صحافت یا میڈ یا خبروں کو اکٹھا
کرنے، لکھنے اور انکی نشرواشاعت کے نظام یا شعبے کا نام ہے۔دوسرے لفظوں
میںسمعی وبصری ذرائع سے حاصل کردہ حادثات ،واقعات ، مسائل اوررحجان و میلان
کے بارے میں جو معلومات جمع کی جاتی ہیں ، انکی تحقیق کے بعد رسائل
واخبارت،انٹرنیٹ ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر کرنامیڈیا کی تعریف کے زمرے
میں آتاہے۔لفظ میڈیا تو آج کل زبان زد عام ہے مگر اس سے قبل Journalism,
Journalاور صحافت کی اصطلاح بھی اسی شعبہ سے منسوب تھی جوآج میڈیا کہلاتا
ہے۔
وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا
ہے اور مستقبل میں بھی یہی صورتحال برقرار رہنے کی توقع ہے ۔ مگر افسو س کی
بات یہ ہے کہ میڈیا میں اب ایسے عناصر بھی شامل ہو گئے ہیں جو حالات کی
درست عکاسی کرنے کی بجائے اپنے جیب کو بھرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں
مصروف عمل ہیں۔ حالانکہ یہ شعبہ تو پوری دیانتداری اور خلوص کے ساتھ عوام
کو سچ دکھانے اورظالم و ذیادتی کے خلاف جنگ لڑنے کا علمبردارہے۔مگر مفاد
پرست افراد کے ٹولے نے اس کو بھی کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ جس کا اندازہ
پاکستان میں نت نئے ٹی وی چینل ، اخبارات، ریڈیو وغیر ہ کولائسنس جاری کرنے
کے اقدامات سے لگا یا جاسکتا ہے۔ایک حد تک تو یہ بات آزادی اظہار رائے کے
لئے بہترہے مگر اس آزاد ی کو کچھ زیادہ ہی غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کےلئے
استعمال کیا جارہاہے۔ اسطرح کے بے سروپا پروگرامز یا مواد پیش کئے جاتے ہیں
جو اگر نہ بھی پیش کئے جائیں تو بہتر ہوگا۔ جس کا اندازہ آپ بخوبی پاکستان
بھرمیں شائع ہونے والے رسائل وجرائد کے مواد ٹاک شوز سے لگا سکتے ہیں۔دوسری
طرف الیکٹرونک میڈیا کو دیکھئے کتنی آزادی ملی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک
ٹیلی چینل کی کمپیئر مایا خان کے صبح کے پروگرام میں Datesپر جانے والے
نوجوان کو پیچھا کرنے اور انٹرویو کرنے کی کوشش کرکے انکو سمجھانے کی کوشش
کرنا اوراپنے نظریہ کو دوسروں تک پہنچانے کو اخلاقیات کی زبان میں کیا کہا
جائے؟ محترمہ کو کس نے اس قدر اجازت دی تھی کہ وہ لایﺅ پروگرام میں اس طرح
سے لوگوں کی عزت کی دھجیاں اُڑئیں؟کیا وہ اس طرح کی باتیں محض سیٹ پر بیٹھ
کر کیمرے کی جانب دیکھ کر لوگوں کو برائی سے اچھائی کی جانب راغب نہیں کر
سکتی تھیں؟ دوسری طرف ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے بھی اخلاقی گرواٹ کا شکار
ہو چکے ہیں ،پتا نہیں کون سی تہذیب ہمیں سیکھ رہے ہیں،دیکھ کر لگتا ہی نہیں
ہے کہ ہم ایک اسلامی جمہوری ملک میں بیٹھ کر یہ سب دیکھ رہے ہیں؟ کیا ہماری
معاشرے کی اقدار اور طور طریقے یہی ہیں جو ہم ان ڈراموں میں دیکھ رہے
ہیں؟دوسری جناب ریڈیو پر بھی بعض اوقات لائیو پروگرام میں ایسی باتیں کر دی
جاتی ہیں جو کہ نہیں کہنی چاہیے، اگرچہ اب ریڈیو سننے کو رواج کم ہے مگر
جہاں گھر میں سب سن رہے ہوں تو پھر یہ سب سننا معیوب سا لگتا ہے۔ مگر جناب
یہ تو پاکستان ہے یہاں سب چلتاہے، جس کا جو بس چلتا ہے وہ کر رہا ہے اور
ملک آج ان گنت مسائل کاشکار ہو چکا ہے ، مگر مسائل کے حل کی جانب ملک کے
کرتادھرتاسمیت کوئی بھی توجہ نہیں کر رہا ہے کہ سب کو بس اپنے ہی مفاد کی
فکر لگی ہوئی ہے؟
دوسری طرف ابھی حال ہی میں ملک ریاض صاحب کے انٹرویو نے جلتی پر تیل کا کام
کر دیا ہے؟کیا ہو ا تھا اور کیسے ہوا تھا یہ تو آپ سب جان ہی چکے ہیں
؟دوسری طرف انہی موصوف کی جانب سے جاری کردہ فہرست نے میڈیا کے لوگوں کے
اوپر انگلیاں اٹھانے کو موقع فراہم کر دیاہے کہ میڈیا میں بھی ایسے ناسور
ہیں جو پیسے کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں ، اگرچہ اس فہرست میں شامل بہت سے
صحافیوں کے نام ایسے ہیں جن کے کردار پر شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے مگر
صاحب ،گھن کے گہنوں تو پستا ہی ہے۔ اور یہ سب اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ
تاکہ عوام کو میڈیا کے سچے لوگ سے متنفر کیا جاسکے اور وہ حقائق بیان کرنے
والے سے محروم ہو جائیں ۔ مگر سچ کو جتنا بھی جھوٹ کے پردوں میں چھپایا
جائے وہ ایک دن ضرور سامنے آ جاتا ہے۔مگر اب ذرائع ابلاغ کو اپنی حدود
وقیود واضح کرنا ہونگی اور اپنی صف سے کالی بھیڑوں کوباہر نہ سہی لیکن لگا
م دینی ہوگی ،کیونکہ یہاں پر سب حق بات کرنے والے کو بھی غدار کہا جاتا ہے
، جب کہ ایسی باتوں کوکرنے والوں کے اپنے دامن پر ہی کئی داغ ہو تے ہیں۔
میڈیا کو ایک استاد کی مانند اپنا کر دار سرانجام دینا چاہیے جیسے ایک
استاد سے توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے شاگروں کو غلط راہ پر لگائے گا
یا پھر حق کی تلقین نہیں کرے گا۔ اسی طرح سے میڈیا کو بھی حق و صداقت کو
اپنا مشن بنا کر اپنے فرائض منصبی کو پورا کرنا چاہیے کہ کہے اور پڑھے جانے
والے الفاظ بہت قدرومنزلت کے حامل ہوتے ہیں،ذرائع ابلاغ کو وقت کے ساتھ
ساتھ اصول وضوابط مرتب کرنے چاہیں تاکہ کوئی اس پیشے کے ساتھ بددیانتی کا
مرتکب نہ ہوسکے اورالفاط کی حرمت بھی باقی رہ سکے۔ |