جامعۃ الصابر میں ایک یاد گار تقریب
(mudasser jamal taunsvi, rawalpindi)
جامعۃ الصابر وہ عظیم دینی درس
گاہ ہے جوامیرالمجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ کی خاص
قلبی توجہات اور نظرعنایت کامرکز، جسے امیرالمجاہدین کے والد گرامی قدر
محبوب المجاہدین حضرت اباجی نور اللہ مرقدہ کی آہ نیم شبی، دعائے سحرگاہی
اور ان کے مبارک بڑھاپے کی محبت بھری انتظامی ترتیبات وتوجہات نے سینچا اور
اب اس کی آبیاری وترقی کے لیے حضرت مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالی اپنی
تمام صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے جدوجہد کررہے ہیں ۔اس جامعہ کو
مجاہدین عظام اور شہداء کرام کے مبارک قافلوں کے لیے میزبان بننے کاشرف
نصیب ہوا ہے اور راہ حق کے ان فدائیوں نے بھی اس پر اپنی محبتیں لٹائیں اور
اپنامشقت بھرا پسینہ نچھاور کیا ہے۔
ان تمام نسبتوں کی بدولت یہ جامعہ جس کاآغاز آج سے چند سال قبل ہی ہوا تھا
اس وقت الحمدللہ ایک تناوردرخت بن چکاہے جس کااحاطہ ہمارے ہاں رائج تمام
تعلیمی نصابات پر حاوی ہوچکا ہے اور اس سے فیض پانے والے ناظرہ قرآن مجید
سے لیکر حفظ قرآن وتجوید قراآت تک اور ابتدائی درجات سے لے کر دورہ حدیث تک
اور قلیل الوقت مصروف افراد کے لیے تین سالہ دراسات دینیہ کورس سے لے کر
تخصص فی الفقہ کے عظیم نصاب سے فراغت پانے والے علمائ تک سب شامل ہیں۔
جامعۃ الصابر ،مرکزعثمان وعلی بہاولپور کے پہلو میں واقع ہے اور یہ مرکز
خیر وبرکات کا کیساسرچشمہ ہے اس حقیقت پر بہت دفعہ ہماری تحریروں میں روشنی
ڈالی چکی ہے اور وہ افراد جنہوں نے خود اس مرکز میں کچھ وقت گزارا ہے وہ اس
کے عینی شاہد ہیں ۔ کہنے والے نے تو یہ شعر افراد کے بارے میں ہی کہا ہے
کہ:
لیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
ترجمہ:اللہ تعالی کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں کہ وہ ایک فرد میں اعلیٰ
صلاحیتوں کا ایک جہان رکھ دے۔
لیکن اگر یہ شعر کسی ادارے پر بولاجائے تو یقینا اس میں مرکز عثمان(رض)
وعلی(رض) کو شامل کرنابغیر کسی مبالغہ آرائی کے حقیقت کے بالکل مترادف اور
مطابق ہوگا ۔اب جس احاطے میں خیر وبرکت کے ایسے بحرذخّار جاری ہوں وہ
نورومعرفت اورعلم ویقین کا کیس پُرفضائ سماں ہوگا ؟زکی کیفی مرحوم کے یہ
اشعار یاد آتے ہیں:
یہ کون سا جہاں ہے؟یہ کیسا مقام ہے
ہرذرہ جس کاہمسرِ ماہ تمام ہے
دنیا کے شور وشرکا یہاں نام بھی نہیں
لب پرحدیثِ گردشِ ایام بھی نہیں
مستی فضاپہ ، دل پہ عجب بے خودی سی ہے
محسوس ہورہا ہے ،یہ دنیا نئی سی ہے
دل میں یہاں ہوا وہوس کاگزر نہیں
جنت نما ضرور ہے،جنت اگر نہیں
اس وقت ہمارے دینی مدارس کے تعلیمی سال کا اختتام ہے اور سالانہ تقریبات
بڑے تزک واحتشام کے ساتھ اپنا پُربہار موسم دکھا چکی ہیں۔اسی سلسلے میں
بروز بدھ تیس جون کو جامعہ الصابر میں سالانہ تقریب ختم بخاری شریف ودستار
بندی منعقد ہوئی ،جس میں مہمان علمائ کرام کے علاوہ کثیر تعداد میں عوام
الناس نے بھرپور شرکت کی، جامعہ کے ماتحت یہ دوسری تقریب بخاری شریف تھی،
اس موقع پر جامعہ سے سندفراغت حاصل کر نیوالے۶۱ علمائ کے علاوہ جامعہ ہذا
اور مرکز الجمیل الاسلامی راولپنڈی سے تخصص فی الفقہ کر نیوالے ۹۲ علمائ
کرام اور ۷۵ حفاظ طلبہ جن میں جامعہ کی شاخ جامع مسجد اقصی،بہاولپور کے
۳۱طلبہ شامل ہیں،ان کی دستار بندی کی گئی، تقریب کے مہمان خصوصی جامعۃ
الصابر کے شیخ الحدیث مولانا سید عبدالرحمن شاہ صاحب اور امیر المجاہدین کے
برادر صغیرحضرت مفتی عبدالرئو ف اصغر حفظہ اللہ تھے۔ تقریب کی صدرات جامعہ
کے مہتمم مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ نے فرمائی، تقریب میں شامل دیگر
علمائ کرام میں مرکز الجمیل الاسلامی راولپنڈی کے’’ مشرف التخصص فی الفقہ‘‘
مولانامفتی منصور احمداور مولانا اعظم طارق شہید(رح) کے برادر گرامی قدر
مولانا عالم طارق مدظلہ سمیت دیگر متعدد مقامی علما کرام شامل ہیں۔
تقریب کا آغاز حسب معمول تلاوت کلام پاک سے ہوا، بعدازاں معروف نظم
خواںقاری غلام عباس صاحب نے نعتیہ کلام پیش کیا اور مغرب کے بعد پہلی نشست
میں جامعہ ہی کے فاضل عالم دین مولانا جمال الدین اور جامعہ کے طلبائ مولوی
مدثر اقبال شریک دورۂ حدیث، مولوی طلحہ رشید شریک درجہ خامسہ اور الرحمت
ضلع سیالکوٹ کے ذمہ دار مولانا عطائ اللہ کاشف نے خطاب فرمائے، عشائ کے بعد
کی نشست میں تلاوت کلام پاک اور نعتیہ کلام و نظم کے بعد ختم بخاری جامعہ
کے شیخ الحدیث مولاناسیدعبدالرحمن شاہ نے کرایا، مہمانوں کے لئے تشکرانہ
اور فضلائ کے لئے ناصحانہ کلمات مولانا طلحہ السیف صاحب نے ارشاد
فرمائے،حضرت مفتی منصور احمدصاحب نے علم و علمائ کی فضیلت و ذمہ داریوں پر
مختصر درس دیا اور اختتامی و تفصیلی خطاب حضرت مفتی عبدالرئوف اصغرنے
فرمایا اور دعائیہ کلمات جامعہ کے استاذالحدیث مفتی محفوظ احمد نے ارشاد
فرمائے۔
مولاناعالم طارق مدظلہ نے حفاظ طلبہ کرام کی رومال پوشی کی اور انہیں جامعہ
کی طرف سے مقررہ اعزازی انعام بھی دیا، جامعۃ الصابر سے دورہ حدیث کی سند
تحصیل فراغت حاصل کر نیوالے طلبہ کی دستار بندی جامعہ کے تمام اساتذہ حدیث
کے ہاتھوں مکمل ہوئی اور جامعہ کی طرف سے مقرر کردہ اعزازی کتب مولاناعالم
طارق کے ہاتھوں دلوائی گئیں، جبکہ جامعۃ الصابر کے متخصصین فی الفقہ ۲۱
طلبہ کی دستار بندی جامعہ کے’’ مشرف التخصص فی الفقہ‘‘ مفتی محفوظ احمد
صاحب اور مفتی عبدالرئوف اصغر حفظہ اللہ کے دست مبارک سے ہوئی اور مرکز
الجمیل الاسلامی راو لپنڈی کے متخصصین فی الفقہ ۷۱ طلبہ کی دستار بندی مفتی
منصور احمدصاحب اور مفتی عبدالرئوف اصغر کے دست مبارک سے ہوئی ، ان طلبہ کو
بھی کثیر لاگت کی کتب فتاویٰ اعزازی طور پر دی گئیں، اسی موقع پر جامعہ ہذا
میں وفاق المدارس العربیہ کا مقرر کردہ نصاب ’’دراسات دینیہ‘‘ جو تین سالوں
پر محیط ہوتا ہے سے فراغت پانیوالے ۳ طلبہ کے دستار بندی کی گئی اور انہیں
اعزاز ی کتب بھی دی گئیں اور ایک اہم خصوصیت یہ بھی کہ ان طلبہ کو اعزازی
’’شمشیرفضیلت‘‘ سے بھی نوازاگیا۔تقریب کے آخری خطاب سے قبل جامعہ کے استاذ
مولاناخالد الاسلام شاہین صاحب کی تحریر کردہ الواداعی نظم قاری غلام عباس
نے اپنے خوبصورت اور دردانگیز اسلوب میں پیش کی اور تمام سامعین خاص کر
فضلائ کرام کو رُلادیا۔لیجیے آپ بھی وہ نظم ملاحظہ فرمائیں:
الوداع کے دین حق کے پاسبانو !الوداع
جامعہ صابر کے فاضل نوجوانو،الوداع
کس قدر ہوخوش نصیب اے وارثان دین حق
دیکھ کرعظمت تمہاری جھوم اٹھے ہیں مَلَک
جامعہ کی علمی عظمت کے نشانو ،الوداع
علمی،عملی اورجہادی نور کاہے امتزاج
ملتا ہے یاں نوجوانوں کو اکابر کامزاج
عالی شان اسلاف کے اے قدردانوں،الوداع
حضرت صابر کی آہ سحرگاہی کے اثر
اُن کی محنت،ان کی کاوش اوردعاوں کے ثمر
گلشن صابر کے انتھک باغبانو،الوداع
علم کی میراث سے تم رخ جہاں کا موڑ دو
کفر کے ہر چیلے کی کلائی،توڑ دو
حضرت مسعودازہر کے دیوانو،الوداع
شیخ کے انفاس سے مہکی گلستاں کی جبیں
ان ساڈھونڈوں کس طرح کوئی بھی ان سا ہے نہیں
شیخ ازہر کے جہادی ترجمانو،الوداع
دل پہ صدمہ ہے جدائی کا مگر اے طالباں
اس جدائی میں ہے پنہاں عظمتوں کی داستاں
عزم وہمت کے جہاں کے آسمانو،الوداع
معاف کرنا دل سے شاہیں سب خطائیں دوستو
یادرکھیں گے تمہاری ہم وفائیں دوستو
دیں کی خدمت کو ہی اپنا کاز جانو،الوداع
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مفتی عبدالروف اصغرحفظہ اللہ تعالی
اور مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالی کی طلبہ کو کی جانے والی کچھ نصائح
بھی نقل کردی جائیں۔حضرت مفتی صاحب نے عوام الناس اور حکمران طبقے کو
یاددھانی کراتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس کے طلبہ قرآن کے محافظ اور وراثت
نبوی کے حامل ہیں، ان طلبہ اور علمائ کرام نے مسلم معاشرے میں مثبت خوشگوار
اور مثالی کردار زندہ کیا ہے، آج کا دن خوشی اور مسرت کا دن ہے،یہ لمحات
بہت قیمتی اور یادگار ہیں ،قوم مسلم کے بعض دشمن نما بہی خواہوں نے یہود
ونصاریٰ کی تقلید میں غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ایام مسرت متعارف کر وائے
ہیں جو خوشی کی بجائے قوم کو تباہی کی طرف لیجاتے ہیں مگر یہ مبارک تقاریب
جو حفظ قرآن اور دینی نصاب تعلیم کی تکمیل پر منعقد ہوتی ہیں یہ حقیقی
تقاریب مسرت ہیں، یہ مسلمانوں کے لئے اصل خوشی کا موقع ہیں اور ان باسعادت
طلبہ کے اعزاز میں جس قدر اعلیٰ انتظامات کیے جائیں کم ہیں،یہ علمائ کرام
ہی ہیں جنہوں نے ہمیشہ مشکل حالات میں اپنی جانوں کی قربانی دے کر قرآن و
علوم دینیہ کی حفاظت کی ہے،علمائ نے تو جیل کی کال کوٹھریوں کو بھی مدارس
میں تبدیل کیا ہے، دینی مدارس مسلمانوں کے لئے خیر کے مرکز اور امن وامان
کا گہوارہ ہیں، آج انگریزوں کے وفاداروں نے ملک کی سرزمین ، ملک کی فضائیں
اور ملک کی بیٹیاں تک کافروں کو بیچ دی ہیں، ان حالات میں دینی مدارس ہی کا
طبقہ ہے جو ملک کی جغرافیائی و نظریاتی دونوں سرحدوں کا محافظ بن کر
استقامت کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔ اپنے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:آج
معاشرے کو باکردار علمائ کی ضرورت ہے، جو ہر حال میں حق کہنا اور اس پر ڈٹ
جانا جانتے ہوں ورنہ مسلم معاشرے کی تباہی میں بدکردار علمائ کا بھی پورا
ہاتھ ہے، اس لئے آپ لوگ اہل حق اکابر علمائ کے نقش قدم پر چلنا اور کسی بھی
گمراہ نظریات رکھنے والے کے قریب مت پھٹکنا۔
مولاناطلحہ السیف حفظہ اللہ نے فرمایا:حضرات گرامی!علمائ کی ذمہ داریاں
عظیم الشان بھی ہیں اور حد درجہ نازک بھی،میں اپنے فاضل نوجوانوں سے
درخواست کرتاہوں کہ آپ حضرات اپنی نسبت علم اورنسبت دیوبندیت کی لاج
رکھیں۔آپ کے کردار وگفتار سے علوم نبوت کا نور جھلکنا چاہئے ،آپ کی
نماز،وعظ وخطابت ،جہاد وقتال اور معاملات ومعاشرت سنت بنوی کے نور سے
آراستہ ہو ۔آپ کی استقامت مثالی ہوا،اگر کسی عالم کہلانے والے شخص کی زبان
میں صداقت نہ ہو،اس کی فکر میں راستی نہ ہو،اوراس کے عمل میں عزیمت وشجاعت
نہ ہو تو وہ وراثت نبوت کا حقدار نہیں ہوسکتا۔نبی کریم کی وراثت علم دین
اور جہادی اسلحہ تھا ،اب حقیقی وارث وہی ہو گا جو ان دونوں نسبتوں کی امانت
کو سنبھالے گا۔
اس موقع پر میں تمام مہمان علمائ کرام اور عوام الناس کاشکر گزار ہوں انہوں
نے طلبہ عزیز کی دل جوئی کے لیے اپنا قیمتی وقت نکال کر ہمارے ہاں تشریف
لائے اور ان طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
یہ تقریب رات ساڑھے بارہ بجے نہایت حسن وخوبی اور انوار وبرکات کے ساتھ
اختتام بذیر ہوئی اور ہرلب پر بزبان حال یہ شعر جاری تھا:
اے خدا!ایں جامعہ قائم بدار
فیض اوجاری بود لیل و نہار |
|