صرف بالغ مردوں کے لیے
فقر دین میرا پرانا دوست ہے۔ کئی دنوں سے ملاقات پر اصرار کر رہا تھا۔ایک
شام میں نے اس کی نذر کی، خیر ، خیریت کے بعد اس سے ملاقات کا مقصد پوچھا
تو کہنے لگا! بھائی تم اخبار میں کالم لکھتے ہو، ایک کالم میں میرے خیالات
کی ترجمانی بھی کردو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، بتاو۔ وہ کچھ دیر کے لیے سوچنے
لگا تو میں یہی سمجھا کہ یہ بوڑھا دیہاتی، پرانے دور کا انسان اپنی
محرومیوں ، لوڈشیڈنگ، مہنگائی یا بچوں کی بیروزگاری کی کہانی سنائے گا۔میں
ان موضوعات کے بارے میں سوچنے لگا اور اپنے دوست کو مطمئن کرنے کے لیے
دلائل جمع کرتا رہا۔فقر دین نے چائے کی چُسکی لی اور میری طرف متوجہ ہوکر
بولا.... تم جانتے ہوکہ موجودہ بدامنی، افراتفری، دہشت گردی، بم دھماکوں
اور بے چینی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا۔ میں نے اثبات میں سر
ہلایا تو وہ کہنے لگا تمہیں پتہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ میں نے عرض
کیا کہ بھائی ہر علاقے اور معاشرے میں ان مسائل کی مختلف وجوہات ہیں۔اس نے
کہا نہیں، اس کی بنیادی اور اصل وجہ ہر علاقے میں صرف ایک ہی ہے۔اس کی بات
سن کر میرے کان کھڑے ہوگئے ، میں نے سمجھ لیا کہ یہ ان پڑھ دیہاتی نہیں
بلکہ آج اس کے اندر بین الاقوامی انسانی معاشرے کے لیے سوچنے والے کسی مفکر
کی روح سرائت کرگئی ہے۔ محض بی بی سی سننے والا ایک دیہاتی اس طرح نہیں سوچ
سکتا۔
فقر دین نے سگریٹ سلگائی اور میرے کندھے پر ہاتھ مار کر کہنے لگا، آج میں
تمہیں ان سارے مسائل و مصائب کی اصل جڑ کی نشاندہی کرنا چاہتوں ہوں۔اس کے
ساتھ ہی علاج بھی تجویز کرتا ہوں، اسے اپنے کالم کا موضوع بنا ؤ۔ انسانی
معاشرے کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لیے چند الفاظ لکھ دو، تم صحافی
لوگ اپنی ہی جھاڑتے رہتے ہو، قارئین کا نکتہ نظر بھی کبھی لکھ دیا کرو،
ساری عقل تم لوگوں نے نہیں سمیٹ رکھی، ہم بھی آخر سوچتے ہیں، ہماری بھی
کوئی رائے ہے۔ میں نے کہا بولو بھائی لکھ دوں گا، آج ہر انسان اس نسخہ
کیمیاءکی تلاش میں ہے۔ فقر دین نے چائے کی ایک اور چسکی لی اور بولا ان
سارے مسائل کی جڑ ”بیوی ہے بیوی“۔ انسانوں کے اس معاشرے کو سنوارنے میں بھی
بیوی کا اہم کردار ہے اور اس کی تباہی اور بربادی کی بھی اصل ذمہ دار یہی
ہے۔ میرے لیے فقردین کا انکشاف جہالت سے عبارت تھا۔ اس نے پھر میرے کندھوں
پر ہاتھ رکھا اور کہا میری بات کو نظرانداز نہ کرو، چند منٹ غور سے سنو۔
میں پھر متوجہ ہوا تو اس نے کہا میں درست کہتا ہوں کہ موجودہ تباہی کی ذمہ
دار صرف ”بیوی“ ہے۔ میں نے ڈرتے، ڈرتے آخر پوچھ لیا ، وہ کیسے۔ میرے سوال
پر وہ جوش میں آگیا اور کہنے لگا جب تک یہ گھر کی ملکہ تھی تب یہ معاشرے کی
تعمیرو ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی اور جب سے یہ گھر کی
بادشاہ بنی ہے اس نے پوری انسانیت کو تباہی سے دوچار کردیا ہے۔تمہارے میڈیا
نے اسے ملکہ سے بادشاہ بنا دیا ہے۔
اس نے تاکید سے کہا اب بیوی گھر کی ملکہ نہیں بلکہ بادشاہ سلامت کی طرح
مختار کل ہے اور کسی کو دم مارنے کی اجازت نہیں دیتی۔ جو جتنا بڑا ہے، اس
کی بیوی اتنی طاقتور ہے۔ چار دیواری کے اندر سارے فیصلے پرویز مشرف کی طرح
اپنی مرضٰ اور منشاءکے مطابق کرنے کی عادی ہو چکی ہے۔وہ اپنے ہر اچھے ، برے
کام کی تعریف و توصیف چاہتی ہے، اختلاف، انکار یا تنقید کو برداشت کرنے کا
مادہ اس کے اندر سے مکمل طور پر ختم ہو چکاہے۔وزارت خوراک کے قلمدان کی وجہ
سے بچے، بچیاں بھی اس کے محتاج ہیں، مجال ہے کہ کوئی دم مار سکے۔ وہ چاہے
تو گھر کو آگ لگا دے، چاہے تو گھر کے دروازے آپ کے دوستوں اور رشتہ داروں
کے لیے بند کردے، چاہے تو ہوگو شاویز کی طرح پورے گھر کو ایجیٹیٹر بنادے۔
آپ اگر کسی فیصلے یا عمل سے اختلاف کریں تو سارا گھر سر پر اٹھا دے گی،
محلے داروں، رشتہ داروں اور دوستوں کو ملوث کرلے گی۔ دلائل نے ساتھ نہ دیا
تو چند آنسو بہا کر مظلومیت کی چادر اُڑھ لے گی۔ آپ نہ بچوں کو منہ
دکھاسکیں گے نہ رشتہ داروں کو، خاموش رہیں گے تو ٹینشن ہوگی، بلڈ پریشر جمپ
کرے گا، حرکت قلب تیز ہو جائے گی۔ آپ کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ آپ کے
مزاج میں مسلسل چڑ چڑا پن طاری ہوتا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں آپ کا رویہ
گھر، دفتر، فیکٹری، بازار، اسمبلی، سینٹ اور اقوام متحدہ سمیت ہر جگہ
جارحانہ اور متشددانہ ہوگا۔ آپ جہاں اس روئیے کا اظہار کریں گے تو مخاطب
بھی ویسا ہی معاملہ کرے گا۔اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے فقر دین نے کہا سمجھ
گئے ہو، آج ہمارے گھروں سے بازاروں، سیاسی اور سماجی اداروں، حکومتی
ایوانوں اور بین الاقوامی فورموں پر جو کشیدگی پائی جاتی ہے، وہ ان سارے
فیصلہ سازوں کی بیویوں کے شاہانہ طرز عمل کا ردعمل ہے۔ ایک خاوند کو آج کل
جس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اس سے اس کا ہر عمل بے ربط، جارہانہ ہوتا چلا
جاتا ہے۔ اسی رویئے نے گھر سے عالمی اداروں تک سب کو بدامنی، بے چینی اور
جنگ و جدل میں بدل دیا ہے۔
فقر دین نے کہا غور سے سنو.... اس سنگین اور مہلک بیماری کا آسان ترین حل
تلاش کر لیا ہے۔اگر ہر خاوند معمولی حکمت سے کام لے تو ان سارے مسائل کو
بغیر کسی اضافی کوشش اور خرچ سے حل کر سکتے ہے۔ میں حیران ہوا کہ یہ بابا
آج ارسطو کی طرح آفاقی خیالات جھاڑنے پر کیوں آگیا ہے۔ میری دلچسپی بڑھ گئی
اور میں نے کہا، بابا بولو ناں۔ اس کا حل آخر کیا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے
کہا بس ایک بول ہے۔ میں نے کہا ، کیا بول ہے اور کس زبان میں ہے۔ اس نے کہا
تم اس کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کردینا۔ اس پر بار، بار غور کرنا، جب
سمجھ میں آ جائے تو اپنے کالم میں لکھ دینا۔ میں نے تعمیل میں سر ہلایا تو
اس نے کہا یہ بول ہے ” Beghum is Always Right “ (بیگم ہمیشہ درست فرماتی
ہے)۔ اگر اس بول کو گھریلو اور عالمی امن کے لیے بنیاد ی اصول کے طور پر
قبول کرلیا جائے تو بے چینی، بے سکونی، تشدد، تخریب اور افراتفری اس دھرتی
پر جنم نہ لے سکے گی۔
فقر دین کی بات میری سمجھ میں نہ آئی۔ فقر دین نے اپنا تجربہ بیان کرتے
ہوئے کہا کہ اس نے ایک خوبصورت چارٹ پر یہ بول لکھ کر اپنے گھر کی دیوار پر
لٹکا دیا۔ میری بیگم نے اسے غور سے دیکھا، پڑھا ۔ دوسرے دن بیگم صاحبہ نے
چارٹ کو فریم کرکے مناسب جگہ آویزاں کر دیا۔ یہ چارٹ بظاہر تو کاغذ کا ایک
ٹکڑا تھا لیکن اس نے گھر کی ساری فضاءکو یکسر بدل دیا ۔ بیگم کا مزاج ہی
تبدیل ہوگیا، اس کی چڑ چڑاہٹ مسکراہٹوں میں بدل گئی اور گھر امن کا گہوارہ
بن گیا، یوں ہم امن کی آشا کو پا گئے۔ ہاں فقر دین نے کہا امن کی اصل آشا
تو یہی ہے۔بس کچھ حوصلہ کرکے ان الفاظ کو حفظ کر لیجیے، گھر میں بار، بار
اس کا تذکرہ کیجیے، خوبصورت فریم بناکر اسے کچن، ٹی وی روم اور بیڈ روم میں
آویزاں کیجیے اور پھر اس کی برکات دیکھئے۔ ہاں تجربہ کرنے میں دیر نہ
کیجیے، اپنے اندر ہر اچھی بری بات کی تعریف کرنے کا سلیقہ سیکھ لی جیئے، آپ
کامیاب و کامران ہوجائیں گے۔ حسب خواہش میں نے فقر دین کے سارا فارمولا آپ
کی نذر کر دیا ہے، تجربہ کرسکتے ہیں تو استفادہ بھی کریں گے .... |