خدا کی تخلیق کردہ اس کائنات میں
ان گنت مخلوقات کا وجود ہے ا س میں بیش تر کا کھوج تو انسان لگا چکا ہے مگر
اکثر اب بھی اس کی نظروں سے اوجھل ہیں ۔لیکن ان تمام مخلوقات میں جس کو
اشرف المخلوقات کہلانے کا درجہ حاصل ہو ا وہ حضرتِ انسان ہے۔دانشوروں کا
کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے انسان میں سرائیت کردہ نعمتوں
میں’عقل‘کا ملنا اُس کیلئے باعث فضیلت ہے اور یہ ہی سب سے بڑی نعمت انسان
کو انسانیت کے انفرادی رتبہ پر لا کھڑا کرتی ہے۔ میں ناقص علم دانشوروں اور
صاحب علم طبقہ کی اس بات سے انکار کرتا ہوں کیونکہ عقل انسان کے ساتھ ساتھ
جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ جانوروں کا اپنے گھر اور بچوں کی شناخت کرنا
، خوراک کی تلاش میں مصروف رہنا اور افزائش نسل کی خواہش وغیرہ ان میں عقل
ہودنے کی واضع دلیل ہے۔ اگر انسان عقل کی بنیاد پر دوسری مخلوقات سے افضل
ہوتاتو پیغمبر و درویش کبھی انسان کو یہ نہ کہتے کہ ”پرندوں سے سیکھو کہ وہ
رزق کس طرح تلاش و ذخیرہ کرتے ہیں“۔
قارئین کرام! میرے نزدیک انسان کی وجہ فضیلت عقل نہیں بلکہ شعور ہے۔ عقل
شروع دن سے دماغ ِکے سپرد کر دی گئی ہے جبکہ شعور وہ چیز ہے جس کا حصول ایک
مخصوص منزل پرپہنچنے کے بعدہی ممکن ہوتا ہے۔دنیا میں بڑے بڑے عقلمندوں کو
جب شعور ملا تو اُن کی تقدیر بدل کر رہ گئی وہ کیا تھے اور کیا بن گئے۔آپ
عقل اورشعورکی اس حقیقی داستان میں جنابِ حُرؒکی مثال ہی لے لیں حر یزید کی
فوج کا ایک عقل مندسپہ سالار تھایہ وہ شخص تھا جس نے کربلا کے مقام پر امام
عالی مقام وعلیہ ا لسلام کے گھوڑے کی لگام میں ہاتھ ڈال کر لشکرِحسینیؑ کو
روکا مگر جب اُس کی عقل کو شعور کے سمندر میں غوطہ ملا تو اس نے اپنی جان
کا نذرانہ امام حسینؑ کے قدموں پر نچھاور کر دیا۔آپ اُشوکِ اعظم کی مثال
بھی سامنے رکھ لیں۔اُشوک اُن تین بادشاہوں میں سے ایک تھا جس نے پورے
برِصغیر پر حکومت کی وہ کابل سے لے کر کلکتہ تک کا تنہا وارث رہااور وہ
دنیا کا سب سے بڑافاتح بننے کی خواہش بھی دل میں سمووئے ہوئے تھا۔اُس نے
اپنے اس خواب کو تکمیل بخشنے کیلئے اپنے سب بھائیوں کو موت کی راہ دکھائی
اور خود بادشاہت کا قلمدان سنبھال لیا۔اُس نے اپنی اس حوس کو مٹانے کیلئے
سینکڑوں جنگیں لڑیں۔کلنگہ کے مقام پر اپنی آخری لڑائی میں اُشوک نے ایک
لاکھ بے گناہ لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔مگر اِن لاشوں پرکھڑے
اُشوک کی عقل پر جب شعور کی تجلی کی کرن پڑی تو اُشوک پھر اُشوک نہ رہا۔اُس
نے پوری کی پوری فوج کو گھر بھیج دیا۔بعد ازاں نا صرف برِصغیربلکہ دنیاکی
تاریخ میں وہ واحد بادشاہ تھا جس نے اتنے بڑے مُلک پربغیر فوج کے حکومت
کی۔اُ سی اُشوک نے انصاف اور خدمت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ دنیا آج بھی اُشوک
کو اُشوک اعظم کے نام سے جانتی ہے۔اِسی طرح نوشیرواں ایران کا وہ بادشاہ
گزرا ہے جو محض تفریح کی خاطر شہروں کے شہر نذرِآتش کر دیا کرتا تھا۔اس کے
ظلم و ستم کے باعث لاکھوں لوگ ایران سے نقل مکانی کرنے پر مجبور
ہوئے۔نوشیرواں کی سلطنت میں دور دور تک بشرنظر نہیں آتا تھامگر جب اسکی عقل
میں شعور نے کروٹ بدلی تونوشیرواں نے ایران میں ایسے عادل معاشرے کی بنیاد
رکھی جس کو تاریخ نے آج بھی زندہ رکھا ہواہے۔اس نے زندگی کے ایک واقعہ سے
ایسا سبق حاصل کیا کہ آج تک نوشیرواں عادل بادشاہ کے خطاب سے جاناجاتاہے۔وہ
شعور ہی تھا جس نے1979ءمیں امریکہ جیسے مضبوط ملک کی بھر پور حمایت ہونے کے
باوجود رضا شاہ پہلوی یعنی شاہ ایران کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر انقلاب کے
لفظ کو انسان کی حقیقت میں پوشیدہ کر کے اس کو ایسی تقویت بخشی کی
دنیاانقلاب کا لفظ سنتے ہی ایران کو یاد کرتی ہے۔
قارئین اکرام !آج ہم نے بھی اپنے اندر وہ ہی شعور تلاش کرنا ہے کسی حکومت
کاتختہ اُلٹنے کیلئے نہیں بلکہ سیاسی،سماجی،معاشرتی،اقتصادی،ثقافتی اور
مذہبی بحران و طوفان میں ڈالتے ہوئے پاکستان کو کل تک بچانے کیلئے۔آج
پاکستان کی آبادی کا50سے 60فیصد حصہ 30سال سے کم عمر کے نوجوانوں اور بچوں
پر مشتمل ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کے ہم سب عقلمند تو ہیں باشعور نہیں۔آج
پاکستان میں سب سے زیادہ مسائل کا شکار نوجوا ن نسل ہی ہے اور یہ بات بھی
حقیقت پر مبنی ہے کہ بہت سے مسائل کیوجہ بھی ہم نوجوان خود ہی ہیں کیونکہ
بد قسمتی سےہمارے ذہنوںپرن ابھی شعور کی دھوپ نہیں پڑی۔آج ہمیں اپنے گھروں
میں پہلے دن سے ہی یہ تو بتادیا جاتا ہے کہ ہم شیعہ ،سنی،اہلحدیث ،بریلوی
اور دیوبند ہیں مگر یہ نہیں کہاجاتا کہ تم سب ایک خداکو ماننے والے مسلمان
ہو۔آج ہم میں سے ہر ایک بالغ و نابالغ کو یہ تو پتا ہے کے شادی کے بعد دو
بچے ہی پیدا کرنے ہیں مگر یہ تک معلوم نہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کیلئے کونسا
شعبہ ہمارے لیئے بہتر ہے۔آج ہمہں ڈاکٹر ، انجینئر اور بزنس مین بنانے پر تو
خاص توجہ دی جاتی ہے مگر ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنے کی سعی
نہیں کی جاتی۔آج ہمیں درس دیا جاتا ہے کہ تم کو وکیل ، جج اور جسٹس بننا ہے
لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ خداکی زمین پر منصف بنناہے۔آج ہمیں
اُستاد،لیکچراراورپروفیسر بننے کا ذوق دیاجاتا ہے مگر قوم کا معمار بننے کو
نہیں کہا جاتا۔آج ہمیں یہ تو ضرور بتایا جاتا ہے کہ تم کو الیکٹریشن ،ویلڈر،پلمبر،مکینک،درزی
،مستری اور کارپینٹر بنناہے مگر یہ نہیں بتایاجاتا کہ "الکاسب حبیب
اللہ"یعنی ہاتھ سے کام کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔ہمیں پولیس،آرمی ،نیوی،فضائیہ
اور ریسکیوجوائن کرنے کی تلقین تو کی جاتی ہے مگر یہ نہیں کہا جاتا کہ تم
پاکستان اور اسلام کے حقیقی مجاہدہو۔آج سیاستدان ،وزیر اور حکمران بننانے
کیلئے تو نوجوانوں کو آگے لایا جاتا ہے مگر یہ نصیحت نہیں کی جاتی کہ تم
کروڑوں لوگوں کے ترجمان اور جواب دہ بھی ہو۔صد افسوس کہ ہمیںمولانا، علامہ
،اورمفتی بننے کیلئے مدرسوں میں داخل تو کرایا جاتا ہے مگر یہ نہیں سکھایا
جاتاکہ تمہیں شعبہ پیغمبری یعنی زمانے کا پیشوا بنناہے۔
میرے نوجوان دوستو!آج ہمیں ہمارے اس معاشرے میں عقل تو دی جاتی ہے مگر شعور
نہیںپر آج ہمیں عقل کے ساتھ شعور بانٹنا ہے،شعور پھیلانا ہے اور اس دھرتی
پر شعور اُگلنا ہے کیونکہ باشعور نسلیں سرمایہ او ربے شعور نسلیں سر درد
بنتی ہیں۔ہمیں آج سے خود ہی نہ صرف اپنے لیئے بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے
بھی سرمایہ بننا ہے سر درد نہیں ہمیں کسی کا انتظار نہیں کرنا خود ہی
اُٹھنا ہے کیونکہ۔۔۔۔
بنو تم خود ہی اقبالؒ اور خود ہی جناحؒ بھی
اقبالؒ نے جاتے ہوئے یہ مجھ سے کہا تھا |