آئینہ اُن کو دکھایا تو بُرا مان گئے

پاکستان جنت سے زیادہ خوبصورت ہمارا پیارا ملک جسے ہم فخریہ جنت نشاں کہہ سکتے ہیں اور کہہ کیوں سکتے ہیں ہمارا ملک ہے جنت نشاں!مگر یہاں کے دگر گوں حالات کا جائزہ لینے کیلئے اگر دل و دماغ کو شامل کرکے غور کرنے کی سعی کی جائے تو یقینا آپ کا دماغ پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہر دلفریب صبح ہمیں کوئی نہ کوئی دل ہلا دینے والی خبر کا پیغام سناتی رہتی ہے۔کبھی یہاں قتل ، کبھی وہاں قتل و غارت، کبھی بم دھماکے، کبھی ٹارگٹ کلنگ، کبھی لینڈ مافیاکلنگ، کبھی بھتہ خور گروہ کا انکشاف ،کبھی چھنتائی گروپ، کبھی دینگی، کبھی دواﺅں کا اسکینڈل، کبھی سیاسی اسکینڈل، کبھی عدلیہ کا معاملہ،کبھی منی لانڈرنگ کیس، اور نہ جانے ایسی انگنت خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ اور جتنا ہو سکے خبروں کی پالش کرکے شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے کی ہی بات ہے کہ میڈیا اور اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنی یہ خبر کہ رینجرز کی وردی میں ملبوس افراد نے بنک لوٹ لیا۔ کیا یہ کوئی ایسا گروہ تھا جو رینجرز کی وردی کا استعمال کرکے اتنے خطرناک کام کو سرانجام دینے بینک پہنچ گیا۔ یا پھر؟اس سوالیہ نشان کا مطلب آپ بخوبی سمجھتے ہونگے۔بہرحال اس معاملے کو نتیجہ خیز ہونا چاہیئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔مکمل تفتیش اور چھان بین کرکے ایسی کاروائی کو مستقبل کیلئے روکنا ہوگا تاکہ عوام کا اعتماد اپنے ملک کے تمام طبقوں پر بحال رہ سکے۔

ہمارے ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کوقانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیئے۔ کیا انصاف اور قانون کے یہ ہی پیمانے ہوتے ہیں کہ ان کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔ کیا ان کو کسی کی بھی زندگی سے کھلواڑ کرنے اور اس کا سماجی و اخلاقی قتل کرنے کا حق ہے؟ شاید نہیں ! کراچی کے حالات کو لے لیں سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے جیسے ایک پُر رونق زندگی رواں دواں رہتی ہے مگر پھر بھی روزآنہ ہی کئی کئی لاشیں گرتی ہیں۔ امن و امان کا فقدان ہے۔ جرائم پیشہ افراد آسانی سے جرم کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جہاں ہر جگہ پر ناکہ لگا ہو وہاں سے کوئی آسانی سے فرار ہو جائے۔ جرم کرنے والے فرار ہو جاتے ہیں اور شریف النفس عوام جو صبح کام پر جانے کیلئے اور شام کو واپس گھر کی طرف آتے ہوئے ان کے عتاب کا نشانہ ہوتے ہیں۔اس میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ ہر چند کے ہماری پولیس اور دوسرے اداروں کے اہلکار ہمارا سرمایہ ہیں اور ان ہی کی بدولت یہاں امن و امان بھی قائم ہوتا ہے اور زندگی کے سفر کی شام و سحر پُر سکون بھی رہتی ہے ، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کل کے حالات کو قابو میں لایا جائے تاکہ عوام الناس چین کی بانسری بجا سکیں۔

جب ملک میں امن و امان ہوتا ہے تو ملک بھر میں ترقیاتی کام بھی تیزی سے ہوتے ہیں۔ مگر رواں عرصے میں ہمارا ملک دہشت گردی، افرا تفری کی حدوں کو پار کر رہا ہے۔ کہیں گولی چل رہی ہے اور کہیں بم دھماکے ہو رہے ہیں، کہیں مار ڈھار جاری ہے تو کہیں ہڑتال اور کہیں کرفیو؟ ان تمام حالات کی وجہ سے ملک بھر میں ترقیاتی کاموں میں شدید دشواری کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ اور یوں ترقی کی دیوی ہم سے روٹھ جاتی ہے۔ غالباًدہشت گردی پر تو کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے ، اور جب ریاست میں چین کی بانسری بجے گی تب جاکر ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکیں گے۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ قرآن کو سمجھنا ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سمجھو، اور رسولِ کریم ﷺ کو سمجھنا ہے تو قرآن کو سمجھو! اگر ان دونوں کو سمجھ لیا جائے تو وہیں سے آپ کے صراطِ مستقیم کا نقطہ آغاز ہوگا۔ شریعت زندگی کے ہر اچھے اور برے حالات میں ہماری رہنمائی کرتی ہے اور یہ قرآن حدیث اور فقہ کا نچوڑ ہے۔ بہرحال ہمیں یہود و نصاریٰ ، بیرونی مداخلت ، اور نہ جانے کتنی اور کس کس قسم کی عفریت کا سامنا ہے اور ان سب سے ہمیں نمٹنا بھی ہے تاکہ ہمارا ملک سر تا پا اپنے پیروں پر کھڑا رہ سکے۔ آج ہمیں یہ تہیہ کرنا ہوگا کہ اسلامی علم کو ہم اپنا زیور بنائیں گے تبھی جا کر ہم دنیا کی نگاہوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔ جہاں تک ہمارے ایمان کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی دور میں نہ ڈگمگایا ہے اور نہ ہی دگمگائے گا کیونکہ ہم اس بات پر یقینِ کامل رکھنے والے ہیں کہ:
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے

کئی اداریے میں یہ ذکر دیکھا اور سنا گیا ہے کہ آئی ایم ایف محض مصیبت کے وقت ہی پاکستان کی مدد کرتا ہے، اقتصادی حالات کو استحکام دینے میں اس کی مدد حاصل نہیں رہتی ہے۔ آئی ایم ایف کے اس رویے کی اہم وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرطوں کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ IMFتو حکومت کے اخراجات پر کنٹرول، ٹیکس، جی ڈی پی، کے تناسب میں اضافہ، خسارہ میں کمی ، بجلی ، گیس اور کئی دوسرے محرکات پر کڑی تنقید کرتی رہی ہے، ہمیں یہ کشکول اب توڑنا ہی ہوگا کیونکہ یہ بھی ایک خطرناک جڑ کی مانند پرورش پا رہا ہے ۔ کشکول کا ٹوٹنا ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ مگربجٹ کے بعد ہمارے تو اسٹیٹ بینک کے گورنر صاحب نے ببانگِ دہل یہ بیان داغ دیا ہے کہ آئی ایم ایف کی ضرورت پڑے گی۔ بجائے معاملات میں سدھار لانے کے اس قسم کے بیانات سے کشکول توڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آج ہمارے ملک میں انتہائی نامساعد حالات، غربت، تنگدستی کا بسیرا ہے لیکن 18کروڑ عوام صرف اسی امید کے سہارے اپنی ناﺅ کو پار لگانے کے انتظار میں ہیں کہ کبھی تو حالات بدلیں گے۔ اور کبھی تو ہم بھی چہکیں گے ! اپنی مستقل مزاجی و قوتِ ارادی کی بناءپر نامساعد حالات اور معاشی پسماندگی کو شکستِ فاش دے کر ہی ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تقدیر بدل سکیں گے۔ ارادے نیک و مضبوط ہوں تو چٹانیں بھی کھسک جاتی ہیں ، محنت و لگن کی بنیاد پر ہم اس پہاڑکو بھی سَر کر سکتے ہیں۔
غلامی میں کام نہیں آتیں نہ تقدیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

بہرِکیف ہماری تعمیر میں کوئی خرابی کی صورت چھپی ہے یا کوئی بد دعا آسیب بن کر ہمارے تعاقب میں ہے، پتہ نہیں۔ بگاڑ ختم ہونے میں نہیں آتا، ہم کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر بے ہنگم بھیر کی طرح راہ و منزل سے بیگانہ ہیں۔ حقوق کے تحفظ اور مستقبل کے بارے میں پُر عزم قوم ابھی تشکیل نہیں ہو پائی ہے۔ ہمارے مسیحاﺅں کے اپنے نعرے اور اپنے انداز ہیں، لیکن سلامتی اور وجود کو لاحق خطرات کے تئیں لاپرواہی اور اپنی مصلحتوں کے شیش محل سے باہر نہیں نکلتے اور نہ ہی عوامی سمندر میں کوئی اُبال آتا ہے۔ ان کی ترجیحات بدستور سیاسی، جماعتی اور مسلکی مفادات کے کھونٹے سے بندھی ہیں اور ملت کو بے یقینی کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ اسے بے ثمر سیاسی تماشوں کی عادت لگا دی گئی ہے۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی سرکس لگا رہتا ہے اور اصل مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ سازشوں کا ڈت کر سامنا کیا جائے۔ مشترکہ پلیٹ فارم بنا کر اس دلدل سے باہر نکلا جائے، اتحاد، یقینِ محکم، ایمان پر قائم ان سیڑھیوں کو مضبوط کیا جائے۔ پیشانی پر لگے دہشت گردی کا داغ دھو نے کی جد و جہد کی جائے۔ قتل و غارتگری اور نفرتوں کے بوئے ہوئے بیج کی، بیج کنی کی جائے تاکہ تمام پاکستانی پھر سے خوش و خرم طریقے سے زندگی گزار سکیں۔ملکی سلامتی کو داﺅ پر لگانے والے گروہ کو کسی طور بھی نہ بخشا جائے اور ان کی مکمل سرکوبی کیلئے سر جوڑ کر بیٹھا جائے۔ ملک و بیرون ملک اس ملک کے توانا ہنرمندوں کو نوکری فراہم کی جائے تاکہ احساسِ محرومی کا بھی قلعہ قمع ہو سکے۔ 2013ءبجا طور پر الیکشن کا سال ہے اور پھر ابھی بلدیاتی الیکشن بھی باقی ہے اس کا جلد انعقاد بھی ضروری ہے تاکہ بلدیاتی سہولیات سے بھی عوام بحرمند ہو سکیں جو کہ اس وقت پورے ملک میں ناپید ہیں۔ جس طرح صوبائی خود مختاری کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوگیا ہے اور اب پورے ملک میں صوبائی خودمختاری کا راج ہے۔ اسی طرح جہاں جہاں صوبے بنانے کی ضرورت ہے وہاں وہاں صوبے بنائے جائیں تاکہ احساسِ محرومی کا خاتمہ ہو سکے۔ جو لوگ صوبائی خود مختاری اور نئے صوبے بنانے کی مخالفت کرتے ہیں انہیں بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ مرنے کے بعد وہی پانچ فٹ یا چھ فٹ کی قبر میں سب کو جانا ہے تو پھر زمین کے ٹکروں پر لڑائی کیوں؟ دنیا بھر میں چھوٹے چھوٹے ملکوں میں کئی کئی صوبے ہیں اور وہ ملک ظاہر ہے کہ تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے آج ترقی یافتہ ملک بن چکے ہیں۔
خدارا! اس ملک کو امن و آتشی، خوشی و شادیانے، بھائی کو بھائی سے مل جل کر رہنے اور مایوسی کی حالت کو چھوڑ کر صبر و سکون سے رہنے، مغربی کلچر کو چھوڑ کر اپنی کلچر کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اور ہمارا ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ (آمین)
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 343481 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.