”را“ کی اپنے جاسوسوں سے بے وفائی

پاکستانی جیلوں میں 30 سال سے زائد عرصہ قید رہنے والے سرجیت سنگھ کو 28 جون کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا کرکے واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا تو رہائی کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں نہ صرف سرجیت سنگھ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ بھارتی فوج اور انڈین انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ کے لئے پاکستان میں جاسوسی کرتا تھا اور اسی مقصد کے لئے پاکستان بھیجا گیا تھا۔ اس کو یہ شکوہ بھی تھا کہ بھارتی حکومت میں سے بھی کسی نے اس کی گرفتاری کے بعد اسے پوچھا تک نہیں۔واہگہ بارڈر کے دوسری طرف پہنچتے ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سرجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ میں ”را“ کا ایجنٹ ہوں اور بھارتی فوج کی جانب سے جاسوسی کے لئے پاکستان گیا تھا۔ سرجیت سنگھ کے اعتراف جاسوسی کے فوراً بعد بھارتی فوج کے اہلکار حرکت میں آ گئے اور اسے پریس کانفرنس سے اٹھا کر لے گئے اور کسی سرحدی چوکی پر بند کردیا۔ سرجیت سنگھ کی طرف سے اعتراف جاسوسی کے بعد یہ مسلمہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ”را“ کی طرف سے پاکستان میں بڑی تعداد میں جاسوس بھیجنے کا سلسلہ ایک طے شدہ پریکٹس ہے۔ یہ بھارتی جاسوس پاکستان میں دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارتی فوج اور ”را“ کی طرف سے سرحدی علاقوں کے غریب دیہاتیوں کی خدمات حاصل کرنے اور انہیں جاسوسی کے لئے پاکستان بھیجنا ایک معمول کی پالیسی ہے مگر یہ بھارتی جاسوس پکڑے جاتے ہیں تو بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان جاسوسوں اور ان کے خاندانوں کو غیر معینہ مدت تک بغیر کسی مدد کے حالات کے جبر اور رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں۔ آزادانہ اور منصفانہ ٹرائل کے بعد پاکستانی عدالتوں کا فیصلہ حقیقی اور درست ثابت ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف کبھی بھی بھارت نے نہیں کیا۔

سرجیت سنگھ کو 1985ءمیں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور عدالت نے اس کو سزائے موت سنائی تھی۔ صدر مملکت غلام اسحاق خان نے اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی جانب سے بھیجی گئی سمری پر سرجیت سنگھ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔ سرجیت کی سزا دو ہزار چار میں ختم ہوئی لیکن رہائی نہ مل سکی۔ لاہور ہائیکورٹ نے سرجیت سنگھ کی قید کو خلاف قانون قرار دیدیا اور بالآخر سرجیت کو رہائی نصیب ہوگئی۔

جہاں تک بھارتی جاسوس سربحیت سنگھ کے کیس کا تعلق ہے تو وہ اعتراف کرچکا ہے کہ اس نے پاکستان کے مختلف شہروں میں بم دھماکے کیے جس کے نتیجے میں بیس سے زائد معصوم پاکستانی جاں بحق ہوگئے۔ قصاص کے اسلامی قانون کی رو سے علماءکے مطابق صدر پاکستان کو پاکستانیوں کے قاتل کی رہائی کا اس وقت تک کوئی اختیار نہیں جب تک مقتولین کے ورثاءقصاص یا معافی نہ دیدیں۔

جہاں تک ”را“ کے افسروں کی اپنے جاسوسوں کو استعمال کرو اور بھول جاﺅ کی پالیسی کا تعلق ہے یہ معاملہ صرف پاکستان بھیجے جانے والے جاسوسو ں تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کی ذہنیت بے نقاب کرنے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ ”را“ کے افسران کی وہ گندی ذہنیت جو ان کی نفسیاتی تربیت کی عکاس ہے جس میں وہ کام کرتے ہیں۔ بدمعاش ”را“ پاکستان سمیت پڑوسی ممالک میں دہشت گردی میں ہی ملوث نہیں بلکہ ”را“ کے افسران اپنی ہی ساتھی خواتین کی عصمت دری اور عزت تار تار کرنے کے بے شمار واقعات میں ملوث ہیں۔ ”را“ کی ڈائریکٹر ٹریننگ مِس نیشا بھاٹیا کو ”را“ کے سیکرٹری اشوک چترویدی نے جنسی استحصال کا شکار بنانے کےلئے گندی زبان استعمال کی۔ مِس نیشا بھاٹیا کی طرف سے اس شرمناک رویہ اور واقعے کی ”را“ سے باہر کسی دوسری ایجنسی سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کے مطالبے کو مسترد کردیا گیا اور نیشا بھاٹیا کی شکایت کا ازالہ کرنے کی بجائے ”را“ کے اعلیٰ افسروں نے اپنے آپ کو بچانے کےلئے اس خاتون کو ذہنی مریض بنا کر پیش کیا۔ حتیٰ کہ نیشا بھاٹیا کے خلاف تحریری شکایت کرنے کے ساتھ ساتھ اشوک چترویدی کے ایک اور قریبی ساتھی اور جوائنٹ سیکرٹری ایم کے پیاسی نے بھی اس خاتون افسر سے جنسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ مایوس ہوکر نیشا بھاٹیا نے بھارتی وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے ساﺅتھ بلاک کے دفتر کے سامنے زہر کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔

”را“ میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے بہت سے واقعات سامنے آ چکے ہیں لیکن راز افشا کرنے کے الزام میں ملازمت سے نکالے جانے کے ڈر سے خواتین ان واقعات کو ریکارڈ پر نہیں لاتیں۔ اسی کی دہائی کے اواخر میں مجھے ”را“ کی ایک سینئر خاتون افسر نے بتایا تھا کہ ”را“ کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوتے ہی انہیں ہزاروں میلی آنکھوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً اس خاتون افسر کو اشوک چترویدی کے دو قریبی ساتھیوں ایس کے ترپٹھی اور گورندر سنگھ تک محدود کردیا گیا جو آج بھی ”را“ کے اسپیشل سیکرٹریٹ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایجنٹوں کی اکثریت کو تربیت کے دوران ہر طرح کی سہولیات حتیٰ کہ ان کی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے جسم فروش خواتین بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ کام کرنے کے اس انداز نے ان مرد افسران کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بھی زیادتی کے مرتکب ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ایجنٹ خواتین بھی ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھائیں۔ ”را“ میں ایسے بے شمار واقعات پیش آچکے ہیں
مئی 2008ءمیں نیشا بھاٹیا نے ذاتی طور پر بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ایم کے نارائنن اور کابینہ کے سیکرٹری کے ایم چندر شیکھر سے بھی ملاقات کی تھی اور ان سے اپنی شکایت بیان کی تھی لیکن اس مجرم افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ خاتون افسر ”را“ کے عہدیداران کے افسوسناک رویہ سے اس قدر مایوس تھی کہ وہ انتہائی ذہنی دباﺅ کی مریضہ بن گئی اور ”را“ کے افسران کے ہاتھوں ذہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کئے جانے کے اس گھناﺅنے جرم کو منظر عام پر لانے کے لئے خودکشی کا انتہائی قدم اٹھایا۔ یہ واقعہ جون 2008ءکے انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا لیکن اس طرح کے سانحوں سے بچنے کے لئے ابھی تک کسی بھی سطح پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

یہ جرم تو ان جرائم کی فہرست میں شامل ہے جس کے متعلق سپریم کورٹ آف انڈیا نے بہت سادہ گائیڈ لائن دے رکھی ہے یعنی ایسے افراد کےخلاف چارہ جوئی کا آسان طریقہ جو دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کریں تاہم ”را“ چونکہ ریاست کے اندر ریاست ہے اس لئے وہاں اس طرح کی کسی گائیڈ لائن پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اگر بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر یا کابینہ کے سیکرٹری اس معاملہ کی تحقیقات کو ”را“ کے باہر کسی دوسری ایجنسی سے کرواتے تو یہ نوبت نہ آتی اور اس خاتون نے خودکشی کرنے کا یہ انتہائی قدم نہ اٹھایا ہوتا۔

”را“ کے روزانہ کے معمولات میں تمام ملازمین کو عموماً اور خواتین کو خصوصاً جنسی طور پر ہراساں کرنے، ان کا استحصال کرنے اور اقرباءپروری کے واقعات عام ہیں۔ حساس اور دشوار مقامات پر جن میں نارتھ ایسٹ اور جموں و کشمیر شامل ہیں میں تبادلے اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کئے جاتے بلکہ ان لوگوں کو جنہیں ہراساں کرنا مقصود ہو یا جن سے سینئر افسران ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہیں انہیں وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً بے اطمینانی کا شکار لوگوں کی ان بدامنی اور عسکریت کے شکار علاقوں میں تعیناتی سے کام کرنے کی صلاحیت بہت متاثر ہوتی ہے۔
Raja Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Javed Ali Bhatti: 10 Articles with 6404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.