میں لفظ معرفت سنا کرتاتھا تو
حیران ہوتاتھاکہیں سے آواز سننے کو ملتی یہ معرفت کی باتیں ہیں،یہ سلوک کی
باتیں ہیں ؟لیکن یہ سراغ نہ لگ سکا کہ یہ کس جڑی بوٹی کا نام ہے ۔جوں جوں
بلوغت کی جانب پیش قدمی ہوئی دماغ کے بند دریچے بھی کھلنے لگے اہل علم کی
معیت نصیب ہوئی تو پتالگاکہ جسے میں برس ہا برس سے دواء یا جڑی بوٹی
سمجھتارہا وہ تو چیز ہی کچھ اور ہے۔محترم قارئین :گزشتہ سے پیوستہ میں دیگر
عنوانات پر قلم کشائی کرتارہا۔لیکن میرے دل سے اک آواز آئی کے اخلاص قبولیت
کی کنجی ہے ۔ان پڑھنے والے اپنے پیاروں کو کچھ روحانیت ،حقیقت و معرفت کے
حوالے سے بھی بتادیا جائے کیا معلوم کس کا دل چوٹ کھا جائے اور وہ تائب
ہوکر راہ عشق و محبت کا راہی بن جائے تو مجھے میرے ،سوچنے ،،لکھنے کے پیسے
وصول ہوجائیں گئے ۔خیرمیر بات اطناب کا شکار ہوگئی ۔کوشش کرتے ہیں پہچاننے
کی ۔
یہ معرفت ہے کیا:
دراصل یہ ایک علم ہے یوں سمجھیں کہ علم ِ باطن کی باریکیوں کو سمجھ لینا
معرفت ہے۔ المعرفۃ والعرفان ادراک الشیئ بتفکر و تدبر لا ثرہ وہو اخص من
العلم ویضادہ الانکار یعنی کسی چیز کے نتیجے پر پہنچنے کے لےے اس میں غور
وفکر کر کے اس کا ادراک حاصل کرنا معرفت اور عرفان ہے اور یہ علم سے خاص
ہے(یعنی ہر معرفت علم ہے اور ہر علم معرفت نہیں ہے) اور اس کی ضد انکار ہے
(مفردات صفحہ٣٤٣)۔
امام ابو القاسم قشیری رحمت اﷲ علیہ فرماتے ہیں:علماء کی زبان میں معرفت
علم کو کہتے ہیں لہٰذا ہر علم معرفت ہے اور ہر معرفت علم، اور ہر شخص جو
عالم باﷲ ہے وہ عارف باﷲ بھی ہے۔ ہر عارف عالم بھی ہے ، مگر صوفیاء کے
نزدیک معرفت ایک ایسے شخص کی صفت ہے جو حق تعالیٰ کو اس کے اسماء اور صفات
کے ساتھ پہچانے۔ اس کے بعد اﷲ کے ساتھ تمام معاملات میں سچا اور اخلاص والا
ہو۔ پھر اپنے ردی اخلاق اور آفاتِ نفس سے پاک ہو۔ اس کے بعد وہ اﷲ تعالیٰ
کے دروازے پر ایک طویل عرصہ کے لیے ٹھہرا رہے۔ اور وہ اپنے دل سے(اسی
دروازے) پر معتکف رہے۔ جس کے نتیجہ کے طور پر اسے یہ خوش بختی حاصل ہو گی
کہ اﷲ تعالیٰ اس کی طرف اپنی توجہ دے گا۔ اور وہ اپنے تمام احوال میں اﷲ
تعالیٰ سے خلوص و صدقِ دل سے عمل پیرا ہو گا۔ اور اس سے خواطرِ نفس(نفسانی
خیالات) پیش آنے بند ہو جائیں گے۔ اور وہ اپنے دل کے کسی ایسے خاطر(خیال)
کی طرف توجہ نہ دے گا جو غیر اﷲ کی طرف دعوت دے۔ چنانچہ جب بندہ مخلوق سے
اجنبی ہو جائے اور آفاتِ نفس سے بری اور ساکنات اور ملاحظات سے پاک ہو جائے
اور راز میں وہ ہمیشہ حق تعالیٰ کے ساتھ مناجات میں رہتاہو اور ہر لحظہ اﷲ
کی طرف اس کا رجوع کرنا ثابت ہو اور اﷲ تعالیٰ اس کے ساتھ باتیں کرے، اس
طرح کہ ان تمام تقدیروں کے ردو بدل کا راز جو اﷲ تعالیٰ جاری کرتا ہے، وہ
اسے بتا دے، تب جا کر بندہ عارف کہلاتا ہے اور اس کی حالت معرفت کہلاتی ہے۔
مختصر یہ کہ جس قدر انسان اپنے نفس سے بیگانہ بنے گا۔ اسی قدر اسے اپنے رب
کی معرفت حاصل ہو گی(رسالہ قشیریہ صفحہ٥٥٨)۔
محترم قارئین :کچھ پتاچلاکہ معرفت کیا ہے؟کاش کے ہمیں اپنے ربّ کی خوب خوب
پہچان نصیب ہوجائیں ۔چلیں مزید بھی اس پر اگلے کالم میں بات کریں گئے۔کم ہو
ستھرا ہوجو ہضم بھی ہوجائیں ۔اسی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی بات کو
اختصار پر باندھے رکھا ۔تاکہ وہ بات بیان کی جائے جو فہم میں بھی آئی اور
قابل عمل بھی ۔اللہ عزوجل ہمیں معرفت و عرفاں کی نعمت سے سرفراز
فرمائے۔آمین ۔آئیں ہم ملک کر معرفت کے راستوں کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں
۔ |