اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پورا
مغرب یکجا ہو کرمیدان عمل میں اترا ہواہے اور مسلسل ایسے اقدامات کررہاہے
جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو اور اسلام کو نقصان پہنچے۔اسلام کو بدنام
کرنے کی ہر سطح پر کوشش کی جارہی ہے اور اُسے دہشت گردی کے ہم معنی بنا کر
پیش کیا جارہاہے۔ ملت کفر کا تعصب اور بغض اس سارے منصوبے میں بڑے منظم
طریقے سے روبہ عمل ہے اور یقینا اس سارے عمل میں امریکہ ان کا سرپرست اعلیٰ
ہے۔ اس کی بد نیتی اور فسادی فطرت نے ہی اُسے پوری دنیا میں ناپسندیدہ ترین
ملک بنا رکھا ہے۔اُس کا یہ غرور اور طنطنہ کہ وہ سپر پاور ہے ،نے اسے
انسانوں سے زیادہ بھیڑیوں کا ملک بنا رکھا ہے اُس کے سیاستدان الیکشن جیتنے
کے لیے کسی ملک بالخصوص کسی اسلامی ملک پر چڑھائی کردیتے ہیں، وہاں قتل
وغارت گری کرتے ہیں اور دورِ جدید کے یہ چنگیز خان مسلمانوںکے خوں کے
دریااور سروں کے میناروں پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھتے ہیں۔خود یہ حال ہے
کہ امریکہ کے اصل باشندوں کو کالا کہہ کر امور سلطنت سے صدیوں دور رکھا ،اب
بھی گورے اور کالے کا یہ فرق باوجود کالی حکومت ہونے کے برقرار ہے۔ یہ سب
کچھ اپنی جگہ ہے اور مسلمانوں کو امریکہ سے شکایت بھی ہے لیکن عیسائیت سے
نہیں۔مگر دوسری طرف وہ خود دنیا میں اپنے پھیلائے ہوئے فساد کا الزام بلکہ
سزا بھی مسلمانوں کو دیتا ہے۔ اس کی خبثِ باطن کا ایک اور ثبوت اُس وقت
ہاتھ آیا جب یہ انکشاف ہوا کہ امریکہ کے جائنٹ فورسز سٹا ف کالج برائے
آفیسرز میں ایک انتہائی مکروہ عمل جاری ہے اور وہ یہ کہ 2004سے یہاں اسلام
کے خلاف بڑے منظم طریقے سے نصاب میں نفرت انگیز مواد پڑھایاجارہاہے اور اب
تک 800افسران رضاکارانہ طور پر یہ نفرت انگیزی سیکھ چکے ہیں۔ اس نصاب میں
اسلام کے خلاف جو شرانگیزی پھیلائی جارہی ہے اس کے لیے افسران خود کو
رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہیں ۔اس کورس کو مندرجہ ذیل چار حصوںمیں تقسیم
کیاگیاہے۔
ا۔ اسلامی بھائی چارے کی تباہی
ب۔ اسلام کو عیسایئت کا حقیقی دشمن بنا کر پیش کرنا
ج۔ اسلام کے مثبت تاثر کو زائل کرنا اور اسے بنیاد پرست ا ورجہادی بمعنی
فسادی مذہب ظاہرکرنا
د۔ عوام کے ذہنوں کو اس طرح ڈھالناکہ نعوذ باللہ مکہ،مدینہ پر حملے کو وہ
کھلے دل سے قبول کرلیں
یہ مکروہ منصوبہ جو پینٹاگون میں تیار کیا گیا بلکہ اس پر باقاعدہ کام بھی
ہورہاہے مگر ان کا یہ رویہ سمجھ سے بالا ترنہیں ہے کیونکہ اسلام کے انتہائی
پر امن رویے اور فطرت کے باوجود یہ قوتیں اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئیں
اور یہاں تک کی انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں تک کی تکذیب کی جن میں واضح
طور آخری زمانے کے پیغمبر ،کے زمانے اور علاقے کی نشان دہی کی گئی ہے اور
یہ سب جاننے کے باوجود انہوں نے اس بات کا انکار کیا اسی لیے اللہ تعالیٰ
نے قرآن پاک میں فرمایا کہ یہود اور نصاری کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ۔لیکن
ایسا ایک گروہ کے لیے فرمایا گیا اور وہی گروہ آج کے زمانے میں سر گرم ہے
اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہے کہ اسلام اِن مذاہب تو کیا پوری انسانیت کے
لیے امن کاپیغام ہے۔ جس جہاد کا نام لیتے ہوئے آج مسلمان بھی ہچکچاتے ہیں
وہ یہ ہرگز نہیں کہ ہر وقت تلوار بے نیام رہے ،ہاں اس وقت جب ہمارے مذہب کو
نقصان پہنچایاجائے تو پھر حکمِ خداہے کہ"جب تم کافروں سے بھڑجائو تو اِن کی
گردنیں اڑادو یہاں تک کہ تم اُن کو خوب قتل کرچکو تو ﴿جو زندہ پکڑے جائیں ا
ن کو﴾ مضبوطی سے قید کرلوپھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑدینا چاہیے
یا کچھ مال لے کر۔ یہاں تک کہ فریق مقابل لڑائی کے ہتھیار ہاتھ سے رکھ
دے﴿سورۃ محمدآ ّیت نمبر 4﴾ سوال یہ ہے کہ اسلام کو بدنام کرنے والے یہ لوگ
کیا اپنے خلاف لڑنے والوں کو معاف کردیتے ہیں یہ تو اُس احسان کے بھی
روادار نہیں جس کا اسلام مذکورہ بالا آ یت میں اپنے ماننے والوں کو ہدایت
کرتاہے۔ جہاد کو جس غلط رنگ میں اِن طاقتوں نے پیش کیاہمارے علمائ کو منطقی
بنیادوں پر اس کا جواب دینا چاہیے تھا جو کہ افسوس ہے کہ نہیں دیا گیا اور
اگر دیا بھی گیا تو جذ باتیت نے اسے مئوثر نہ ہونے دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ
خدا کا فرض کردہ جہاد ان طاقتوں کی طرح بے مہار نہیں ۔آج امریکہ مسلمان
ممالک میں مداخلت چھوڑ دے اور ہتھیا ر رکھ دے تو مسلمان اپنی دینی تعلیمات
کے مطابق لڑائی بند کردیں۔ امریکہ گھر آیا دشمن ہے اگر وہ ہمارے گھروں میں
آکر ہمیںمارے گا تو اپنے دفاع میں کچھ بھی کرلینا ہر انسان کا حق ہے ۔ لیکن
دراصل یہ وہ گروہ ہے جو اسلام کے خلاف نبرد آزمائی کو ہی مردانگی سمجھتاہے
ورنہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سمجھادیاتھا اور فرمایا دیا تھا کہ"﴿اے
پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم﴾ تم دیکھوگے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ
دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب
تر ان لوگوں کو پائوگے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان میں
عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے ﴿سورۃ المائدہ آیت نمبر
82﴾حضرت علی رضی اللہُ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہُ عنہ کی جنگوں کا
فائدہ اٹھاتے ہوے جب قیصرِ رو م نے مسلم سلطنت کی عیسائی رعایا کو حکومت کے
خلاف بھڑکایا تو ان کا جواب یہ تھا کہ ہمارے یہ کافر ﴿یعنی مسلمان﴾حکمران
تم جیسے جابر حکمرانوں سے بہتر ہیں ان کا یہ جواب صرف اس لیے تھا کہ ایک
جزیہ دے کر وہ محفوظ ومامون ہوجاتے تھے۔ اسلام کو دہشت گرد کہنے والے یہ
بذات خود دہشت گرد اگر اس مذہب کا مطالعہ کریں تو اُن کی انکھیں کھلی رہ
جائیں اور یہی خوف اور ڈر ہے کہ وہ اس کو سمجھنے سے کتراتے ہیں اور جو اس
کو پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور یوں یورپ میں
قبول اسلام کی شرح روز بروزبڑھتی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے حکمران
اسلام سے خوف زدہ ہیں اور اسے دہشت گرد ی کے مترادف قرار دے رہے ہیں
حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام نے اپنے غیر مسلم شہریوں کو جو
تحفظ دیا وہ یہ لوگ آج کی جدید دنیا میں بھی اپنی اقلیتوں کو نہیں دیتے۔
حضرت عمر رضی اللہُ عنہ نے بیت المقدس کی فتح پر وہاں کے گرجے میں یہ کہہ
کر نماز پڑھنے سے انکار کیا کہ ان کے ایسا کرنے سے مسلمان اسکو مسجد بنالیں
گے ۔انہیں کے دور کی ایک محفوظ دستاویز بھی ایسا ہی ثبوت فراہم کرتی ہے جس
میں ایک عیسائی نے دوسرے شہر کے عیسائیوں کو یہ خوشخبری دی کہ آج کل ایک
نئی قوم ہماری حاکم بن گئی ہے جو ہم پر ظلم نہیں کرتی بلکہ ہمارے گرجوں اور
راہب خانوں (Convents)کی حفاظت کرتی ہے ﴿بحوالہ خطبات بہاولپور از ڈاکٹر
حمید اللہ خان﴾یہ وہی حضرت عمر رضی اللہُ عنہ ہیں جو دین کے معاملے میں بہت
سخت تھے اور حدیث کے مطابق ابو بکر دین میں ابراہیم﴿یعنی نرم﴾ اور عمر
موسیٰ﴿یعنی سخت﴾ ہیں ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رچرڈ کو تو معاف کرکے رہا
کردیتا لیکن رچڑد سے ایسی توقع عبث ہے۔ اسلام کو بدنام کرنے کی اس سازش کی
بجائے اگر یہ ممالک خود اپنے رویوں پر غور کرلیں تو زیادہ بہتر ہو گا اور
دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ اسلام کی تعلیمات کا اسی سے اندازہ لگائیں
کہ مسلمان کو تو یہ حکم ہے کہ پچھلی کتابوں پر بھی ایمان لائیںاور یہ اپنے
پیرو کاروں کو صاف طور پر حکم دیتاہے کہ لا اِکرَاہَ فی الدّ ِینِ یعنی دین
میں کوئی جبر نہیں، جبکہ دوسری طرف تاریخ گواہ ہے کہ مشنری سکولوں اور
کانونٹ کی آڑ میں کس طرح غریب مسلمانوں اور ہندئوں کو بر صغیر پر انگریز
قبضے کے دوران عیسائیت اختیار کرنے پرمجبور کیا گیا۔ اور اب یہی کام سائنسی
بنیادوں پر اسلام کے خلاف بطور مذہب کیاجارہاہے۔ اور راہب خانوں کی جگہ
امریکہ کی جائنٹ سروسز سٹاف کا لج میں یہ سب ہورہا ہے اور راہبوں کا کام
لیفٹینٹ کرنل میتھو ڈولی سرنجام دے رہا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ آٹھ
سال سے جاری اس قبیح فعل کی شکایت ایک طالبعلم آفیسر نے کی تو اپریل
2012میں اس کورس کو صرف معطل کیا گیا یعنی ختم اب بھی نہیں کیا گیااور جنرل
ڈیمسی جو چیف آف جنرل سٹاف ہیں نے اس کی تحقیقات کا حکم دیا کہ یہ مواد
کیسے کورس میں شامل ہوا جبکہ ایک ہفتے کا یہ کورس سال میں پانچ بار چلتاتھا
تو کیا امریکی حکمرانوں اور خاص کر فوجی لیڈر شپ اس سے بے خبرہوسکتی ہے۔
ہماری فوج پر تو امریکہ بڑی آسانی سے بنیاد پرستی اور شدت پسندی کا الزام
لگادیتا ہے دیکھیئے اپنی فوج کے لیے وہ کس الزام کا انتخاب کرے گا اور کیا
اس سب کچھ کے ذمہ دار کسی سزا کے مستحق ٹھہریں گے؟اس معاملے کی تفصیلات سے
کم از کم یہ تو ثابت ہواکہ امریکی فوج میں آٹھ سو شدت پسندافسر موجود ہیں
اور باقی اس کے علاوہ ہیں اگرچہ یہ آٹھ سو افسر اسلام کا کچھ نہیں بگاڑ
سکتے کہ اس کی حفاظت کا وعدہ خدا نے کیا ہے لیکن کیا ویٹی کن پر حملے کے
کسی منصوبے کو یہ شرپسند خود معاف کرلیںگے یا کسی بھی حکومتی سرپرستی کے
بغیر بننے والے ایسے کسی منصوبے پر کسی بھی اسلامی ملک کی اینٹ سے اینٹ
بجادی جائے گی۔
امریکی حکومت عیسایت اور اسلام کے مابین دشمنی بڑھانے کی مجرم ہے۔ اگر یہ
اسلامی ممالک میں خونریزی نہ کرتی، اسلام کے خلاف مکروہ منصوبے نہ بناتی
اور اسلام کو بدنام نہ کرتی بلکہ اپنی خامیاں دور کرتی تو دنیا یقینا زیادہ
بہتر اور پر امن جگہ ہوتی ۔اسلام کی حقانیت سے خوفزدہ یہ دشمنانِ اسلام اگر
یہ جان لیںکہ اسلام دراصل خدا کا نُور ہے اور اسے نُور اس لیے کہا گیا کہ
یہ انسان کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے ،اسے گمراہ نہیں ہونے دیتا ۔اسلام نہ
صرف اپنے ماننے والوں کو صاف طور پر تعلیم دیتا ہے کہ "لکم دینکم ولی
الدین"تمہارے لیے تمہار ادین اور میرے لیے میرا دین ،بلکہ اللہ تعالیٰ بار
باراپنے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوبھی یہی بتاتا ہے کہ تمہارا کام
صرف پیغام پہنچا دینا ہے ان کافروں کی ہدایت یابی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے ہاتھ میں نہیں یعنی یہ زبردستی کا کام نہیں۔ لہذا ہر مسلمان کا صرف یہ
مطالبہ ہے کہ اسلام کے خلاف یہ سب کچھ کرنے والے ذمہ داروں کو بین الاقوامی
اور اگر امریکہ کا کوئی فوجی قانون ہے تواس کے مطابق سخت سزا دی جائے
کیونکہ سزا صرف مسلمانوں کا حق نہیں بلکہ امریکی شدت پسند اورشر پسند اسکے
زیادہ حقدار ہیں کیونکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے مذاہب کو ایک دوسرے کے سامنے
بطور دشمن لا کھڑا کردیا ہے۔ |