آفتابِ رسالت کا تین مطالع پر طلوع(معراج(

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

پہلا طلوع
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوہ اولین مطلع عالم بشریت پر ہوا تو چہرہ بشریت اس کی ضو سے تابناک ہو گیا۔ تاریکیوں کے بادل چھٹ گئے اور شبستان ہستی کا گوشہ گوشہ انوار و تجلیات سے چمک گیا۔ بیت المقدس میں دیباچہ و خلاصہ کائنات جناب سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقتدی ہوئے اور عالم بشریت کے مطلع پر وہ سحر طلوع ہوئی جس نے صدیوں کی تاریک رات کو سرمدی اجالوں میں بدل دیا۔ ظلمت شب اپنا رخت سفر باندھ کر رخصت ہوئی۔

دوسرا طلوع
سفرِ معراج نے نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت اور نورانیت کو نئے مفاہیم عطا کئے بلکہ سرِعرش مہمان عرش کی پذیرائی اور پیشوائی نے ان گنت اشکالات کو رفع کر کے حقائقِ مصطفوی پر سے پردہ اٹھایا اور عقلِ ناقص کے پاس اپنے عجز کی چادر کو سمیٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

دوسرا طلوع جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات کا ظہور ہوا وہ عالمِ ملکوت و نورانیت تھا۔ جہاں تمام قدسیانِ فلک اور ملائکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر سن کر چشم براہ تھے تاکہ جلوہ دیدار مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ بھی فیض یاب ہو سکیں۔ نہ جانے وہ کب سے اس ساعت سعید کے منتظرِ بارگاہِ صمدیت میں عرض پرداز تھے کہ اے باری تعالیٰ! ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے بہرہ ور فرما۔ احادیث میں ہے کہ بیک وقت ستر ہزار فرشتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہئ اقدس پر حاضری کی سعادت صرف ایک بار نصیب ہوتی ہے اور دوسری بار یہ موقعہ تا قیام قیامت میسر نہیں آتا۔

بارگاہِ صمدیت میں فرشتوں کی عرضداشت قبول ہوئی اور معراج کی ساعت مسعود آئی۔ انہیں سدرۃ المنتہیٰ پر اکٹھے ہونے کا حکم دیا گیا تاکہ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر سے گزریں اور یہاں کچھ دیر توقف فرمائیں تو وہ ان کے حسن و جمال کے دیدار سے فیض یاب ہو جائیں۔ حور و غلمان کے پرے کے پرے رہگزرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی پلکوں کا ریشم بچھا رہے تھے۔ ملائکہ، ہجوم در ہجوم نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منتظر تھے۔ آج سدرۃ المنتہی کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہو رہا تھا۔ سدرۃ المنتہی سے آگے جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔ انوارِ رحمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشوائی کے لئے پُرفشاں تھے۔

چنانچہ مشیّتِ ایزدی سے تمام فرشتے جمال مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار ہونے کے لئے سدرۃ المنتہی کے مقام پر سمٹ کر ہمہ تن دید ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لائے تو آمد آمد یارے کہ ما مے خواستیم کا غلغلہ بلند ہوا۔ قرآن اس منظر کو اس طرح بیان کرتا ہے۔
إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَیO
(النجم، 53 : 16)
جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہٰی) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیںo

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وضاحت میں ارشاد فرمایا کہ نخل سدرہ کے ہر ہر پتے پر ایک ایک فرشتہ بیٹھا ہوا تھا۔ سارے آسمانوں کے فرشتوں کے لئے سدرۃ المنتہی گویا ایک بیٹھک کی طرح تھا جہاں کر و بیانِ افلاک آپ کے جلووں سے مستفیض ہونے کے لئے امڈ آئے تھے۔

جمالِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمام ملکوت فروغ گیر ہوا اور اس کے انوار و تجلیات دوسرے مطلع پر ہر سمت پھیل گئے۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معراج کے اس پہلو سے عالم ملکوت کا ہر فرد مستفیض ہوا اس لئے کہ انوار محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورانی مخلوقات کے سر کا بھی سائبان ہیں۔

تیسرا طلوع
نجم مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیسرے مطلع پر طلوع ہونے کا ہنگام آپہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تن تنہا سدرۃ المنتہیٰ سے آگے عالم لامکاں کی سمت بڑھے اور مقام قاب قوسین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب و حضور کا جو اعزاز نصیب ہوا اسے قرآن پاک نے
إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُO
(الاسراء ، 17 : 1)
بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
کے کلمات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ خالق اور اس کے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسرا اور کوئی نہ تھا اور عالم یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کو بے حجاب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اس کا کلام اپنے کانوں سے سن رہے تھے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا اور ان کا کلام بھی سن رہا تھا اس لئے حقیقت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔ ہماری محدود سوچ انوار رسالت کی پنہائیوں کو حیطہ شعور میں لانے سے قا صر ہے تو تجلیات انوار الہٰیہ کا ادراک ذہن انسان میں کیونکر سما سکتا ہے۔

بے مقصد مباحث
علمی موشگافیوں، فکری مغالطوں اور بے مقصد مباحث سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ابہام اور تشکیک کے گرد و غبار تخلیق کرتے رہنا علمی خیانت کے ذیل میں آتا ہے۔ مستشرقین نے اس علمی خیانت کو تخلیق کے لبادے میں چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن حقائق کا چہرہ مسخ کرنے کی ناپاک کوشش جزوی طور پر بظاہر کامیاب ہو بھی جائے لیکن حقائق کو زیادہ دیر تک وقت کی نظروں سے اوجھل کئے رکھنا شاید کسی کے بس کی بات بھی نہیں کیونکہ رات کتنی بھی گہری اور تاریک کیوں نہ ہو سورج کے آگے دیوار کھینچنے میں ناکام رہتی ہے۔ آج مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کی گرد سے آلودہ فضا بھی صاف ہو رہی ہے کیونکہ گرد و غبار کو آخر پیوند زمیں بننا ہی ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کے بارے میں اہل علم نے اپنی اپنی ہمت اور بساط کے مطابق علم کے بحر بے کنار میں غواصی کی اور جس کے ہاتھ جو کچھ آیا وہ مختلف اقوال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کسی نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامی اور روحانی معراج نصیب ہوا یعنی یہ کیفیت حالت خواب میں نصیب ہوئی۔ بعض کے نزدیک معراج متعدد بار ہوا۔ عالم بیداری میں ایک مرتبہ اور باقی ہر دفعہ حالت خواب مین، بعض کے خیال میں اسراء جسمانی طور پر اور معراج روحانی طور پر ہوا لیکن جمہور علماء بشمول صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، تابعین رضی اللہ عنھم، محدثین رضی اللہ عنھم، فقہاء رضی اللہ عنھم، مفسرین اور متکلمین سب کا اس پر اجماع ہے کہ اسراء اور معراج دونوں جسمانی حالت میں ہوئے ہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس اپنے جسم اطہر کے ساتھ معراج کے لئے آسمانوں پر اور عالم لامکاں میں تشریف لے گئے۔ یہی قول حق ہے جس پر آج تک جمہور اہل ایمان قائم ہیں۔ یہ مباحث چھیڑ کر کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی معراج نصیب ہوئی تھی یا روحانی عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غبار تشکیک کی نذر کرنے کی گھناؤنی سازش تھی جسے اہل علم نے علمی سطح پر بھی مسترد کر دیا۔

معراج مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین حیثیات
سفر معراج کے تین مطالع اور مراحل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین شانوں اور حیثیتوں کا مظہر ہیں۔ یہ مراحل درج ذیل ہیں۔
1. بشریت
2. ملکیت و نورانیت
3. مظہریت و حقیقت

1۔ بشریت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولاد آدم کی اصلاح کے لئے مبعوث ہونے والے انبیاء کے سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔ اس عالم بشریت میں آپ نے اپنی حیات مقدسہ گزاری۔ اسی کرہ ارضی پر آپ نے ازدواجی زندگی بھی بسر کی، آپ کی بشریت کا انکار کفر ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عالم آب و گل میں شان بشریت کے ساتھ جلوہ گر ہوئے تاکہ یہ عالم انس و جان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے مستفیض ہو سکے۔ بیت اللہ سے بیت المقدس کا سفر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کی معراج کا آئینہ دار ہے تاکہ یہ شان اپنے نقطہ کمال کو پہنچ جائے۔ جشن عید میلاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی بشریت کے جمالیاتی اور مجلسی اقرار کا نام ہے۔

2۔ ملکیت و نورانیت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور مجسم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کا انکار بھی حد ادب کے منافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو نور کائنات ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے۔

مسجد اقصیٰ سے عالم افلاک میں سدرۃ المنتہی تک کا سفر معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ملکیت و نورانیت کو اپنے منتہائے کمال تک پہنچانے کے لئے تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیض رسانی سے عالم انوار و ارواح بھی محروم نہ رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور کائنات کی ہر شئے کو اپنے دامن رحمت میں سمیٹ لے۔

3۔ مظہریت و حقیقت
حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کے سوا کوئی نہ جان سکا کیونکہ ہماری عقل ناقص یا تو گمراہیوں کے جال بن سکتی ہے یا اپنے عجز کا اظہار کر سکتی ہے۔ سدرۃ المنتہی سے ماوراء سفر معراج اس لئے کرایا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان محمدیت ذات حق تعالیٰ کی صفات اور حسن وجمال کا مظہر اتم بن جائے اور یہی معراج کا آخری منتہائے کمال ہے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہاء ہو گئی۔

جاری ہے۔۔۔۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 350963 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.