کچھ دن پہلے میں بہت خوش تھا
کیوں کہ مجھے انٹر ویو کیلئے بلایا گیا تھا اور میں خوش تھا چلو آٹھ نو
ہزار کی نوکری تو مل جائے گی صبح صبح اٹھ کر تیار ہوا ،ایک کپ چائے پی اور
اپنی فائل لئے گھر سے نکل پڑا میں سوچ رہا تھا کہ اگر بس پر گیا تو لیٹ
ہوجاﺅں گا آج تھوڑی سی عیاشی کیوں نہ کر لیں میں نے ایک رکشہ روکا اور رکشے
والے کو جہاں جانا تھا کرایہ طے رکشے والے نے چار سو مانگے میں نے تین سو
بتایا اور ساڑھے تین سو میں بات طے ہوگئی رکشے والا کہنے لگا صاحب جی سی
این جی بہت مہنگی ہوگئی ہے اوپر سے تین دن کی لوڈشیڈنگ ہم کہاں جائیں اس کے
بعد مجھے کہا کہ صاحب جی آپ رکشے میں بیٹھو مجھے ایسے لگا جیسے میں کوئی
بہت بڑا افسر ہوں یا امیر آدمی ہوں اب رکشے والے کو کون بتاتا کہ میں خود
نوکری کی تلاش میں ہوں اور بھٹک رہا ہوں آج مجھے جلدی جانا تھا تو میں رکشے
میں سوار ہوگیا رکشے والے نے جب اپنے رکشے کے ٹیپ کا بٹن دبایا تو اس میں
ایک بہت ہی پیارا سا گانا لگا ہو تھا جس کے بول تھے ”بیوفاﺅں سے وفا نہ
مانگئے ان سے درد کی دوا نہ مانگئے “اب رکشہ انار کلی سے ہوتا ہوامال روڈ
کی طرف تیزی سے جارہا تھا رکشہ پینو راماں سے جب تھوڑا سے آگے گیا تو ایک
دم بریک لگی اس وقت ہم چیئرنگ کراس پر آگئے تھے وہاں پر پولیس کا ایک بہت
بڑا ہجوم موجود تھا کچھ لوگوں کا بھی رش نظر آرہا تھا میں نے دیکھا کچھ
ریڑھی والے اپنی ریڑھیوں پر بہت ساری جوتیاں لے کر کھڑے ہوئے تھے جب میں نے
رکشے والے سے پوچھا بھائی یہ کیا ہے رکشے والے نے بتایا کہ آج کل پنجاب
اسمبلی میں جوتیاں بہت چل رہی ہیں اس لئے یہ لوگ یہاں جوتیاں لے کر آئے
ہوئے ہیں کب کس کو جوتی کی ضرورت پڑ جائے اب پولیس والے ان کو کھڑا ہونے
نہیں دے رہے میری نظر جب گھڑی پر پڑی انٹرویو کے ٹائم میں تھوری سی دیر رہ
گئی تھی ایک مرتبہ پھر میں نے رکشے والے بھائی کو کہا کہ بھائی جلدی چلو
مجھے دیر ہورہی ہے رکشے والے بھائی نے کہا آپ دیکھو میںکیا کرسکتا ہوں یہ
لوگ پڑھے لکھے ہیں ہم لوگ ان کو ووٹ دیتے ہیں یہ یہاں آکر یہ بھول جاتے ہیں
ہمیں عوام نے کس کام کیلئے بھیجا ہے اور ہم یہاں ایک دوسرے کیساتھ لڑائی
کرنے میں مصروف ہیں تھوڑی دیر بعد راستہ کھل گیا میں پریشان تھا کہ کہیں
انٹرویو میں میں لیٹ نہ ہوجاﺅں جب میں دفتر پہنچا انٹر ویو ابھی شروع نہیں
ہوا تھا جس افسر نے انٹر ویو لینا تھا وہ میٹنگ میں مصروف تھے انٹر ویو کا
ٹائم تین بجے کے بعد رکھ دیا گیا اب میں ٹائم پاس کرنے کیلئے کبھی اُدھر
جاتا اور کبھی ادھر جاتا میرے ذہن میں آیا پا س ہی جناح پارک ہے کیوں نہ
اُدھرچلا جاﺅں میں پید ل چلتا ہوا جب جناح پارک پہنچا جناح پارک واقع ہی
ایک بڑا پارک تھا مگر صفائی بہت کم تھی مجھے پیاس بھی لگ رہی تھی میں
کینٹین والے کے پاس گیا ایک عدد بوتل مانگی تو کنٹین والے نے کہا کہ بوتل
25روپے کی ہے میں نے کہا کہ بھائی بوتل تو 20روپے کی دیتے ہیں مگر اس نے
میری ایک نہ سنی اور بوتل واپس رکھ دی میں نے جلدی سے 25روپے نکالے اور
بوتل لیکر آگے چلا گیا پارک میں موجو د ایک نوجوان لڑکے لڑکیاں گلے میں
بستے ڈالے پھر رہی تھیں میں نے ایک نوجوان لڑکے سے پوچھا بھائی یہاں کوئی
اکیڈمی ہے وہ کہنے لگا نہیں ہم ویسے سیر کرنے کیلئے آئے ہوئے ہیں ایک لڑکی
نے اپنے گلے سے بستہ نکالااور اسے کھولا جس میں مجھے بیوٹی بکس نظر آیا مگر
وہ بیوٹی بکس نہیں تھا میر ی سوچ غلط تھی وہ لیپ ٹاپ تھا جس کو میں بیوٹی
باکس سمجھ رہا تھا پاس ہی ایک لڑکا اکیلا بیٹھا ہوا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے
اس کا نام پوچھا لڑکے نے جواب میں کہا میں کیوں اپنا نام بتاﺅں میں نے کہا
بھائی ناراض نہ ہوں میں تو ویسے آپ کا نام پوچھ رہا تھا میں نے کہاآپ کا
لیپ ٹاپ تو بہت اچھا ہے خادم اعلیٰ نے یہ کام تو بہت اچھا کیا ہے مگر ا س
لڑکے نے جواب دیا کہ پہلے جو کام ہم موبائل پے کرتے تھے اب یہ لیپ ٹاپ نے
ہمارے لئے اوربھی آسان کردیا ہے اب تو ہم اپنی کلاس میں بیٹھ کربھی سب کچھ
کر لیتے ہیں میرے انٹر ویو کا وقت ہوگیا تھا جب میں دفتر پہنچا تو کلر ک سے
معلوم ہوا انٹرویو کینسل ہو گئے ہیں پتہ نہیں اب کب انٹر ویو ہونگے میرے سب
خواب چکنا چور ہوگئے اور میں دفتر سے باہر نکل آیا مجھے بھوک بھی بہت لگ
رہی تھی پاس کوئی ہوٹل بھی نہیں تھا اب میں پید ل چلتے چلتے کافی آگے نکل
گیا میری نظر سڑک کنارے ایک ہوٹل پر پڑی جس کا نام تھا خادم کاسستا ہوٹل
میں جلدی سے ہوٹل میں گیا اور چارپائی پر بیٹھ گیا جب میں نے ٹھنڈا پانی
مانگا ہوٹل والا کہنے لگا یہ سستا ہوٹل ہے یہاں برف نہیں ہے آپ بتاﺅ کیا
کھاﺅ گے میں ایک سبزی اور دو روٹیوں کا آرڈر دیا جب کھانا میرے سامنے آگیا
میں غور سے دیکھا تو سرخ رنگ کی روٹیاں میرے سامنے پڑی ہوئی تھیں جب میں نے
روٹی توڑی مجھ سے روٹی توڑی نہ گئی میں نے دوبارہ زور لگا کر روٹی توڑی اور
کھانا شروع کردیا ابھی آدھا ہی کھانا میں نے کھایا ہوگا ایک دم میرے منہ سے
کڑک کی آواز آئی اور میرے منہ سے خون جاری ہوگیا میں کھانا چھوڑ دیا ہوٹل
سے باہر نکل آیا خون میرے منہ سے بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا میں
نے جیب سے پیسے نکالے اور ہوٹل مالک کو پیسے دیئے اور چلتا بنا تھوڑی دور
جا کر میری نظر ایک ہسپتال پر پڑی میں اند ر گیا پرچی لی ڈاکٹر صاحب کے پاس
گیا ان کو اپنی بیماری کے بارے میں بتایا انہو ں نے مجھے غور سے دیکھا اور
کہا کہ بھائی آپ کی آدھی داڑ ٹوٹ گئی ہے او ر آدھی باقی ہے یہ کیسے ممکن
ہوا میں نے انکو سب بتایا ڈاکٹر صاحب نے باقی آدھی داڑ میرے ہاتھ میں رکھی
اوردوائیوں کی پرچی لکھ کر میرے ہاتھ پر رکھ دی جب میں ہسپتال کے سٹور پر
گیا تو انہو ں نے مجھے کہا کہ یہ دوائیاں آپ میڈیکل سٹور سے لے لیں ہمارے
سٹور میں دوائیاںنہیں ہیں اس طرح میں شام کو گھر واپس آگیا نہ نوکری ملی نہ
دوائی ملی اوپر سے اتنا خرچہ بھی ہوگیا اور داڑ بھی ٹوٹ گئی واہ رے قسمت !
خادم کے سستے ہوٹل کی کیا ہی بات ہے ۔ |