بحریہ ٹاﺅن کے ریاض ملک اور
ڈاکٹر ارسلان افتخار کے درمیان کروڑوں کی رقوم دینے اور لینے کے سکینڈل میں
الیکٹرانک میڈیا کے کئی اینکرز کی طرف سے اس معاملے کو مختلف شخصیات کی
پسند و ناپسند کی بنیاد پر اٹھانے کے دوران ’دنیا ‘ ٹی وی چینل سے اینکرز
مبشر لقمان اور مہر بخاری کے ریاض ملک سے انٹرویو کے موقع پر کئے جانے والے
وقفوں کے درمیان ہونے والی گفتگو نے الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز بلکہ تمام
میڈیا کے کردار کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔سوشل نیٹ ورک کے
مختلف ذرائع پہ گردش کرتی خبروں میں ایسے کئی ٹی وی اینکرز کے نام آ رہے
ہیں جنہوں نے ملک ریاض /بحریہ ٹاﺅن سے بڑی رقوم/پلاٹ /گاڑیاں حاصل کیں اور
اس کے عوض وہ میڈیا پر ان کے مفاادات کے لئے کام کرتے ہیں۔’دنیا‘ٹی وی پر
ریاض ملک کے اس انٹرویو میں پاکستان کے سب سے بڑے ٹی وی چینل کے مشہور
اینکر کے حوالے سے مبشر لقمان نے کہا کہ ” وہ اپنے بچوں کی قسم کھاتا ہے کہ
اس نے پیسے نہیں لئے “ ، اس پر ریاض ملک نے کہا کہ” وہ ہر بات پر اپنے بچوں
کی قسم کھاتا ہے ۔“اینکرز کی’ ریٹنگ ‘ کو طلعت حسین نے ان کے’ ریٹس ‘قرار
دیا ہے۔کئی صحافیوں کے یوں بے نقاب ہونے کے بعد یہ دیکھا جا رہا ہے کہ
الزامات کی زد میں آنے والے صحافی ٹی وی پروگراموں میں سیاست دانوں سے اپنے
”اچھے چال چلن“ کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔کئی پروگراموں میں
کئی سیاست کاروں کو یہ کہتے سنا جا رہا ہے کہ”میرے سامنے اس پروگرام میں
موجود صحافی کے کردار کی میں گواہی دے سکتا ہوں ،البتہ باقی صحافیوں کے
بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔“ قربان جائے ساری قوم ان” ڈپلومیٹ “سیاست
دانوں اور صحافیوں کی” فہم و فراست“ اور مہارت پر۔
یہ تو اتفاق ہوا کہ انٹرویو کی یہ’ بیک گراﺅنڈ‘ گفتگو سامنے آ گئی اور
میڈیا کو اپنے’ دھندے ‘کے لئے استعمال کرنے والے صحافی بے نقاب ہونے
لگے۔ملک میں میڈیا کی گزشتہ عشروں کی صورتحال سے آگاہ افراد جانتے ہیں کہ
میڈیا میں گندگی اس سے بہت زیادہ ہے جواس واقعہ سے سامنے آئی ہے۔کئی عشرے
قبل ہی ملک و عوام کے مفادات پر مبنی نظریاتی و بامقصد صحافت کی جگہ تجارتی
صحافت نے لے لی ہے۔حکمران و با اختیار طبقہ کو اصولی صحافت کرنے والوں کے
بجائے تجارتی صحافت کرنے والوں سے ”ڈیل“ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ظاہری طور
پر ملک ریاض اور ڈاکٹر ارسلان سیکنڈل میں دونوں قابل مواخذہ معلوم ہوتے
ہیں۔تاہم یہ بات اس معاملے کوسنگین ترین بنا دیتی ہے کہ چیف جسٹس آف
پاکستان کے خلاف باقاعدہ سازش کی گئی اور اس سازش میں ریاض ملک سے مادی
مفادات حاصل کرنے والے صحافیوں نے’ اشاروں‘ پر گھناﺅنا کردار ادا کیا۔ملک
میں نظریاتی صحافت کو ختم کرنے اور تجارتی صحافت کو فروغ دینے کی صورتحال
میںملک و قوم کے لئے جدوجہد کرنے والے صحافیوں ،اخبارات کو معاشی موت کے
گھاٹ اتار دیا گیا اور کامیاب صحافت کے لئے مال و زر معیار قرار پایا۔اب
ملکی صحافت میں تجارتی گروپ حاوی ہیں جو” کسی نواب کی طرح اپنے شہر کی حسین
سے حسین طوائف کو بھی دولت کے بل بوتے حاصل کر سکتے ہیں۔“
یوں ملکی میڈیا عوام کے احساسات و جذبات کی ترجمانی اور عوام کو اصل
صورتحال سے آگاہ کرنے کے بجائے انہیں لاعلم رکھنے ،عوام کی توجہ مخصوص
معاملات پر ہی مرکوز رکھنے کا کردار(بحیثیت مجموعی) ادا کر رہا ہے۔آج کی
صحافت دیکھ کر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آواز لگائی جا رہی ہو کہ ”
آئیے جناب ہماری صحافتی خدمات سے اپنی سیاست ،کاروبار وغیرہ وغیرہ کو فروغ
دیں،جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہو گا۔“ایک طرح سے یہ بات خوش آئند ہے
کہ ملک و قوم کو بربادی کی انتہا تک لانے والے’ ستون‘ مکافات عمل سے دوچار
ہیں اور شاید اسی سے اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے۔آج دنیا میں پاکستان کو
’جاہل ملک‘ ہونے کا خطاب مل چکا ہے اور ہم جھوٹ ،منافقت کے ہتھیار لئے خود
کو عقل کل سمجھے بیٹھے ہیں۔جہالت کا یہ خطاب عوام کی جہالت کی وجہ سے نہیں
بلکہ ارباب اختیار اور ”اعلی طبقات“ کی ” سوچ اور اپروچ “ کی بدولت ملا ہے
۔ملک میں ملک و قوم کے مفاد کے بجائے شخصیات،اداروں کے مفادات کے تحفظ کی
لڑائیاں جاری ہیں،خدارا ،اب تو عوام کو بے خبر رکھنے ، جھوٹ بول کر انہیں
لاعلم رکھنے کا چلن ختم کیا جائے تا کہ لوگ ملک میں شخصیات اور اداروں کی
حکمرانی کے بجائے آئین و قانون کی حقیقی حکمرانی کی امیدیں تصورات میں لا
سکیں اور یہی ملک کو بچانے کا واحد راستہ ہے۔
تاہم اس صورتحال سے ڈر بھی لگتا ہے کیونکہ ملک میں تو یہ چلن ہے کہ
بدکرداری کے سرٹیفیکیٹ رکھنے والے ہی ”معتبر“ اور ”با عزت“ قرار پاتے
ہیں۔اگر ملک میں تجارتی صحافت کو ہی مقدم رکھا گیا تو ہماری صحافت ملک و
عوام کے مفادات کے بجائے حصول زر کی بنیاد پر دوسروں کے مفادات کو بچانے
اور نقصان پہنچانے میں ہی لگی رہے گی اور تجارتی صحافت کے” کارناموں“ کے
عریاں نظارے دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔ |