بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ)
ایک موقع پر محسن انسانیت ﷺنے پانچ ادوار گنوائے،اس قول رسول ﷺ کا خلاصہ ہے
کہ پہلادور، دورنبوت ہے،دوسرادورخلافت راشدہ کادورہوگا،تیسرے دور میں
ملوکیت درآئے گی،آپ ﷺ نے فرمایاپاچوتھے دورمیں میری امت پر غلامی مسلط کردی
جائے گی اور پھر ارشادفرمایا کہ پانچویں دور میں خلافت علی منہاج نبوت
دوبارہ قائم ہو گی۔ کم وبیش گزشتہ نصف صدی سے جاری جدوجہدکے نتیجے میں
ہماراقیاس ہے کہ مقدس پیشین گوئی کے تناظر میں امت مسلمہ بڑی تیزی سے فرمان
نبوی ﷺ کے مطابق پانچویں دور میں داخل ہو رہی ہے۔حالیہ انتخابات کے نتیجے
میں مصر کے اندر اخوان الملمین کی کامیابی اس منزل کا شاندار سنگ میل
ہے۔جون2012کے وسط میں واقع ہونے والے صداررتی انتخابات کے فیصلہ کن مرحلے
میں اسلام پسند قائد محمدمرسی عیسی العیاط نے واضع برتری حاصل کی ہے اور
اپنے فریق مخالف کو شکست فاش دے کر مصر کے پانچویں صدرمنتخب ہوئے ہیں۔محمد
مرسی 20اگست1951کو شمالی مصرمیںپیدا ہوئے،قاہرہ یونیورسٹی سے انجینیرنگ میں
اعلی تعلیم حاصل کی، کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے 1982ءمیںڈاکٹریٹ کی
ڈگری حاصل کی۔1991میں باقائدہ سے اخوان کی رکنیت اختیار کی اور اپنی
خداداصلاحیتوں سے آگے بڑھتے گئے ۔2000سے 2005تک اخوان کی طرف سے منتخب رکن
پارلیمان بھی رہے۔2011تک وہ اخوان کے مرکزی قائدین میں شمار ہوتے رہے تآنکہ
اخوان کی طرف سے نئی انتخابی جماعت ”فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی“کی تاسیس کے
ساتھ ہی اس کے صدر نشین مقررہوئے۔اخوان نے پابندیوں کے باعث اس نام سے
انتخابات میں حصہ لیا اور یوں محمد مرسی اخوان کی طرف سے عوام کی پرجوش
تائید کے ساتھ مصر کے پانچویں صدر منتخب ہوئے،جب کی کسی عرب ملک میں یہ
پہلے اسلام پسند صدرہیں۔
1928میں مصر کے بائیس سالہ نوجوان”استاد حسن البنا“نے تحریک ”اخوان
الملمین“کاآغازکیا۔استاد حسن البنا(1904-1949)کے والدشیخ احمد عبدالرحمن
اپنے قبیلہ میںحدیث و فقہ کے بہت بڑے عالم تھے،انہوں نے متعدد قدیم کتب
حدیث و فقہ کی تبویب و شروح کاعلمی کارنامہ سرانجام دیاتھا۔استاد حسن البنا
نے دارالعلوم قاہرہ سے 1927میں گریجوئیشن کی اور وزارت تعلیم نے آپ کو
اسمائیلیہ کے مدرسہ امیریہ میں مدرس مقررکردیا۔1946تک وہ سرکاری ذمہ داریاں
اور اخوان کاکام دونوں کوساتھ لے کر چلتے رہے لیکن اخوان کی بڑھتی ہوئی
عوامی تائیدنے استادکومجبورکیاکہ کسی ایک کشتی کے مستقل سواربن
جائیں،سو1946میں ہی سرکاری ملازمت جیسی نعمت سے مستعفی ہو کر صرف اخوان کے
لیے مختص ہوچکے۔اسی دوران ہندوستان سے قائداعظم محمدعلی جناحؒجب فلسطین کے
دورے پر گئے اور قاہرہ کے ہوائی اڈے پرکچھ دیر قیام فرمایاتو عرب قائدین
میں سے محض استادحسن البنا نے اخوان کے وفد کے ساتھ ان سے ملاقات کی اور ان
کی میزبانی کی سعادت بھی حاصل کی۔1933سے 1939تک اخوان کادور خاموش تبلیغ
کادور رہا،بہت خاموشی سے مسجدوں میں،وعظ وتدریس اور دوردرازعلاقوں میں ذیلی
شاخوں کاقیام عمل میں آیااور تنظیم سازی ہوتی رہی۔1939سے1945تک اخوان ایک
قوت بن کر ابھرے اور معاشرے کی طاغوتی و استعماری طاقتوں کو کھٹکنے
لگے۔انگریزوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے اخوان کے قائدین کو شہربدرکیا،اخوان
کے ہفتہ وار رسالے پرپابندی لگاکر اس کا پریس مقفل کردیااورمتعدد راہنماؤں
کو پابندسلاسل بھی کیا۔1945سے1948تک استاد کی قیادت میں اخوان کا آخری دور
ہے جسے دورابتلاوآزمائش کہاجاتاہے۔اس دور میں اخوان کے رضاکاروں نے اسرائیل
میں نوزائدہ طاغوتی طاقت کے ساتھ براہ راست پنجہ آزمائی کی جس سے برطانوی
استعمار سیخ پا ہو گیااورمصری وزیراعظم نقراشی پاشانے اپنے غیرملکی آقاو ¿ں
کی آشیربادکے لیے اخوان کو خلاف قانون قراردے دیااور پورے ملک میں
پکڑدھکڑکاوہ بازارگرم ہواکہ الامان و والحفیظ۔ابھی یہ مشق ستم جاری تھی
کہ12فروری1949کو خفیہ پولیس کے کارندوں میں استاد حسن البناکو سربازار گولی
مار کر شہید کر دیا۔لیکن اب تک اخوان صرف مصر ہی نہیں کل عرب ممالک کے طول
و عرض میں پھیل چکی تھی اور زندگی کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے موثر
افراد ایک بڑی تعدادمیں اخوان کے پرچم تلے جمع ہو چکے تھے۔
استادحسن البناکی شہادت کے ڈیڑھ سال بعد تک مصر میں کل اخوان پابندسلاسل
رہے اوراس دوران ان پر ظلم و ستم کے کوہ گراں توڑے گئے لیکن ان اہل اﷲ کے
قدموں میں ذرہ برابر بھی جنبش نہ آئی،استقامت کے ان اسباق نے قرون اولی کے
مسلمانوں کی یاد تازہ کر دی۔1951میں اخوان کواس امید پررہاکیاگیاکہ کہ اب
یہ اندر سے مردہ ہو چکے ہیں اور ظلم و ستم کی بھٹی نے انہیں کسی قابل نہیں
چھوڑا۔لیکن رہائی کے بعد 17اکتوبر1951کو اخوان نے شیخ حسن بن اسمائیل
(1891-1972)کواپنادوسرامرشدعام منتخب کیااور ان کی قیادت میں پہلے سے زیادہ
سبک رفتاری کے ساتھ عازم بہ منزل ہوئے۔شیخ حسن کی قیادت میں مصر نے سیاسی
طورپر بہت سے نشیب و فراز دیکھے ،اخوان نے اچھے کاموں میں حکومت سے تعاون
اور برے کاموں میں عدم تعاون کا قرآنی قانون پیش نظر رکھالیکن استعمارکی
پروردہ سیاسی و عسکری قیادت اخوان پر شب خون کے بہانے ڈھونڈتی رہی اور
26اکتوبر1954کوجب جمال عبدالناصرپرقاتلانہ حملہ ہواتواس کالزام اخوان کے
سرتھونپ کر ایک ہفتہ کی قلیل مدت میں پچاس ہزارسے زائدافرادکو پس
دیوارزنداں دھکیل کرتوایک بار پھر مکہ و طائف کی کھاٹیاں تازہ کر دی
گئیں۔اب کی بار اخوان کی اعلی قیادت کے متعدد سربرآوردہ لوگوں کو تختہ دار
پر بھی لٹکادیاگیااورجیلوں میں اخوان مرد و خواتین پر ایسے ایسے تشددکے طرق
اختیارکیے گئے کہ پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس بار ایک قابل ذکر
واقعہ ہے کہ ایک اخوانی بزرگ خاتون پر جمال عبدالناصر کے عملے نے کتے چھوڑے
لیکن وہ لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے خونخوار کتے اس اخوانی خاتون کو کاٹنے
کی بجائے اس کے پاؤں چاٹنے لگے۔اس دوران عالم اسلام کے مشہور دانشوراور
مفسرقرآن سیدقطب جیسی شخصیت کوبھی اخوان سے تعلق کی بنیاد پر25اگست1966کو
پھانسی دے دی گئی۔خود مرشدعام شیخ حسن بھی ایک طویل عرصہ جیل میں رہے اور
قیدوبندکی سعوبتیں برداشت کرتے رہے اور پھر پیرانہ سالی کے باعث رہائی تو
ملی لیکن طبیعت سنبھل نہ سکی اور 1973کو وہ بھی شہیدان وفا سے جا ملے۔شیخ
حسن اکثر کہاکرتے تھے کہ اپنے دلوں پر قرآن کی حکومت قائم کر لو دنیاپر خود
بخود قائم ہو جائے گی۔
السیدعمر تلمسانی(1904-1986)اخوان کے تیسرے مرشدعام منتخب ہوئے۔یہ
اصلاََالجزائرکے باشندے تھے اور ان کا خاندان فرانسیسی غلبے کے بعد مصر
منتقل ہو گیاتھا۔پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے اور 1933میں استاد حسن
البناشہید کے ہاتھ پر بیعت کر کے تو اخوان میں شامل ہو گئے تھے۔1954کی
آزمائش کے دوران یہ بھی پابندسلاسل کیے گئے اورسترہ سالوں تک سیکولرازم کی
بہیمنیت کا شکاررہے۔شیخ حسن کے بعد انہیںاخوان کاتیسرامرشدعام بنایاگیا۔ان
کی توجہ زیادہ تر تنظیمی استحکام پرمرکوزرہی اور اخوان میں شامل ہونے والوں
کی فکری تربیت کاانتظام کیاجاتارہا۔طلبہ میں اخوان کا حمایت یافتہ گروہ”
الجماعات الاسلامیہ “بھی منظم ہوااور شرق و غرب سے نفاذاسلام کا غلغلہ بلند
ہونے لگا۔اس دورمیں مصر زیادہ تر بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ رہااور مصر کی
سیاسی قیادت اسرائیل کےءسامنے گھٹنے ٹیکنے لگی جس کا ردعمل پوری قوم کے
ساتھ ساتھ دیگر اسلامی ملکوں کی طرف سے بھی پوری شدت سے آتارہا۔بیرونی دباؤ
کامقابلہ کرتے کرتے حکومت اس قدر شل ہوئی کہ اخوان پر سے اس کی توجہ اس طرح
نہ رہی جس طرح پہلے تھی جس سے فائدہ اٹھا کر اخوان نے اس مرشدعام کی قیادت
میں اپنے آپ کو اندر سے مضبوط سے مضبوط تر کر لیاجس کے اثرات اب نظر آنے
لگے ہیں۔1986میں سیدعمر تلسمانی بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔اپنی وفات
سے کچھ عرصہ قبل سیدعمر تلسمانی لاہورتشریف لائے تھے جہاںطلبہ کے ایک وفد
کے ساتھ راقم الحروف نے بھی ان سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔
استادمحمدحامدابوالنصر(1913-1996)اخوان کے چوتھے مرشدعام منتخب ہوئے ،آپ
کاشمارمعروف علمائے جامعہ ازہر میں سے ہوتاہے ،کم گواور خطابت سے گریزاں
رہتے تھے۔1933میں استاد حسن البناکے ہاتھوں اخوان میں شرکت کی اور 1954کی
ابتلاو آزمائش میں پچیس سال جیل میں گزارے۔ان کے دس سالہ دور میں اگرچہ
اخوان المسلمین پر پابندی رہی لیکن دیگر ناموں سے ان کا دور سیاسی عروج کی
طرف شروع ہونے والے سفر کادور ہے۔اخوان ے حمایت یافتہ لوگ پارلیمان میں
پہنچنے لگے اور عوام میں اخوان کی پزیرائی میں بے حد اضافہ ہوا۔کلیات و
جامعات اور دیگر پیشہ ورانہ افراد کے انتخابات میں اخوان نے مکمل کامیابی
حاصل کی ،1987کے انتخابات میں اخوان کے 36نمائندے کامیاب ہوئے یہ اپنی
نوعیت کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔خلیج کی جنگ میں بھی اخوان کی طرف سے بہت
جرات مندانہ بیانات سامنے آئے ۔20جنوری1996کو اخوان کا یہ دمکتاہواآفتاب
بھی غروب ہو گیا۔
استاد مصطفی مشہور(1921-2002)اخوان کے پانچویں مرشدعام منتخب ہوئے،یہ
1938میں استادحسن البناشہید کی دعوت پر اخوان میں شریک ہوئے ،دورابتلامیں
مجموعی طورپر19 سال جیل میں رہے جب کہ یہ عرصہ چار دورانیوں پر مشتمل ہے،آپ
نے جلاوطنی کے دن بھی کاٹے۔گزشتہ مرشدعام نے آپ کو نائب اول کا مقام دے
رکھاتھاشاید اسی لیے اخوان نے آپ کو پانچواں مرشدعام منتخب کیا۔پیشے کے
اعتبار سے آپ صحافی تھے اور مصر میں ادیبوں اور مصنفوں میں بھی ان کا
شمارہوتاتھا۔2002،اپنی وفات تک آپ نے اس قافلہ سخت جاں کی خوب خوب قیادت
کی۔مامون الہدیبی اخوان کے چھٹے مرشدعام بنے ،یہ دوسرے مرشدعام استاد حسن
کے بیٹے تھے ۔ان کادور بہت مختصر رہااور2004،اپنی وفات تک انہوں نے بھی
اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔محمد مہدی عاکف (1928-2010)اخوان کے اگلے مرشدعام
بنے جو 2004سے 2010تک اپنی منصبی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔اس وقت اخوان کے
مرشدعام محمد بدیع ہیںجو1943کو پیداہوئے،پیشے اور تعلیم کے اعتبارسے وہ
طبیب الانعام ہیں ،دورابتلامیں پندروہ سالوں تک قیدوبندمیں محصوررہے۔رہائی
کے بعد بہت سی جامعات میں پتھیالوجی کے پروفیسر بھی رہے اور ملک میں اور
ملک کے بار اپنے مضمون میں سند مانے جانے کے باعث باقائدہ دعوت پر
لیکچردینے جاتے تھے۔
مصر میں ایک طویل عرصے کے بعد اسلامی ذہن کے لوگ برسراقتدارآئے ہیں انہیں
داخلی طور پر بہت بڑے بڑے تقاضوں کا سامنا کرناہوگا،سیکولرقیادت کا گندصاف
کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اگروہ کامیاب رہے تو جس طرح اخوان کی فکر مصر
سے نکل کل عرب ممالک میں پھیلی ہے اسی طرح یہ سیاسی تبدیلی بھی پورے عرب
ممالک کامقدر ہوگی ۔عالمی استعمار انہیں مشکلات میں گھےرے رکھے گااور انہیں
فرصت سے چین نہ لینے دے گا،خود اسرائیل کا ناپاک وجود اس نو منتخب قیادت کے
لیے بہت بڑا کٹھن تقاضاثابت ہوگا لیکن موجودہ اسلام پسندمنتخب قیادت کو یہ
سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اقتدار ان کے پاس شہیدوں کی امانت ہے اوراس میں کسی
طرح کی خیانت دارین میں ان کی رسوائی کا باعث بن سکتی ہے۔داخلی میدان میں
انہیں سب سے پہلے معیشیت کو سود سے پاک کرنے کا مرحلہ درپیش ہو گا،اگرچہ ان
کے پاس ماہرین کی کچھ کمی نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ بہت کٹھن اور طویل مدتی
صبرآزما امر ثابت ہوگا،دوسراسب سے اہم کام نظام تعلیم کو اختلاط مردوزن کی
آلودگی سے پاک کرنااور طلبہ و طالبات کے لیے علیحدہ نصاب تیارکرناہوگاجبکہ
امن و امان تو ہر حکومت کی بنیادی اور اہم ذمہ داری ہے۔ان داخلی امور کے
لیے ایران کے تجربات مصر سمیت کل امت کے لیے قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھتے
ہیں ،جبکہ خارجہ امورمیں ترکی کی اسلامی قیادت نے تاریخ ساز کامیابیاں حاصل
کی ہیں اور یورپ میں ہوتے ہوئے بھی سیکولرازم کو دیس نکالا دیاہے۔بالغ نظر
قیادت اگر عرب و عجم سمیت دیگر فصیلیں ہٹادے تو باہمی اشتراک عمل سے دوسری
دنیاؤں کے طاغوت بآسانی سرنگوں ہو سکتے ہیں-
مصر میں اخوان کی کامیابی ان حالات میں ہوئی ہے جب گزشتہ دس سالوں سے زائد
عرصے سے دنیامیں راسخ العقیدہ مسلمان ہونا جرم بن گیاہے،غیراوردشمن تو
بجاخود اپنے مسلمانوں کے حکمران بھی عبداﷲ بن ابی اورمیرصادق اور
میرجعفرکاکرداراداکررہے ہیں،شرق تاغرب مسلمان ظلم کی چکی میں پستے چلے
جارہے ہیں ۔ میڈیااورانسانی حقوق کی عالمی مقامی تنظیمیں جو بلی اور کتے
اور بندر پر ظلم برداشت نہیں کرتے اورآسمان سرپر اٹھالیتے ہیںانہوںنے
مسلمانوں کے قتل عام پر مجرمانہ چپ سادھ رکھی ہے،سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس
زمین کی فضاکو پاک و صاف رکھنے والے اداروں کوگاڑیوں سے نکلنے والا دھواں
تو نظر آتاہے لیکن کارپٹ بمباری سے ہونے والی تباہی اور بارودکی برپاکی
ہوئی بربادی نظر نہیں آتی ،عالمی عدالت انصاف کو یورپ اور امریکہ میں تو
ٹریفک کی خلاف ورزی پر ناجائزچالان بھی نظر آجاتے ہیں لیکن سیکولرازم کے ان
اداروں کو زمین کے دریاؤں میں پانی کی جگہ مسلمانوں کاخون بہتانظر نہیں
آتا۔ حدتویہ کہ عالمی امن کا ٹھیکیدارادارہ قوام متحدہ بھی استعمار کا آلہ
کاربن چکاہے اوربراہ راست یابالواسطہ مسلمانوں کی نسل کشی میں برابر کاشریک
ہے۔پس یہ وقت ہے کہ امت متحدہواور استعمارکاڈٹ کر مقابلہ کرے۔
اب تک مسلمانوں کے الگ الگ علاقوں میں تو مقامی وقومی قیادتیں ابھررہی ہیں
جو بیدارمغزی کا بین ثبوت دے رہی ہیں لیکن بالمجموع ابھی امت کی قیادت کادم
بھرنے والے مردان کار عنقاہیں،اﷲ کرے مصر کی نوخیزقیادت اپنی قائدانہ
صلاحیتوں کو صرف مصر تک محدود نہ رکھے بلکہ کل امت کی باگ دوڑ سنبھالے ۔اس
سے قبل بھی ترکی کی ہوش مند اسلامی قیادت نے سیکولرازم کا سحرتوڑا ہے پس
اسی طرح اﷲ کرے مصر بھی اسرائیل کا سحرتوڑ پائے اور غزہ کے فلسطینیوں سمیت
کل امت مسلمہ کے فرزندان توحیدکوخواہ وہ افریقہ کے اریٹیریامیں ہوں یا
ایشیا کے برما میں گزشتہ کئی نسلوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوں یا پھر
گروزنی،کشمیراور افغانستان کے علاقوںمیں ہوں یا امریکہ اور یورپ کی خوش کن
وادیوں میں اپنا آپ کھو چکے ہوں ان سب کی قیادت کرنا اور انہیں اپنی اصل کی
طرف لانا اس قیادت کے ذمے ہے۔ |