مدرسہ بورڈوں کے لئے یہ خوش
قسمتی بات ہے یا بدقسمتی کہ تقریباً تمام تعلیمی بورڈ وں کے نتائج آجانے کے
بعد اس کے امتحانات شروع ہوتے ہیں ۔ فعالیت کی شہنائی بجوانے کے بعد بھی
امسال یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے امتحانات میں خوب تماشہ بلکہ دلچسپ ڈرامہ
ہوا، وہ بھی ایسا ڈرامہ کہ طلباءکے مستقبل سے خوب کھلواڑ ہوا،یہی وجہ ہے کہ
طلباءکے تعلیمی سال برباد ہونے کے آثار بہت نمایاں ہےں، مگر مدرسہ بورڈ کے
ذمہ داران ایسے بے حس اورمفاد پرست کہ انہیں طلبائے مدارس کی زندگی کی کوئی
پرواہ نہیں ، انہیں کام بس اپنے ہی کام سے ، یعنی حکومتوںکی منہ بھرائی ہی
مقصود ہے ۔
یوپی میں عربی وفارسی کی تعلیم کے فروغ کے لئے دراصل 1914میں عربی وفارسی
مدرسہ بورڈ کی داغ بیل ڈالی گئی ، جس کے تحت عربی میں مولوی، عالم اورفاضل
،اسی طرح فارسی میں منشی وکامل کے امتحانات منعقد کرائے گئے ۔ابتداً اس
بورڈ کا نام عربی فارسی بورڈ الہ آباد تھا ۔ اس کا دفتر الہ آباد میں تھا۔
14دسمبر 2007کو ریاستی حکومت نے ا س کا نام مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنو (مدرسہ
سکچھا پریشد )کردیا اور اس کا دفتر لکھنو منتقل ہوگیا۔ اس پریشد کو خاص طور
سے عربی وفارسی میں منشی ،مولوی ، عالم ، کامل وفاضل کے امتحانات منعقد
کرانے کی ذمہ داری دی گئی اورساتھ ہی ٹکنیکل تعلیم کی حصولیابی بلکہ
انتظامات پرانتہائی فکرمندی دکھائی گئی ۔ اتر پردیش مادھیمک سکچھا پریشد
اورمرکزی حکومت نے سی بی ایس ای کے مطابق یہاں کے منشی ومولو ی کو ہائی
اسکول اور عالم و کامل کوانٹر کے مساوی کے لئے منظوری دی ہے ۔ کامل کو بی
اے اورفاضل کو ایم کے برابر کا درجہ دینے کے لئے لکھنو میں مانیورکانشی رام
اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنو قائم کی جارہی ہے ، ہوسکتا مستقبل قریب
میں ہی باضابطہ تعلیمی سیشن کا آغاز بھی ہوجائے ، کیونکہ سب کو اچھی طرح
معلوم ہے کہ حکومت تبدیل ہونے سے کیاکچھ ہوتا ہے ۔اب تو اس یونیورسٹی کا
نام تبدیل کرانے کے لئے مسلمانوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے ، دیکھناہے اب
کہ کیا کیا ہوتا ہے ۔
فی الحال اتر پردیش میں تحتانیہ (پرائمری)کے 2704، فوقانیہ (جونیئر ہائی
اسکول) کے 978،عالیہ (ہائی اسکول)کے 2093مدارس منظور شدہ ہیں ۔ واضح ہوکہ
حالیہ دنوںیعنی 21.09.2011کو 133مدارس کو منظوری دی گئی ہے ، کل ملاکر
5908مدرسے منظور شدہ ہیں ۔
ایک محتاط اندازہ کے مطابق کل منظور شدہ مدارس کے تحتانیہ درجات میں 3لاکھ
، فوقانیہ میں 2لاکھ 70ہزار اورعالیہ میں تقریباً 2لاکھ بچے حصول تعلیم میں
سرگرم ہیں ، یعنی اس طرح 7لاکھ 70ہزار طلبا ان مدارس میں زیر تعلیم ہیں ۔
اس بات کی وضاحت سب سے زیادہ ضروری ہے کہ 5908منظورشدہ مدارس میں سے
459مدارس امداد یافتہ ہیں ، جن میں سے 100مدار س کوبی ایس پی حکومت نے چند
دنوں قبل ہی امدادی کے زمرے میں شامل کیا ہے ۔ ان 459مدارس میں تقریبا ً
6885اساتذہ و غیر تدریسی عملہ خدمات انجام دے رہیں،ان کی تنخواہ پرسالانہ
200کروڑ روپیہ کا صرفہ آتا ہے ۔ مدرسہ تعلیمی بورڈ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے
کہ بی ایس پی حکومت نے چھٹا پے کمیشن بھی لاگو کردیا ہے ۔ اسی طرح کمپیوٹر
لیب اور لائبریری کے لئے بھی حکومت سے امداد ملتی ہے ۔ غریب بچوں کے لئے
وظیفہ کا انتظام ہے ۔مدرسہ کے بچوں کو ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کے لئے منی آئی
ٹی آئی بھی چل رہے ہیں ، جس میں 700عارضی ملازمین کام کررہے ہیں ۔ ایک سالہ
اردو صحافتی مراسلاتی کورس بھی 2005سے شروع کیا گیا ہے ، مگر اب تک شاید
کاغذی حصار میں ہی مقید ہے ۔ بی ایس پی حکومت میںطالبات کے لئے بالخصوص
ساوتری بائی پھلے تعلیمی مدد اسکیم 2012-13سے نافذ کئے جانے کا اعلان کیا
گیا تھا ، جس کے تحت عالمیت سال اول کی غریب طالبہ کو 15ہزار روپیہ نقد
اورایک سائیکل دی جاتی اور عالم سال دوم کی طالبات کو 10ہزار روپیہ دئے
جاتے ، مگر حکومت تبدیل ہونے کے بعد دیکھناہے کہ اس کا نفاذہو تاکہ نہیں ۔
یہ بھی کہاجارہاہے کہ یکم جنوری 2007سے صوبہ کے ہر منظور شدہ مدرسہ کے
پرائمری درجات میں مڈ ڈے میل اسکیم بھی نافذ ہے ۔ مگر بہت سے منظور شدہ
مدارس کے ملی اطلاع کے مطابق کچھ بھی نہیں ملتا ہے ، یعنی مڈڈے میل بھی بس
کاغذ پر ہی ہے ۔
یوں تو ہر سال مدرسہ بورڈ کے امتحانا ت ہوتے ہیں ،مگر جو ننگا ناچ ہوتا ہے
وہ بھی بہت ہی عجیب ہوتا ہے ، بورڈ کے ارکان ڈھلمل یقینی کا ایسا ثبوت دیتے
ہیں ،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بورڈ وہ کوئی بھی فیصلہ طلباءکے مستقبل کو
سنوارنے کے تئیں نہیں کرتے ہیں ، بلکہ کسی کے ہاتھ کی کھٹ پتلی ہوتے ہیں کہ
جب وہ جیسے نچائے اسی طرح نچ کر دکھا دیتے ہیں ۔ یوپی مدرسہ بورڈ کی روایت
بھی کچھ ایسی ہی تھی کہ کسی متعینہ تاریخ پر امتحانات بہت ہی کم ہو پاتے
تھے ۔ متعینہ تاریخ کے بعد بھی دوتین مرتبہ تقدیم وتاخیر ضروری ہوگئی تھی ۔
جس کا لازمی نتیجہ یہ سامنے آتا تھا کہ نتائج کا اعلان بھی صحیح وقت پر
نہیں ہوپا تاتھا ، چنانچہ اعلی تعلیم کے لئے کالج و یونیورسٹی میں داخلہ کے
تعلق سے طلباءکو نت نئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ تا تھا ، بسا اوقات ان
کے سا ل بھی ضائع ہوجاتے تھے ۔ 2011-12کے سالانہ امتحان میں بھی بورڈ کی
تمام تر فعالیت اورانتظامات مغلوب ہوگئے اور30اپریل سے 4مئی تک جو امتحان
ہونا تھا ، نہیں ہوسکا ۔ اس متعینہ تاریخ کے کوئی ایک ماہ بعد کی تاریخ طے
ہوئی اورامتحان ماہ جون میں ہوسکا ۔ ان وجوہات کے مدنظر سال2012-13کے
سالانہ امتحان کے لئے ماہ اکتوبر 2011سے ہی اقدامات ہونے لگے تھے ، تاکہ
طلباءصحیح وقت پر امتحان دے سکیں اورنتائج کا اعلان بھی ایسے وقت ہوکہ
انہیں اعلی تعلیم کے لئے داخلہ میں پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ گزشتہ
12اکتوبر کو ہوئی مدرسہ تعلیمی بورڈ کی میٹنگ میں سالانہ امتحانات کے تئیں
انتہائی فکرمندی دکھائی گئی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ 15اکتوبر تک ریاست
کے تما م سرکاری مدارس میں امتحان فارم دستیاب ہو جائے گا ، اسے جمع کرنے
کی آخری تاریخ 31اکتوبر اورلیٹ فیس کے ساتھ 15نومبر تک رہے گی ، مگر تاریخ
کی تعین اوراعلان کے بعد بھی مدارس میں فارم متعینہ تاریخ تک دستیاب نہیں
ہوسکا اور نہ ہی مدرسہ بورڈ کی ویب سائٹ upmsp.org.inپر ۔ جس سے طلباءکو
کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 24اکتوبر کو فارم کی اشاعت کا عمل پایہ
تکمیل تک پہونچا ۔ اسی اثنا میں دیوالی اور عیدالاضحی کی تعطیلات ہوگئی ،
چنانچہ فارم جمع کرنے کی تاریخ 25نومبر طے پائی ، مگر اس مدت میں توسیع
کرنے بعد 30نومبر اور تاخیر فیس کے ساتھ 5دسمبر کردی گئی ۔ہاں ! صحیح وقت
پر امتحان نہ ہونا صرف یوپی مدرسہ بورڈ کی ہی روایت نہیں بلکہ تقریباً
ہرمدرسہ بورڈمیں یہی صورتحال ہے ، بہار بورڈ تواس سلسلہ میںدو قدم اوربھی
آگے ہے ۔
یہ تو رہی فارم بھرے جانے کی کہانی ، صحیح وقت پر امتحان نہ ہونے کی کہانی
بھی ڈارمہ سے کچھ کم نہیںکہ پہلے یہ عند یہ ظاہر کیا گیا کہ مئی کے پہلے
ہفتہ میں امتحانات ہوںگے ، مگر خداخدا کرکے 26مئی سے امتحانا ت کی تاریخ کا
اعلان کردیاگیا ، مگر اس پر بس نہیں ، 3جون کا اعلان ہوا ، ہائے کسی ڈھلمل
یقینی کہ اس کے بعد 9جون کا اعلان ہوا اور کسی نہ کسی طرح امتحانات ہوئے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یوپی مدرسہ بورڈ کے ذمہ داران کیوں کوئی حتمی
فیصلہ نہیں لے پاتے ہیں ؟ ان کے اوپر کس کا شکنجہ ہے کہ وہ طلباءکے اوقات
ضائع کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ؟وہ بورڈ کے ذریعہ تعلیم کو فروغ دینا
چاہتے ہیں یا نونہالوں کی زندگی سے کھلواڑ ؟ اس امتحان میں بھی جم لا
پرواہی کا مظاہرہ کیا گیا ، منشی کی جگہ مولوی کا پرچہ دیا گیا ، سلطانپور
کے امتحان مراکزپر فاضل طب کا ہی پرچہ نہیں آیا ، اس کے علاوہ سینٹر بھی رد
کردئے گئے ، سینٹرردہونے کے باوجود رجسٹرار بھی لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہیں،
ظاہر ہے ایسے میںکیا امتحانات ہوتے ہیں اور طلباءکو دوران امتحان کیا سہولت
پہونچائی جاتی ہے ۔
چونکہ 2004 میں نصاب میں بھی تبدیلی ہوئی تھی ،مگر اس کا نفاذ اب تک بھی
مدارس میں نہیںہوسکا ، اس سے ہی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کیسی لا پروائی
کا مظاہرہ کیا جاتاہے ، ، لہذا اس سال بھی ہر مدرسہ میں شورو غوغا تھا کہ
امتحان جدید نصاب کے مطابق ہوگا یا قدیم کے ؟ سچ پوچھئے تو ارباب ِ مدارس
بھی اس سے غیر آشنا تھے تو طلباءوا ساتذہ بھی۔ مگر 14 اکتوبر کے رجسٹرار
آرڈر کے دفعہ 10 میں کہا گیا تھا کہ ریگولر طلباءجدید نصاب اور پرائیویٹ
قدیم نصاب کے مطابق امتحان دیں گے ۔ لیکن 27نومبر کو خبر آئی کہ حکومت کے
ایما پر بورڈ کا فیصلہ ہے کہ نئے نصاب کا ہی امتحان ہو گا ،اس کے لئے
دوبارہ فام پر کئے جائیں گے ، ریگولر اورپرائیویٹ کی کوئی تفریق نہیں ہوگی
، سب نئے نصاب کی تیاری کریں ۔مگر اس امتحان میں ہوا کچھ یوں کہ خوب تفریق
ہوئی ، قدیم و جدید میں طلباءکو قید کردیاگیا ، جدید نصاب والوں کا امتحان
ہوا اورقدیم والوں کا نہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بورڈ والوں نے جب یہ
اعلان کردیاتھاکہ کوئی تفریق نہیں ہوگی تو پھر ایسا کیوں ہوا ؟ آخر ان کے
طلباءکے سال کیوں ضائع کئے گئے ؟ آنا ً فاناً میں فیصلہ کیوں تبدیل کردیا
جاتا ہے ؟اخباری بیان کے مطابق پرانے نصاب والوں کا امتحان جولائی میں ہوگا
، مگر جب بورڈ کے اگزمیشن رجسٹرار سے رابطہ کیا تو ان کا کہناتھا کہ اب تک
ہماری طرف سے کوئی فیصلہ نہیں لے لیا گیاکہ کب امتحان ہوگا ۔ 7جولائی کے
بعد کوئی اعلان کیا جاسکتا ہے ، کیوں کہ اسی دن بورڈ کے چیئر مین کا انتخاب
ہوگا ۔
جو ہوا سو خوب ہوا ، اب بس طلباءکو نتیجے کا شدت سے انتظار ہے، دیکھنا ہے
کہ کب نتائج کا اعلان ہوتاہے اوریہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا طلباءکا یہ سال
برباد بھی ہوتا۔ اگربورڈ کے ذمہ داران کم از کم 10جولائی تک نتائج کا اعلان
کردیں تو امید ہے کہ ان کا سال برباد نہیں ہوگا ، اگر اس کے بعد ہوتا ہے تو
لازمی طور پر اعلٰی تعلیم کے خواہشمند طلباءاس سال تعلیم سے محروم رہیں گے
۔
بورڈوں کی ان تمام تربدعنوانی اورتساہلی کے مدنظر بیشترتعلیم دوست افراد
بورڈ کی مخالفت کرتے ہیں ، جو کہ بجابھی ہے ، مگر لوگ بورڈ کی حمایت میں
ہمہ دم سرگرم رہتے ہیں ، انہیں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے ؟ سب سے
پہلے یہ سوال ہوتا ہے کہ آخر بڑے بڑے علامہ کی مخالفت کے باوجود بھی اہل
علم اور وضع قطع کے اعتبار سے مکمل علماءبورڈ کی حمایت کیوں کرنے لگ جاتے
ہیں ؟کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہوسکتی ہے کہ بالعموم مدارس میں بورڈ سے نسبتاً
کم تنخواہ ملتی ہے ، جس سے گزربسر مشکل ہوتی ہے ، اگریہ بھی حمایت ایک بڑی
وجہ ہے تو ارباب مدارس اور چمچماتی کار پر گل چھرے اڑانے والے علماءکو
سوچنا ہوگا ، انہیں بھی اپنے سے چھوٹو ں پر نظر کرنا ہوگی ، ورنہ تو آپ
لاکھ چلائیں ، آپ کی آواز بھی سدا بہ صحرا ہی ثابت ہوگی ۔ ایک یہ بات بھی
سمجھ سے بالاتر ہے مسلمانوںکے کئی ایک کلیدی قائی بھی مدرسہ بورڈ کی مخالفت
کرتے ہیں ، مگر بورڈ سے منسلک ہونے کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے اپنے اہل
وعیال اور قریبی رشتہ داروں کو ہی آگے کرتے ہیں ۔ مسلم پرسنل لاءمسلمانوں
کامتحدہ پلیٹ فارم ہے ، اس بورڈ کے سیاہ و سفیدکے مالک کے بھتیجے اور داماد
بھی بوڑ د کے مدرسہ میں خوب مزے سے پڑھاتے ہیں اور ہزاروں کماتے ہیں، مگر
وہ ان کے چچا مت پوچھئے کس اندازمیں بورڈ سے دوری کااظہار کرتے ہیں ، ملت
کا یہی سب سے بڑا سانحہ ہے کہ ہمارے قائد ڈھلمل یقین ہوگئے ہیں ، گفتار کے
غازی تو ضرور ہے مگر عمل کے نہیں ، ذرا سوچنے کی بات ہے کہ بورڈ کے تعلق سے
اپنے قائد کے عمل کو صحیح جانیں یاقول کو ، خدا خیر ہمارے اوپر !!! |