صلی الله علیھ وسلم نہ ہوتے
تو میں آدم علیھ السلام کو نہ پیدا کرتا نہ جنت جہنم بناتا اور جب میں نے
پانی پر عرش قائم کیا تو اس میں لرزش ہوئی تو میں نے اس پر لا الہ الا الله
محمد رسول الله لکھا تو وہ ٹھہر گیا .
(مستدرک حاکم رقم ٤٢٢٧ )
تحقیق : اس روایت میں سید بن ابی عروبہ موجود ہے اور اس کو آخری عمر میں
اختلاط ہو گیا تھا اس بارے میں محدثین فرماتے ہیں .
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : وہ کثرت سے تدلیس کرتا تھا اور اور اس کا حافظہ
بگڑ گیا تھا (تقریب التہذیب جلد ١ ترجمہ ٣٤٣٩ )چنانچہ اس کے اختلاط کے بارے
میں محدثین فرماتے ہیں " امام نسائی فرماتے ہیں جس نے اس سے اختلاط کے بعد
سنا اس کی کوئی حثیت نہیں ہے اور اسی طرح ابن معین نے فرمایا ہے ( تہذیب
التہذیب جلد ٣ترجمہ ٣٤٣٩ )
عمرو بن اوس : یہ راوی مجہول ہے اور دوسرا اس نے سعید بن ابی عروبہ اس کے
زمانے اختلاط میں روایت کی ہے (تحریر تقریب التہذیب جلد ١ ص ٣٨ )
اور اس عمرو بن اوس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں " یہ مجہول الحال
راوی ہے یہ ایک منکر خبر لایا ہے جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل
کیا ہے وہ روایت من گھڑت ہے جو جندال بن والق کی سند سے نقل ہوئی ہے
.(میزان الاعتدال جلد ٣ ترجمہ ٦٣٣٠ )
ان دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے اور اس کی وجوہات یہ
ہیں (١) اس میں سعید بن ابی عروبہ نے تدلیس کی ہے.(٢) عمرو بن اوس مجہول ہے
اور اس نے سعید بن ابی عروبہ سے اختلاط کے زمانے میں روایت کی ہے اور اس
دور میں اس کی روایت قبول نہیں ہے (٣) اس روایت کو امام ذہبی نے من گھڑت
کہا ہے .
یہ تمام وجوہات اس روایت پر عدم حجت قائم کرتی ہیں .
(٣) ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں خبیر کے یہودی غطفان قبیلے سے جنگ
کرتے تو ان کو شکست ہو جاتی پھر یہودی یہ دعا کرتے " اے الله ہم تجھ سے نبی
صلی الله علیھ السلام وسیلہ سے سوال کرتے ہیں جن کو تو نے آخری زمانے میں
بھیجھنے کا وعدہ کیا ہے کہ ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما راوی کہتے ہیں
جب بھی وہ غطفان کے سامنے یہ دعا پڑھ کر آتے تو وہ ان کو شکست دیتے .
(مستدرک حاکم رقم ٣٠٤٢ )
تحقیق : اس روایت میں عبدالملک بن ہارون بن عنترہ موجود ہے جس نے اپنے والد
سے روایت کیا ہے راوی بلاتفاق محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اس کے بارے میں امام
ذہبی فرماتے ہیں عبدالمالک متروک ہے اور انھوں نے محدثین کے اقوال نقل کیے
ہیں " امام احمد : عبدالمالک ضعیف ہے ، امام ابن معین : کذاب ہے ،امام حاتم
: متروک ہے ،امام ابن حبان : وہ حدیث گھڑتا تھا .(میزان الاعتدال ترجمہ
٥٦٨٥ )
اس کے علاوہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " اس پر حدیث گھڑنے کا الزام ہے .
صالح بن محمد : اس کی روایت جھوٹی ہوتی ہیں ، امام حاکم : اس کی روایات اس
کے والد سے من گھڑت ہیں ،امام ابو نعیم : اس کے والد سے اس کی روایات منکر
ہیں (لسان المیزان ترجمہ ٥٣٥٩ )
یہ راوی من گھڑت روایات بیان کرتا تھا اور یہ روایت بھی من گھڑت ہے اس لئے
اس سے وسیلے باطلہ کے باب میں کچھ ثابت نہیں ہوتا .
(٤) ابوھریرہ رضی الله عنھ سے (ایک طویل روایت ہے ) جنگ یمامہ کے موقعہ پر
خالد بن ولید رضی الله عنھ نے بلند آواز سے فرمایا میں ولید کا بیٹا ہوں
پھر انھوں نے مسلمانوں کا جنگی نعرہ بلند کیا ان دنوں مسلمانوں کا جنگی
نعرہ یا محمداہ صلی الله علیھ وسلم (اے محمد صلی الله علیھ وسلم مددکریں )
تھا .
تحقیق : اس روایت میں سیف بن عمر التمیمی محدثین کے نزدیک بلاتفاق ضعیف ہے
ابن معین : ضعیف الحدیث ہے اس سے کوئی خیر (صحیح روایت ) نہیں ہے اور امام
حاتم نے متروک الحدیث اور امام نسائی اور دارقطنی نے ضعیف کہا ہے اور ابن
حبان نے اس کو ثقه راویوں سے من گھڑت روایات بیان کرنے والا کہا ہے (تہذیب
التہذیب جلد ٣ ترجمہ ٢٨٠٠ )
یہ روایات اس راوی کے سبب ضعیف ہے اور نا قابل حجت ہے .
(٥) عبدالرحمن بن سعد بیان کرتے ہیں ہم عبدالله بن عمر رضی الله عنھ کے
ساتھ تھے تو ان کا پیر سن ہو گیا تو میں نے عرض کیا اے ابو عبدالرحمن اپ کے
پیر کو کیا ہوا انھوں نے کہا میرے پٹھے کھچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا تمام
ہستیوں میں جو اپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کو یاد کریں انھوں نے یا محمد
صلی الله علیھ وسلم کا نعرہ لگایا اسی وقت ان کا پیر ٹھیک ہو گیا .
تحقیق : اس روایت کو امام بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن السنی نے عمل
الیوم و اللیل میں مختلف اسناد سے نقل کیا ہے ابن عمر رضی الله عنھ سے مروی
روایت میں اسحاق السیعبی موجود ہے اور وہ مدلس ہے اور اس میں اس نے "عن "
سے روایت کی ہے اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے امام نووی فرماتے
ہیں " جب مدلس "عن " سے روایت کرے تو وہ قابل قبول نہیں ہے ہاں اگر وہ
دوسری صحیح سند سے نہ ثابت ہو (مقدمہ مسلم جلد ١ ص ١١٠ باب نہی عن الحدیث
بکل ما سمع ) اور ابن حجر اس کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ یہ مدلس راوی ہے
" تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور تابی ثقہ ہے (تہذیب التہذیب جلد ٦ ترجمہ
٥٢٣٢ ، طبقات المدلسین ترجمہ ٢٥ )
اور اس کی دیگر اسناد میں غیاث بن ابراہیم اور ابو بکر الھزلی ہیں (١) غیاث
بن ابراہیم کے بارے میں ابن معین فرماتے ہیں خبیث کذاب تھا (معرفہ الرجال
ترجمہ ٤٤ ) (٢) ابو بکر الھزلی کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں : ابن معین
وہ ثقہ نہیں ہے ابو زرعہ فرماتے ہیں ضعیف ہے امام نسائی فرماتے ہے کہ اس سے
حدیث نہیں لی گئی ہے (تہذیب الکمال جلد ٣٣ ترجمہ ٧٢٦٨ )
یہ تمام روایات اس قابل نہیں ہیں کہ وسیلہ کے باب میں ان سے حجت لی جائے .
(٦) نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا اگر تم الله سے کچھ مانگو تو میرے
وسیلے سے مانگو .
تحقیق : اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے یعنی یہ کتب حدیث کی کسی متعبر کتاب
میں نقل نہیں ہوئی ہے اس کو صرف امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب القاعدہ
الجلیله میں نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس کے کوئی اصل نہیں ہے (مجموعہ
الفتاوی ابن تیمیہ ١/ ٣١٩ سلسلہ الضعیفہ رقم ٢٢ )
اس روایت سے بھی وسیلہ باطلہ کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے .
جاری ہے |