علمائے اسلام ان کی ذمہ داریا ں اور ان کے خیالات

ا ٓج کی اس مادی پسند دنیا کے عالم اسلامی میں ما دیت،دہریت،الحادیت اورلا مذہبیت پسندانہ جو تیزوتند ہوائیں چل رہی ہیں ،اس میں حق پسندی ،صداقت طلبی ،نیکی و پرہیز گا ری ،خدا ترسی ،راست بازی ،امانت و دیا نت اور علم دوستی کے ٹمٹما تے چراغ کو روشن اور سدا مشتعل رکھنا اسلا م کے علمبردار علما ءدین شرع ِمتین کے سر ہی ہے ۔ یہی وہ زمرہ اور مقدس جماعت ہے جس کی علمی وعملی کڑی فاقہ کش معلم ،امت کے برہان عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور احوال وتقاریر سے، جا نثا ر وجانباز چاند کے مانند چمکتے دمکتے صحابہ کی نشست و برخاست سے اور بعد اس عہد کے خوش بختوںسے جڑی ہوئی ہے ۔ یہی وہ جماعت ہے جو وارث ِعلم ہے۔”العلماءورثةالانبیاء،انما لم یورثر ا دینارا و لا درھما ً “جنہیں نبیوں سے سوائے علم کے اور کوئی شئے ورثہ میں نہیں ملی ہے ۔قرآن کے بیا ن کردہ اسلوب میںانہیں ” اولی الا مر “کے ممتاز و نما یاں تمغہ سے نوازہ گیا ہے ۔

اولی الامرکے متعلق مایہ ناز مفسرین کا خاصا اختلاف اور مختلف النوع اقوال ہیں کہ اس سے کون سی خوش قسمت جماعت و گروہ مرادہے ؟باعتبار لغت ” اولی الامر “وہ ہیں جن کے زیر مملکت کو ئی انتظا می و انصرامی امور ہوں ۔انہیں باتوںکے پیش نظر فقہا مفسرین نے فرمایا کہ اولی الامر کے مصداق علماءکرام ہیں ۔ در حقیقت علما ءدین امت کی اجتماعی و معاشرتی مصا لح کی بندو بست ،اس کی آراستگی اور نگہداشت کر تے ہیں ۔ یہی قول تاج المفسرین امام التفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن بصری ؒ کا بھی ہے۔

یہی وجہ تو ہے کہ بعد اطاعت خدا اور اس کے رسولﷺ،جن کی اطاعت اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ ان ”اولی الامر “کی اطاعت مطلوب و مقصود ہے ،جو خود مسلمانوں میں سے ہوں۔

او لی الامر کی ایک دوسری تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیں :

اولی الامر کا مفہوم ان تمام حضرات کو شامل ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سر براہِ کا ر ہوں۔خواہ وہ مذہبی و فکری رہنمائی کرنے والے علما ءہوں ،یا سیا سی رہنمائی کرنے والے لیڈران ۔ ملکی انتظام و اہتمام کرنے والے حکام ہوںیا عدالتی فیصلہ کر نے والے جج ۔تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں، بستیوں اور محلوںکی سر براہی کرنے والے شیوخ ہوں یا اور دیگر سردارانِ قوم۔جب کہ ان تمام کے اقوال و افعال کا ملا پ خدا کے احکامات اور نبی صلی اللہ والتسلیم کے ارشادات و فرمودات سے ہو ۔اگر صورتحال اس کے بر عکس و مختلف ہو تو ان کی پیر وی قطعاًنہیں کی جا ئے گی ۔( تلخیص تفہیم القرآن )

ان ہی باتوں کے پیشِ نظر اور بر بنائے متعدد وجوہات علماءپر بڑی بڑی ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں ۔ آج جب کہ مغربی اثر و رسوخ اور غیر اسلامی اثرات کی ایک چھاپ ہے تو ایسے پر فتن و پر سوز حالات میں اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انہیں چا ہئے کہ قر آن و حا دیث پر محقیقانہ نظر رکھیں ۔ بے کم وکا ست اور زیبِ دا ستان کے لئے کچھ ملائے بغیر اس کے احکا مات و پیغامات کو ہر اس شخص کو بہم پہو نچائےں جو بے راہ روی کے شکار ہیں،اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں اورانہیں جن کے دلوںمیں یہ خیالا ت رچ بس گئے ہوں کہ اسلام ایک فرسودہ سوچ وفکر کا نا م ہے۔اس کے احکا مات فرسودہ ہو گئے ہیں ،اس کے پاس اب کوئی ایسا نسخہ کیمیا ءہے اور نہ ہی ایسے وسائل وذرائع جن سے جدید مسائل کی گھتیاں سلجھائی جائےں۔ پس ایسے فرسودہ خیالات لوگوں کے قلوب واذہا ن میں جو بیٹھیں چور ہیں اسے اپنی گرفت میں لیں۔اس کے چور دروازوں کو بند کریں ۔ان کے دلوںمیں یہ ر وشن خیال جا گزیں کردیں کہ اسلام تو ایک ازلی و ابدی نظام واصول کا نا م ہے ۔ انہیں اس سے بھی آشکا را اور روشناش کرائیں کہ اسلامی تعلیمات ،اس کی نصائح ، اس کی سوسا ئٹیز اور کلچر و تہذیب،مغربی تہذیب و تمدن اور اس کے افکا ر و خیا لات دونوں ایسی کشتیاں ہیں جو مخالف سمتوں میں روا ں دواں ہیں ۔ایک کشتی پر سوار کو لا محالہ دوسری کشتی چھوڑنا ہی پڑے گی ۔

علماءبالخصوص اپنے تئیں ان با توں کو اپنائیں۔حق گو ئی ،بے باکی اور راست بازی کے قمقمے او ر اس کی قندیل اپنے دلوںمیں روشن کریں ۔نقش توحید کا اپنے دل پر بٹھا ئیں ۔باطل افکا ر وخیا لات کے ازالہ کی تدابیرتلاش کریں اور یہ بھی یاد رہے کہ اب وہ عہد نہیں رہ گیا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے بحث و مباحثہ اور منا قشہ بازی کا بازار گرم کیا جا ئے ۔حالات اس کے متقاضی نہیں ہیں کہ رفع یدین اور ترک رفع یدین کے نا قابل حل مسئلہ میں الجھا جا ئے یا آمین بالجہراور بالسر کے مسئلہ پر وقت ضائع کیا جا ئے ۔ضرورت تو اس بات کی ہے کہ کوئی ایسا عمل درآمد کیاجا ئے اور ایک ایسا لائحہ عمل وضع کیا جا ئے جسے تمام مکا تب فکر کے افراد سر آنکھوں پر رکھیں اور اس کیلئے ہر ممکن کو شش کی جا ئے کہ مغربیت کی چنگاریاں شعلہ میں تبدیل نہ ہو نے پائے۔

اب یہ باتیں چاہے نہایت ہی دلخراش کیوں نہ ہوں تاہم ان میں علما ءکی ہدایت کے لئے ایک سامان عبرت ضرور ہے ۔ان کے لئے اپنی موجودہ حالات پر اور اپنے اسلاف کی زندگی پر ایک طائرانہ ڈالنا ضروری ہے ۔ اپنی حالت ِزار کو ملحوظِ نظر رکھتے ہو ئے سوچیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کی پند ونصائح میں و ہ دم خم نہیں جو ان کے اسلاف کے اقوال اور ان کی نصائح میں تھا ؟وہ اپنی باتوں پر جم کر استقامت کا ثبوت دیتے تھے۔ان کا ایک مطمح نظر تھا ۔ وہ ایک مقصد کے حامل تھے ۔لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم بے مقصد یت کے شکا ر ہیں؟اپنے مطمح نظر اوراپنے فرضِ منصبی کیو ں صرف نظر کر رہے ہیں ؟ہم جس ڈگر پر گامزن ہیں وہ متزلزل اور لرزہ بر اندام کیوں ہے؟
گنوادی دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیںپر آسمان نے ہم کو دے مارا

جب معاشر ہ پر نظر ڈا لتے ہیں تو یہ سامنے آتا ہے کہ علماءکے بہت سے اقوال و افعال ایسے ہوتے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اور نہ ہی سماج کے مہذب طبقہ سے اس کا کوئی لگاؤ۔ بہت سے علماءایسے ہیں جہاں نظر ڈالیں وہیں ان کے خلاف ایک مخالف فضا ءہے۔

یہ ایسے واقعات ہیں جسے سن کر اور مشاہدہ کر کے بہت سے ایسے سوالات قلوب و اذہان میں گردش کرنے لگتے ہیں جن کے جوابات تو جوابات ،جوابات کے متبادل بھی نظر نہیں آتے ہیں۔وہ یہ کہ سماج و معاشرہ میںجنہیں حکام و افسران کا مقام حاصل ہے ان کے کردار و اعمال ایسے کیوں ہوگئے ہیں ،جیسے شر پسندوں کے ہوتے ہیں ؟وہ رہبران ِقوم وملت ہیں ۔ماحی کفر و ضلالت ہیں اور قوم کے رہنما ہی نہیں بلکہ رہنمائے اسلام ہیں ۔باوجود اس کے ا ن کی شان و شوکت پر دھندلی پر چھا ئیاں کیوں؟ان کی عزت ووقار خاک میں کیوں ملتی جا رہی ہے؟ان پر چہار سمت سے انگشت نمائی کیو ںکی جا رہی ہے ؟ان سوالا ت کے جوابات کیلئے اگر کوئی عریضہ آپ کی خدمت میں بھی پیش کیا جائے تو مجھے قوی امید یہی ہے کہ آپ بھی میری طرح نفی میں سر ہلا دیںگے کہ فی الواقعی یہ ناقابلِ حل سوالات ہیں۔

لہذا علما ءکو چاہئے کہ اپنے اعمال و کردار سے ایسے ایسے سوالات فراہم نہ کریں کہ اس کے حل کیلئے منہ کھانی پڑے اور دست بستہ یہی عاجزانہ ۔مخلصانہ اور متضرعانہ التماس ہے کہ خدارا مذکورہ امور کی جانب توجہ فرمائیں ۔باہمی نفرت و کدورت اور رنجش و پھوٹ کو نکا ل پھینکیںاور خصوصاًوہ علماءصاحبان جنہوں نے اپنے ذمہ امور تنظیمی و تبلیغی لی ہیںانہیں چاہئے کہ ان تنظیموںسے متعلق جو بھی امور ہیں،انہیں سرتاسر نبھائیں ۔اپنے فرضِ منصبی سے پہلو تہی اختیا ر نہ کریں ۔اس بات کو ہمہ دم پیش نظر رکھیں کہ کسی بھی کا م کےلئے پیش قدمی کریںتو اس میں انابت الی اللہ اور خشیت الہی ہو۔کیونکہ”انما یخشی اللہ من عبادہ العلمائ“یعنی عالم وہی ہے جن کے اندر خشیت الہی ہو ۔

مذکورہ قرآن کی ٹکڑے کے تفسیر شیخ شہاب الدین سہرور وی نے یوں بیان کی ہے۔عالم وہی ہے جس میں خشیت الہی ہو (تفسیر مظہری)

حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” انما العا لم مَن خشی اللہ “ عالم تو وہی ہے جو ا للہ سے ڈرے ۔

اصلاحِ امت کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نہایت ہی حکیمانہ ارشاد ہے۔” صنفان اذا صلحا صلحت الامةواذا فسدت فسدت الامة،السلطان والعلماء“ دو لوگ ایسے ہیں جن کی اصلاح میں امت کی اصلاح کے راز پوشیدہ ہے۔وہ ہیں علماءاور حکمراں۔

اخیر میں یہ سپرد قلم وقرطاس کرنا نہایت منا سب معلوم پڑتاہے۔عرض کئے دیتا ہوںعلماءکو چاہئے کہ سوچیں اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کریں۔وہ یہ کہ غیر مسلم مشاہیر اور نامور شخصیات کی جو مدح سرائی ہو تی ہے اسلام کی صداقت و بلندی کے تئیں اسے علما ءطول دینا اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں زوروں سے استعمال کرنافخر سمجھتے ہیں کہ جارج برناڈ شاہ کا قول یہ ہے۔فلاںصحافی غیر مسلم اورمغربیت زدہ ہے پھر بھی اس کا یہ قول اسلام کی صداقت پر مبنی اور دال ہے ۔ذرا آپ غور کریں کہ جس کی زبانی مدح وسرائی کی تصدیق اس کا زنگ آلود دل نہیںکرتا ہے تو ایسوں کے اقوال کا اعتبار ہی کیا ؟ان کا قول توبس یونہی سستی شہرت کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔اگر یہ سچائی و صداقت ان کے دلوں میںراسخ ہوتی تو وہ مشرف بہ اسلام کیو ں نہ ہوجاتے ؟ بس یہ ملحوظ خاطر رکھیںیہ ممکن ہے کہ کوئی مرچ کی کڑواہٹ کا منکر ہوتو کیا مرچ ،مرچ نہیں رہے گی ؟اسی طرح اگر کوئی شہد کی شیرنی کا منکر ہوجائے تو شہد سے اس کی شیر نی سلب کرلی جا ئے گی؟یہ تو ممکن ہی نہیں ۔لہذا یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بڑی سے بڑسی شخصیت کا قول اسلام پر صداقت کیلئے قا بل فخر نہیں بجز اللہ کے اس قول کہ” ان الدین عند اللہ الاسلام“۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100865 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More