اف :توبہ میری توبہ ۔میں جس اہم
بات کو آپ کے مطالعہ کی نظر کرنے کے لیے حاضرہوں ۔دل کانپ اُٹھتاہے ،رونگھٹے
کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کیسے بتاؤں ۔اف :توبہ میری توبہ ۔
حضرت سیدنا ابوالحجاج ثمالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:۔نبی اکرم ،شفیع امم،
رسول محتشم ،نبی مکرم اللہ کے پیارے، امت کے سہارے ،رب کے محبوب ،دانا ئے
غیوب، مالک رکاب امم ،فخر عرب و عجم والی کون و مکان ،سیاح لامکاں ،سید انس
و جان، سرور لالہ روخاں،نیر تاباں سر نشین محوشاں ،ماہ خوباں ،شہنشاہ
حسینا،تتمہئ دوراں،جمالہ جلوائے صبح ؐ نے ارشادفرمایا۔'' جب میت کو قبر میں
اتاردیا جاتا ہے تو قبر اس سے خطاب کرتی ہے اے آدمی! تیرا ناس ہو تونے کس
لیے مجھے بھلا رکھا تھا؟ کیا تجھے اتنا بھی پتا نہ تھا کہ میں فتنوں کا گھر
ہوں؟ تاریکی کا گھر ہوں؟ پھر تو کس بات پر مجھ پر اکڑا ،اکڑا کرپھرتا تھا
اگر وہ مردہ نیک بندے کا ہو تو ایک غیبی آواز قبر سے کہتی ہے۔ اے قبر! یہ
ان میں سے ہے جو نیکی کا حکم کرتے رہے اور برائی سے منع کرتے رہے تو پھر
قبر کہتی ہے اگر یہ بات ہے تو میں اس کے لیے گلزاربن جاتی ہوں چنانچہ پھر
اس شخص کا بدن نور میں تبدل ہوجاتا ہے اور اس کی روح رب العالمین جل جلالہ
کی بارگاہ کی طر ف پرواز کرجاتی ہے۔''۔۔۔
محترم قارئین: اس حدیث پاک پر ذرا غور تو فرمائیے:۔ کہ جب بھی کوئی قبر میں
جاتا ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد اس کو قبر میں ڈرایا جاتا ہے۔وہاں نہ کسی صدر
،وزیراعظم ،کسی ایم پی اے ،کسی ایم این اے ،کسی ایس پی ،کسی ڈی ایس پی کی
پرچی نہیں چلے گئے ۔اپنے اعمال کا ساتھ ہوگا ، آپ کی بلند کوٹھیاں، محلات،
مکانات، آپ کی دولت، آپ کا بینک بیلنس ،آپ کا وسیع کاروبار، آپ کے بڑے بڑے
پلاٹ، آپ کے لہلہاتے کھیت اورخوشنما باغات یہ سب آپ کے ساتھ قبر میں نہیں
آئیں گے۔۔۔۔ایک عاشقِ رسول نیک سیرت بزرگ حضرت سیدنا عطاء بن یسار رضی اللہ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس
کا عمل آکر اس کی بائیں ران کو حرکت دیتا اور کہتا ہے میں تیرا عمل ہوں وہ
مردہ پوچھتا ہے میرے بال بچے کہاں ہیں؟ میری نعمتیں ،میری دولتیں کدھر ہیں؟
تو عمل کہتا ہے یہ سب تیرے پیچھے رہ گئے اور میرے سوا تیری قبر میں کوئی
نہیں آیا''
آہ!چندگھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوجائے تو سانس پھول جاتی ہے ،دل کی دھڑکنیں بے
ربط ہوجاتی ہیں ،پسینے پسینے ہوجاتے ہیں ۔حشرات الارض میں سے کوئی کاٹ لے
تو چیخیں نکل جاتی ہیں ۔روٹی لینے تندورپر جاتے ہیں تندور کی تپش سے
بیزارہوکر پیچھے ہٹ جاتے ہیں ،سورج کی گرمی میں گھر سے باہر نکل جائیں تو
حالت بری ہوجاتی ہے۔
کرتوت ہمارے ایسے کہ انسانیت بھی شرماجائے ۔جھوٹ ،فریب ،دھوکہ دہی ،دل
آزاری ،نفرتیں ،عداوتیں ،بغاوتیں ،رشوت ہم لیتے ہیں ،کمزور و لاچار دیکھ کر
اس پر بھرس پڑتے ہیں ۔نوکری کی لمبی لمبی قطاروں میں نہ جانے کتنے اہل
قابلیت و استعداد رکھنے والے تپتی دھوم میں منتظرہوتے ہیں ۔لیکن نوکری کے
لیے اولین دو شرائط سفارش اور پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے سوائے مایوسی کے اس
بیچارے کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
محلوں میں بیٹھے ،بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے قارون ،غریب عوام کا خون چوسنے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ،اقربا پروری کا زہر پھیلتاچلاجارہاہے ۔میں
بیسیوں ایسے نواجونوں کو جانتاہوں ۔جنھوں نے سینکڑوں cvبنائی ،ڈاکومنٹ کاپی
کروائے ،امتحان دیئے ،لیکن دھوکوں ،جھڑکوں کے سواکچھ نہ ملا،
میں ارباب اقتدار سے مخاطب ہوں کے کیا یہ بھول بیٹھے ہو کہ جس نے تمہیں یہ
منصب دیاہے وہ پل بھر میں تمہیں خس وخاشاک کرنے پر بھی قدرت رکھتاہے ۔کچھ
حیا کرو،آخرت کے متعلق سوچ لو،کہیں ایسانہ ہو کہ آپ تاریخ کی عبرتناک
داستان بن جاؤ۔
محترم قارئین :میں لکھ جہاد کرنا جانتاہوں ۔میں لکھ رہاہوں ۔میری آواز جہاں
جہاں تک پہنچ رہی ہے میراپیغام جہاں جہاں تک پہنچ رہا ہے ۔آپ کسی بھی شعبہ
زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔آپ کچھ کرنے سے پہلے اپنی عاقبت کے بارے میں ضرور
سوچیں ۔اگر کوئی غلطی ہوئی تو صدقِ دل سے توبہ کرلیں اور یہ عزم کرلیں کہ
آئندہ برائیوں سے بچتارہوں گا۔توبہ میری توبہ |