مسلم نسل کشی اورامت مسلمہ کی تماشہ بینی

ہمدردی ،غم خواری، محبت ،انسانیت اور اخلاقیات کا جنا زہ نکلتا جا رہا ہے۔معاشرتی ،معاشی ،قومی اور بین الاقوامی سطح پر عدل و انصاف کا شیراز ہ بکھرتے دیکھ کر ہر درد مند تڑپ اٹھتاہے ۔ظلم کے شرارے گھروں سے محلوں تک ،محلوں سے شہر وں تک اور شہروں سے ملکو ںتک پھیلتے جارہے ہیں ۔جہاں دیکھو غریب ،کمزور ظلم وجبر کی چکی میں پس رہا ہے اورظالم ظلم کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے ۔طبقاتی گروہ بندیاں معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں ۔لسانی فسادات کے پتنگے جگہ جگہ اڑ رہے ہیں ۔اغیا ر کی غارت گری اور دجالی فتنہ سازوں کی انسانیت دشمنی ،نسل کشی اور تعصبات کے زہریلے اثرات پانی کی طرح پھیل رہے ہیں۔اسلام دشمن طاقتوں کی طاقت اور غرور کو توڑ نے والے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کے جانشین ہاتھ پے ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔حد ہوگئی!مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بے فکری کی جنہیں اسلام کی فکرہے نہ مسلمانوں کی ۔نہ ختم ہونے والی خواہشات کی تکمیل میں اپنے ہم عصروں کو شکست دینے کی فکر ہے لیکن جبروتشدد کے پہاڑ توڑنے والے عناصر کو شکست دینے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی۔

فلسطین ہو یا کشمیر، عراق ہو یا افغانستان ،شام ہو یا بر ما ہر جگہ ظلم کی آگ بھڑک رہی ہے۔نہتے اور بے سہا ر ا مسلمانوں کو بے دردی سے کچلا جارہا ہے۔آئے دن مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک ،بہیما نہ تشدد اورتڑپا دینے والے غیرمعمولی واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے مسلم نسل کشی کے واقعات اور ناپاک منصوبے اسلام کی آمد ہی سے شروع ہو گئے تھے ۔رحمة اللعالمین ﷺکو جو تکلیفیں دی گئیں وہ اسی منصوبے کا پیش خیمہ تھیں۔ماضی بعید میں تاتاری یلغار،چنگیز خان اور ہلاکو خان کی دراندازی بھی مسلم نسل کشی کا شاخسانہ تھی۔حال ہی میں بلاد عرب میں تبدیلی کی لہر اسی منصوبے کو تقویت دینے کے لیے بھڑکا ئی گئی۔فلسطین ،کشمیر اور دیگر اسلامی ممالک میں جو امن کے ٹھیکداروں کی غنڈہ گردی جاری ہے وہ بھی اسی دجا لی منصوبے کا حصہ ہے۔لادین قوتیں اپنے ناپاک عزائم کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے وقتا فوقتا شتر بے مہا ر کی طرح غنڈہ گردی اور دہشت گردی کی بھونڈی حرکا ت اور مختلف حربے مختلف مقامات پر استعمال کررہی ہیں۔کہیں حقائق کو تبدیل کر نے کی تبلیغ کی جارہی ہے توکہیںخوشحالی کا ڈھنڈور ا پیٹ کر منصوبہ بندی کی مہم چلائی جارہی ہے۔مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل کے لیے سادہ لوح عوام کو طرح طرح کے ہتھیاروں کے ذریعہ جکڑاجارہا ہے۔

گذشتہ چند دنوں سے مسلم کشی کے ناپاک منصوبے کے تحت برما میں مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہے۔ بدھ مت دہشت گرد مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں ۔دہشت گرد اور غنڈ ہ گردی کی اس مذموم حرکت میں اب تک 300سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں 20دیہات اور1600کے لگ بھگ مکانات صفحہ ہستی سے مٹادیے دیے گئے ۔ان وحشی درندوں کے درندگی کے باعث 5 لاکھ سے زائدافراد ہجر ت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔مردہ دل اور حواس سے خالی بدھ مت حکومت کی یہ مسلم نسل کشی مہم کوئی نئی بات نہیں ۔ 1942ءمیں بدھ مت حکومت ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ چکی ہی۔اسی طرح 1978میں بھی ایک لاکھ سے زائد مسلمان ان کی بربریت اور درندگی کا نشانہ بن چکے ہیں ۔اور 1991میں بھی قتل عام کے سبب 5لاکھ افراد بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔لیکن ان سب مظالم کے باوجود مسلمان مٹے ہیں نہ مٹیں گے ۔ظلم وجبر کے ان تمام مصائب کو جھیل کر بھی ان کے پایہ استقلال میں کمی واقع نہیں ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ 64سال سے کشمیرمیں جاری ظلم وجبر کی آگ بھڑک رہی ہے مگر پھر بھی آزادی کی تحریک رواں پیہم دواں ہے۔زیادہ دور کیوںجائیں؟افغانستان ہی کو لے لیجئے 10سال سے قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے،لیکن مجال ہے! کہ ان درویش صفت کوہساروں نے اپنے موقف میں تبدیلی کی ہویا کسی ڈیل کے نتیجہ میں اپنے موقف میں لچک پیداکی ہو ۔

لیکن۔۔۔۔تف ہے!انسانی حقوق کی علمبردارتنظیمیں انسانی حقوق کی آڑ میں اپنے مخصوص اہداف ومقاصد کی خاطر دنیا کی نظروں میں دھول جھونکتی ہیں۔دنیا میں امن وامان قائم کرنے کے ٹھیکداروں کا یہ دوہر امعیا رلمحہ فکریہ ہے خواب غفلت کے مزے لوٹنے والے مسلم حکمرانوںاور مسلم امہ کے لیے،جن کی سست روی اور کاہلی کی بدولت آج کشمیر ،افغانستان اور برما میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔آج ماﺅ ں کو گودیں محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسے سپوت پید اکر نے سے بانجھ ہو چکیں ہیں۔اگر ہماری بے حسی ،بے ضمیری اسی طر ح برقرار رہی تو کفر ہماری نسلوں کو تہس نہس کر دے گا اور تاریخ کے جھروکوں میں ہم مجرم اور قصوروار ٹھہر یں گے ۔50سے زائد اسلامی ملکوں ،بے شمار اسلامی تنظیموں اور پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کافر ض بنتا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مد د کر یں اور کفر کے دوہرے معیا ر کو بے نقاب کر کے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر یں اور خاموش تماشائی بننے کی بجائے عملی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کریں۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 34653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.