یہ اُٹھتے سائبان

 مولانا حسین احمد تو حیدی بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔اس گئے گزرے دور میں امت مسلمہ کو جہاں اور مصائب و تکالیف کا سامنا ہے وہیں علماءاکرام کی پے در پے ر حلت کے سائے بھی منڈلا رہے ہیں ،گزشتہ کچھ عر صے سے علماءاکرام کی شہادتوں اور اموات کی کثرت کو دیکھ کر وہ حدیث با ربارذہن میں گھو متی ہے جس کے مفہوم کے مطابق قرب قیامت علم کے اُٹھ جانے کو قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا گیا اور علم اہل علم کے اٹھنے سے اٹھتا جا رہا ہے ۔ موت العالِم موت العالَم ایک عالم کی موت جہاں کی مو ت ہو تی ہے جید اور ممتاز علما ئے دین ہر دور میں کم رہے ہیں ۔انہی ممتاز علماءمیں سے ایک عالم دین مو لانا حسین احمد تو حیدی چند روز قبل 7جون کو اس دنیا سے ر حلت فر ما گئے ہیں آ پ کی پیدائش 1950 میں راولپنڈی کے ”نیا محلہ“میں ہو ئی ۔آپ نے ابتدائی دنیا وی تعلیم فیض الاسلام سکول سے حاصل کی ،دینی تعلیم ملک کی معروف دینی درس گاہوں جا معہ عر بیہ ا شاعت القر آن حضرو ، دارالعلوم کبیر والا ،جامع محمدقلعہ دیدار سنگھ ،جامعہ رشید یہ سا ہیوال اور فراغت ملک کی معروف دینی درس گاہ جامعةالعلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ہو ئی ۔علم و حلم کے اساطین ،ورع و تقوی کے شنا وروں اور اخلاص و للہیت کے پیکروں میں جس شخصیت کی تر بیت ہو ئی ہووہ کیا عظیم شخصیت ہو گی ۔محد ث العصر مولانا محمدیو سف بنوریؒ ،مفتی محمود ،ؒمفتی جمیل ؒ،مفتی ولی حسن ٹونکی کے زیر سا یہ آپ نے کسب فیض کیا آ پ کا ا صلاحی تعلق پیر حافظ غلام حبیب نقشبندی ،مفتی زین العا بدین، ؒ مولا ناجمشید علی صاحب اور فضیلة الشیخ پیر عبدالحفیظ مکی سے رہا ۔آپ مسلسل 35سال تک مری ،دینہ اورچمن زار کا لونی میں درس وتدرےس اور امامت و خطابت کے سر انجام دیتے رہے ،با لآ خر 14 اگست 1982 کو جامع مسجد مکی ،مدرسہ عر بیہ اسلامیہ حسینیہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔تعمیراتی کاموں میں مولانا نے دن رات ایک کر کے بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیا ۔سنگ بنیاد کے مو قع پر راجہ ظفر الحق جنرل سیکرٹرموتمر العالم الاسلامی ، مولانا عبد اللہ شہیدؒ خطیب لال مسجد اور مولانا قاری احسان صاحب بھی موجود تھے ۔

آپ کے والد گرامی مولانا عبد الستار ختم نبوت کے عظیم مجاہد تھے آپ بھی ان کے نقش قدم پر چلتے رہے ، ختم نبوت کا محاذ ہو یا دفاع ناموس صحابہ ؓ کا میدان ہر میدان میں باطل کے خلاف شمشیر بے نیام تھے ، اس سلسلے میں مختلف مکاتب کے علماءکے ساتھ بھی ان کے اچھے مراسم قائم تھے ،ایک مرتبہ اپنے احباب کے ہمراہ گولڑہ شریف جانے کا اتفاق ہوا تو سجادہ نشین پیر نصیر الدین گو لڑوی ؒ ان کے استقبال کے لیے باہر انتظار کرتے رہے ، فرمایا کہ بڑی علمی شخصیت ہیں اور علمی خاندان سے تعلق ہے ، تاہم یہ ملاقات تحفظ ختم نبوت کے لیے سجادہ نشین کو اپنے اکابرین کا بھولا ہو ا سبق کی یاددہانی کی ایک نشست تھی ۔

آپ جامع مسجد مکی کے نڈراور بے باک خطیب تھے ، مشکل سے مشکل حالات بھی آپ کے پایہ استقلال میں کمی نہ لا سکے ، حق گوئی ، بیباکی اور شجاعت میں اپنی مثال آپ تھے ، جامع مسجد مکی کے در و دیوار ، منبر و محراب ایک عرصہ تک مولانا توحید ی کے نغموں سے معمور رہے ، مسئلہ الٰہ آپ کی گھٹی میں شامل تھا ، لوگ آپ کا بیان سننے کے لیے دو ردراز علاقوں سے سفر کر کے جامع مسجد مکی پہنچتے اور مولانا کے شیریں اور پر مغز بیان سے محظوظ ہوتے ۔

حق گوئی کی پاداش میں کئی مرتبہ کا ل کوٹھڑی کامنہ دیکھنا پڑا ، جیل میں جبلِ استقامت مولانا اعظم طارق شہید ؒ ، مولانا ضیا ءالرحمن فاروقی شہید ؒ ، علامہ شعیب ندیم ؒاور مولانا حبیب الرحمن صدیقی کی رفاقت میسر آئی ، ان حضرات کی موجودگی ان کے حوصلوں کو جلا بخشتی ، جیل کی سلاخوں سے باہر آکر تازہ دم ہو کر دین متین کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہو جاتے ، جامع مسجد مکی کی مکہ المکرمہ کے ساتھ عظیم نسبت ہے ساری توحید کا مرکز مکة المکرمہ ہے ، جہاں سے کفر و شرک کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوا ،مکی مسجد بھی شرک وبدعات کے خاتمے میں کلیدی کردار اد اکرتی رہی اسی توحید کی بدولت مولانا توحیدی کا پورا خاندان توحیدی کہلاتا ہے ، آپ نے ساری زندگی لوگوں کے دلوں میں توحید کے چراغ روشن کیے ، محبت ، امن و آشتی کا بول بالا کیا یہی وجہ ہے کہ تمام علماءآپ سے محبت کرتے اور وقتاً فوقتاً مکی مسجد حاضر ہوتے رہتے ، مفکر اسلام مفتی محمود ؒ ، مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ ، مجاہد ختم نبوت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ ، شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒ ، خطیب ایشیاءمولانا ضیاءالقاسمی ؒ ، مولانا ضیاءالرحمن فاروقی شہید ؒ ، جبل استقامت مولانا اعظم طارق شہید ؒ ،فاتح رافضےت ، محسن اہلسنت علامہ علی شیر حیدری ؒ ، قائد جمیعت مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق ،اور مولانا مسعور ازہرغرض تمام نامی گرامی علماءمکی مسجد میں حاضر ہوتے رہتے ۔

مولانا حسین توحیدی 10سال سے فالج اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے ، آپ نے انتہائی صبر کے ساتھ رب تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔ تاہم اس کے باوجود 1982ءسے 2000ءتک بیت اللہ اور روضہ شریف کی محبت کے باعث بیماری کی حالت میں بھی عمر ہ کے لیے تشریف لے جا یا کرتے تھے ۔بالآخر 10سال کی جان لیوا بیماری نے اپنے پنجے گاڑھ لیے اور موت کا فرستادہ پیغام اجل لے کر آ پہنچا ، اس وقت آپ کی عمر مسنو ن عمر 63کو پہنچ رہی تھی ۔ 7جون 2012ءبروز جمعرات آپ دار فانی سے دار بقاءکی طرف رخت سفر باندھ گئے ۔آپ کی نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا ثناءاللہ حسینی نے پڑھائی ، جنازے میں سیاسی زعماء، وکلائ،تاجر برادری، انتظامیہ اور علماءکی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔

اللہ تعالیٰ آپ کی دین کے لیے مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نواز کر آخرت میں رفع درجات کا ذریعہ بنائیں ۔ آمین
Touseef Ahmed
About the Author: Touseef Ahmed Read More Articles by Touseef Ahmed: 35 Articles with 32167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.