روزنامہ ”دومیل“ مظفر آباد
کے ایڈیٹر و پبلشر راجہ ظفر حسین پیر کو اپنی معمول کی سرگرمیوں میں
مصروف تھے،دل و دماغ پر زمانے کی ستم ظریفی کا بوجھ تھاجو ایک عرصہ سے
ان پر حاوی چلا آرہا تھا۔راجہ ظفر کا جسم تو زمانے کی صعوبتیں برداشت
کرتا آرہا تھا لیکن ان کا حساس دل ان تلخیوں ،سرد محریوں کی تاب نہ لا
سکاجس کا سامنا انسانوں،محکموں کی کی بے اعتنائی سے کی وجہ سے تھا۔ و
فات سے چند روز قبل راجہ ظفر حسین کا تحریر کردہ کالم اس صورتحال کی
عکاسی کرتا ہے کہ آزاد کشمیر کے ریاستی اخبارات وجرائد کو کن مصائب
ومشکلات کا سامنا ہے۔آزاد کشمیر کے ہر شعبے میں ترقی ہوئی لیکن ریاستی
اخبارات کی ترقی کا اہم معاملہ کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا
۔میری رائے میں راجہ ظفر حسین کا یہ کالم خود اپنے قتل کی ”ایف آئی آر“
ہے،لیکن کون ہے جو اس بات کی تحقیقات کرتے ہوئے ایسے کسی اور واقعہ کو
ہونے سے روکے جس سے حساس دل صحافی معاشی،ذہنی دباﺅ کی وجہ سے اپنے
خاندان کو اللہ تعالی کے حوالے کرنے کی نیت کرتے ہوئے قبل از وقت اس
دنیا سے ناطہ توڑنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں ۔
راجہ ظفر حسین انتقال سے چند روز قبل ”شعور“ کے مستقل عنوان سے اپنے
کالم”کاش یہ دن نہ دیکھنا پڑتا“ میں لکھتے ہیں،
” قارئین کرام:
آج میری زندگی کا انتہائی تکلیف دہ دن ہے ،میرے سٹاف کے انتہائی محنتی
اور مخلص چند سٹاف ممبر،جنہوں نے شروع دن سے انتہائی نامساعد حالات میں
میرا ساتھ دیا۔گزشتہ چار ماہ کے دوران محکمہ تعلقات عامہ کی جانب
سے”روزنامہ دومیل“کے ساتھ روا رکھے جانے والے معاندانہ رویہ کے باعث
کوئی ادائیگی نہیں کی جاسکی، محکمہ نے صرف بہلاوے اور دکھاوے کے لئے
چند ہزار روپے کے اشتہارات جاری کئے ،جس کے نتیجے میں سٹاف کو بروقت
تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہو سکی جس کے نتیجے میں بعض سٹاف ممبران کے
بچوں کو سکولوں میں بروقت فیس کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث فارغ کر دیا
گیا۔یہ سب کچھ میرے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھا لیکن میں بے بس تھا۔آج
ان سٹاف ممبران کو انتہائی مجبوری کے عالم میں اس وعدے پر ادارہ سے
فارغ کرتا ہوں کہ آئندہ چند روز میں ان کی تنخواہ ادا کر دی جائیں
گی۔میں اپنے انتہائی مخلص ممبران کا انتہائی ممنون احسان ہوں کہ انہوں
نے میری مجبوریوں کا احساس کرتے ہوئے نہایت خندہ پیشانی سے یہ فیصلہ
قبول کرتے ہوئے ادارہ سے فارغ ہونے کا فیصلہ کیا۔میرا ان سٹاف ممبران
سے وعدہ ہے کہ اگر زندگی نے وفا کی تو ان کے اس عظیم احسان کا بدلہ
ضرورچکاﺅں کا۔میری یہ دعا ہے کہ یہ جہاں بھی جائیں کامیاب و کامران
رہیں۔آمین “
کتنے ہی ایسے ریاستی اخبارات و جرائد ہیں جو گزشتہ تین عشروں کے دوران
آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے ریاستی اخبارات و جرائد کی ترقی کا ماحول
فراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے یکے بعد دیگرے بند ہوتے چلے گئے،ان کے
ایڈیٹر معاشی بدحالی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ان میں کئی ایسی بڑی
شخصیات اور اخبارات کے نام بھی شامل ہیں جو ریاستی صحافت کی تاریخ کے
روشن ستارے ہیں،جن کی نظریاتی اور تحریکی جدوجہد اور کوششیں آزاد کشمیر
کو سیاسی حقوق ملنے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔لیکن آزاد کشمیر کی
ہر حکومت نے سب ریاستی اخبارات و جرائد کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا،ترجیح
پاکستان سے تعلق رکھنے والے وہ اخبارات و جرائد قرار پائے جو ڈاک
ایڈیشن کے نام پر چند اخبار شائع کر کے متعلقہ علاقے میں بھیج دیتے
ہیں۔
مرحوم برادرم راجہ ظفر حسین کے سوگوار خاندان میں ان کی اہلیہ اور چار
بیٹیاں ہیں۔آزاد کشمیر حکومت کا فرض ہے کہ مرحوم راجہ ظفر حسین کے اہل
خانہ کی مالی معاونت کی جائے اور ان کے اخبار کو بند ہونے سے بچایا
جائے۔آزاد کشمیر کے اسمبلی ممبران نے تو اسمبلی کو عوام کے بجائے اپنے
ہی مفادات کے تحفظ کا کلب سمجھ کر اپنے سابقہ عہدیداران کے لئے تو
وظیفے محصوص کر رکھے ہیں لیکن ان صحافیوں کی زندگی اور موت کا کوئی
احساس نہیں جو آزاد خطے کے حقوق اور دوسرے اہم امور کے بارے میں شعور و
آگاہی دیتے ہوئے ’چیک اینڈ بیلنس‘ کے توازن اور عوام کی آواز کا کردار
ادا کرتے ہیں۔ہمارا حساس دل بھائی راجہ ظفر حسین تو ان ستم ظریفیوں سے
چل بسا ،لیکن کئی ریاستی اخبارات و جرائد کے ایڈیٹر و پبلشر ایسے ہیں
جن کی موت کا راستہ اسی طرح تیزی سے ہموار کیا جا رہا ہے جس طرح راجہ
ظفر حسین پر اتنا دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ وفات پا گیا۔ اصل صحافی تو اپنے
’جگر کا خون‘ کرنے کو ہی اپنا کام سمجھتا ہے لیکن جب ملک و قوم کے لئے
مشکل ترین حالات میں بھی تعمیری کام کرنے والے صحافی حکومت کی جانب سے
بے اعتنائی،زیادتی کا سامنا کرتے ہیں تو اس معاشرے کی تباہی زیادہ دور
نہیں ہوتی۔ ریاستی اخبارات و صحافیوں کی تو یہ حالت ہے کہ بقول فیض
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے |