بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ایک اخباری اطلاع کے مطابق جون2012میںبرماکے وسطی علاقہ میںدس مسلمانوں کے
ظالمانہ قتل کے خلاف جب مسلمانوں نے اپنے اکثریتی صوبے میں احتجاج کیاتو
برماکی پولیس نے مسلمانوں پر بے دریغ اندھادھندفائرنگ کرتے ہوئے ان پر
بندوقوں کے دہانے کھول دیے اوربراہ راست مظاہرین کے سروں کے نشانے لیے جس
سے ہزاروں مظاہرین موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے اور بے شمار زخمی ہوئے ۔یہ
معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ”ٹونگوپ“نامی شہرمیں3جون کومسلمانوں کی بس پر
بدھوں نے حملہ کیاجو نمازپڑھ کر واپس آرہے تھے،اور اس حملے میں بعض اطلاعات
کے مطابق بدھوں نے پراناکوئی حساب چکانے کے لیے مذہبی عصبیت کی بنیادپر بس
کے مسافروں کو اس بے دردی سے زدوکوب کیاجس سے دس مسلمان شہیدہوگئے۔ردعمل
میں مسلمانوں نے 8جون کو ایک بہت بڑامظاہرہ کیاجس میں بعض غیرمصدقہ اطلاعات
کے مطابق مقامی انتظامیہ سے آنکھ مچولی بھی ہوئی۔معاملات کی غیرجانبدارانہ
تحقیقات کی بجائے 10جون کو ریاست کے صدر کی طرف سے مسلمانوں کے علاقے شمالی
اراکان میں زبردست قسم کی ہنگامی حالت نافذکرکے توعسکری اداروں کوکھلی چھوٹ
دے دی کہ کسی قسم کی تحقیقات ودستاویزی ثبوت کے بغیر مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ
کریں ۔عسکری اداروں نے پوری بدمعاشی کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں پر
دھاوابولاخوب پکڑ دھکڑاور بازاروں میں لوٹ مار کے بعد عورتوں بچوں اور
بوڑھوں سمیت پوری آبادی کوزدوکوب اور ماردھاڑ کا نشانہ بنایا،عینی شاہدین
کے بیان کے مطابق ٹرکوں کے ٹرک مسلمانوں سے بھر کر نامعلوم مقام کی طرف لے
جائے گئے اور اب تک ان کاکوئی پتہ نہیں۔یہ ساری گرفتاریاں اور ماردھاڑ بغیر
کسی قانونی کاروائی کے عمل میں آئی اور بعض آزاد ذرائع کی طرف سے ہزاروں
افراد کے قتل کی اور بعض مقامات پرمسلمانوں کے زندہ نذرآتش کرنے کی خبریں
بھی اطلاع کی گئیںوجہ یہ ہے کہ وہاں کسی بین الاقوامی ادارے کے صحافی
کوجانے اجازت نہیں۔ایک اندازے کے مطابق اب تک نوے ہزارمسلمان لاپتہ ہیںاور
تعدادمیں اضافہ بھی متوقع ہے۔حالات کے مارے لٹے پٹے مسلمانوں نے جب ہزاروں
کی تعدادمیں بنگلہ دیش کی طرف رخ کیاتو وہاں کی ”سیکولر“قیادت نے ان
”انسانوں“کو قبول کرنے سے انکار کردیاکیونکہ سیکولرازم صرف ان کو انسان
مانتاہے جومغربی تہذیب کی گنگاجمنامیں نہائے ہوئے ہوں،فرزندان توحید،عاشقان
مصطفی ،غلامان اہل بیت اورداڑھی ،ٹوپی،پگڑی اورمقامی لباسوں میں ملبوس تو
سیکولرازم کے نزدیک توانسان نہیں ہیں بلکہ یہ تو ان کے جانوروں کے برابر
بھی ”انسانی حقوق“نہیں رکھتے۔پس اب تک وہاں مہاجرین کے خیموں کی لمبی لمبی
بستیاں قائم ہو چکی ہیںجنہیں کوئی ریاست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں صرف اس
لیے کہ وہ کلمہ گوہیں۔
برماکے مسلمانوں پر یہ کوئی نیاشب خون نہیں ہے،یہاں کے مسلمان گزشتہ کئی
نسلوں سے اپنی بقا کی سیاسی و نیم عسکری جنگ لڑ رہے ہیں۔1050ءمیں ”بیاط
وائی“نامی مسلمان سردار کا ذکر ملتاہے جسے ”مان“خاندان کے بادشاہ نے اس لیے
قتل کردیاتھاکہ وہ قوت جمع کررہاتھا۔وہ دن اور آج کادن سامراج کے جہاز کرہ
ارض کے سمندروں پر قابض رہیں اور ان کی ظالم افواج باراتوں اور جنازوں پر
بمباری کرتی رہیںتو بھی وہ امن عالم کے ٹھیکیدار ہیں اور مسلمان اپنے
گھرمیںدفاعی جنگ لڑے توبھی دہشت گرد اور عسکریت پسند ہے۔برماکے مشہور
تاریخی ہیروبادشاہ”کیان سیتھا“ نے اپنے وقت کے مسلمان سردار”رحمان خان“کو
سیاسی و مذہبی اختلافات کی بنیادپر قتل کرادیاتھا،اور اس مسلمان کے قتل کے
لیے اس بادشاہ نے جلاد کوخصوصاََ اپنی ذاتی تلوار دی تھی۔1652میں ہندوستان
کے بادشاہ شہنشاہ خرم شاہجہاںکادوسرابیٹا شاہ شجاع کواس کی بدقسمتی برمالے
گئی،اس نے وہاں سے نکلنے کے لیے بھاری رقم برماکے بادشاہ
”سانٹھاسدھاما“کوپیش کی اور کہاکہ اس رقم کے عوض اسے ایک بحری جہاز دے
دیاجائے تاکہ وہ حج پر جاسکے،برماکے لالچی بادشاہ نے آداب سفارت کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے ہندوستانی شہزادے کو قتل کردیا،اس کی دولت پر قبضہ کرلیااور
اس کی عورتوں کو پس زنداں ڈال دیاجہاں وہ بھوک کے ہاتھوں ہلاک ہو گئیں۔اس
ظالمانہ اقدام کے خلاف جب برماکے مسلمانوںنے بے چینی کااظہارکیاتوہر داڑھی
والے کو مسلمان سمجھ کر تہہ تیغ کر دیاگیاجوبچ گئے وہ مجبوراََہجرت کر کے
تو ہندوستان آ گئے۔1589ءمیںبرمی بادشاہ “بے انٹاونگ“نے ریاست کے بچے کھچے
مسلمانوں کو زبردستی بدھ مذہب میں شامل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن پھر بھی
کچھ مسلمان جب استقامت پزیررہے اورانہوں نے برمامیں شمع ایمان روشن
رکھی۔1760ءمیں ”النگ پایا“نامی برمی بادشاہ نے مسلمانوں کے ذبیحے پر پابندی
لگاکر انہیں حلال گوشت سے محروم کردیا۔1819ءمیں برمی بادشاہ”بداوپایا“نے
چار علماءدین اسلام کو خنزیرکاگوشت کھانے پر مجبور کیا،انکار پر اس ظالم
بادشاہ نے چاروں کو قتل کرادیا۔مشہور ہے کہ ان ائمہ اربعہ کی شہادت کے بعد
سات دنوں تک برما میں مکمل اندھیرارہاجس کے باعث بادشاہ نے توبہ اور ندامت
کااظہارکیاتب اجالا نمودارہوا۔برطانوی دور حکومت میں 1921کے سروے کے مطابق
برما میں نصف ملین سے زائد مسلمان آباد تھے لیکن انگریزکی ”سیکولرجمہوریت
“ہندوستان کی طرح وہاں بھی غیرمسلموں پر ہی مہربان رہی۔1845ءمیں برمامسلم
کانگریس(BMC)بنی،عبدالرزاق اس کے صدر منتخب ہوئے جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی
بدھوں کی مذہبی کتاب کی قدیمی زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔مسلمانوں نے
اس پلیٹ فارم سے برماکی آزادی میں بھی بھرپور کردار ادکیا لیکن آزادی کے
بعد 1955میں مسلمانوں کی اس تنظیم کو ختم کردیاگیا۔بعد کی حکومتوں نے محسن
کش رویہ اختیارکرتے ہوئے برماکو بدھ ریاست قراردے دیاگیااورذبیحے تک پر
پابندی لگادی گئی اورحاجیوں کے راستے میں بھی روڑے اٹکائے جانے لگے۔
1962میں”جنرل نی ون“ کے دور کاآغاز ہواجو مسلمانوں کے ابتلاو آزمائش کے ایک
نئے عہدکاآغاز تھا۔فوج سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کیاگیا،انہیں
جانوروں کاقاتل قراردیاگیااور معاشرے میں ان کے لیے”کالا“کالفظ بول کر ان
کی معاشرتی تذلیل و تحقیرکی جانے لگی اورمسلمانوں کے لیے اپنی شریعت پر
چلنا بھی دشوار تر کر دیاگیا۔افغانستان کے اندر”بامیان“کے مجسموں کے معاملے
کے بعد برمامیں بدھوں کے بلوے نے مسلمانوں کی مساجد اور کئی بستیاں نذرآتش
کیں اور قتل و غارت گری کا بازارگرم کیے رکھا،حالانکہ اگر بامیان کا معاملہ
غلط بھی تھاتو برما کے مسلمان تو اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔اس بہت بڑے سانحے
کے بعد بعض مسلمان نوجوانوں نے ریاست سے ٹکرانے کا عندیہ بھی ظاہر کیاکہ
”تنگ آمد بجنگ آمد“کے مصداق یہ ایک فطری معاملہ تھا لیکن مسلمانوں کی بیدار
مغزقیادت نے انہیں اس امر سے باز رکھا۔16مارچ1997کو بدھوں کاایک بہت
بڑاگروہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتاہوا آگے بڑھااار مسلمانوں کی مسجد کو
آگ لگادی،اس کے بعد مسلمانوں کی مقدس کتب کو جمع کر کے نذرآتش کیا،پھر
مسلمانوں کی املاک اور کاروباری دکانوں میں لوٹ مار کی ،کئی لوگوں کو قتل
کیااور بے شمار لوگ زخمی بھی ہوئے۔اور سارے عمل میں ریاست تماشائی بنی
رہی۔15مئی2001کو ایک بار پھر بدھوں نے مسلمانوں کی گیارہ مساجد مسمار
کیں،چارسوسے زائد گھروں کو آگ لگادی اور دوسوافراد کو موت کے گھاٹ
اتاردیاجن میں سے بیس افرادوہ تھے جو مسجد میں نمازاداکررہے تھے اور انہیں
اس قدر پیٹاگیاکہ وہ جان کی بازی ہار گئے،بدھوں کا مطالبہ تھا کہ مسلمانوں
کی مساجد کو مسمار کر دیاجائے جسے حکوت نے تمام بین الاقوامی قوانین کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے مان لیااور متعدد مساجد زمیں بوس کر دی گئیںاور بعض
کو مقفل کردیاگیا۔مسلمان اپنے گھروں پر عبادت کے لیے مجبورکیے گئے اور بعض
نے ہجرت کرلی۔اب تک لاکھوں برمی مسلمان ہجرت کر کے تو بنگلہ دیش اور تھائی
لینڈ کی سرحدوں پر خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔2009میں تھائی
لینڈ کی فوج نے برمی مسلمان مہاجرین کو بے دردی سے ماراپیٹااور پھر انہیں
کشتیوں میں بٹھاکرکھلے سمندرمیں دھکیل دیا جہاں بے رحم موجیں ان مسلمانوں
کو نگل گئی اور مشرق سے مغرب تک پوری دنیا خاموش رہی۔اس دوران حکومت برما
اور بین الاقوامی اداروں کے بہت سے وعدے، مذاکرات، بیانات، رپورٹس ،قراردادیں
اورسرویزمگرمچھ کے آنسوؤں سے زیادہ ثابت نہ ہوئے جن کی تفصیل کے لیے ایک
علیحدہ دفتردرکارہے۔
برمی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کاایک حصہ ہیں،اگر وہ
عیسائی یا یہودی ہوتے یا کم از کم گوری رنگت کے حامل ہی ہوتے تو پوری
دنیاکا میڈیاآسمان سر پر اٹھا لیتا،نیٹوکی افواج امن عالم کا نعرہ بلندکرتی
ہوئی پہنچ جاتیں،امریکی قیادت کے دورے ہی ختم نہ ہوتے،یورپی یونین فوراََسے
بیشتر پابندیاں عائد کر دیتی،اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پامالی پر
قراردادیں منظورکرتاہوااپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا،عرب شیوخ اتنی بڑی بڑی
رقوم کے چیک پیش کرتے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں،عالمی اداروں کے
نمائندے اپنے کارندوں کے ہمراہ مظلومین کے ایک ایک فرد کے ساتھ کھڑے ہو
کرتصویریں بنواتے اور وطن عزیزاسلامی جمہوریہ پاکستان کی این جی اوزان کے
حالات پر ڈاکومینٹری فلمیں اور ڈرامے بناکر عالمی ایوارڈ حاصل کر چکی
ہوتیںاور مسلمانوں کے حکمران ان کے غم میں ہلکان ہو چکے ہوتے۔افسوس ہے ان
سیکولرازم کے پیروکاروں پر جن کا قبلہ مغرب اور جن کا خداپیٹ اورجن کا مذہب
پیٹ سے نیچے کی خواہش ہے۔انہیں مملکت خداداپاکستان کے کسی دوردرازگاؤں میں
پٹتی ہوئی عورت تو نظر آتی ہے لیکن نسلوں سے خون میں نہاتے ہوئے،جمہوریت کے
اس دور میںحق خودارادیت ومذہبی آزادی تک کے حق سے محروم برمی مسلمان نظر
نہیں آتے۔لیکن آخر کب تک ؟؟؟ظلم کی رات کتنی ہی تاریک ہو آخر کواسے ختم
ہوناہے ۔پوری دنیاپر یورپ کی غلامی کے بعد آزادی کاسورج طلوع ہوالیکن برمی
مسلمانوں پر انگریزکی غلامی کے بعداس سے بدترغلامی مسلط کر دی گئی
اورسیکولرازم کی لگی اندھی عینک سے دنیاکی قیادت کو صرف وہی نظر آتاہے جو
امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں ”عالمی برادری“کے نام پر ان کاہاتھ پکڑ کر
انہیں سجھادیتی ہیں۔امت مسلمہ کی عملی جدوجہد کے باعث گزشتہ صدی ہیل
ہٹلراورسرخ سویرے جیسے ہاتھیوں کو نگل گئی اوراس صدی کا سورج امریکہ کے
زوال کی خوشخبری لے کر طلوع ہواہے ۔سامراج اپنے استعماری نعروں سمیت غرقاب
ہوگااور پس دیوارافق فاران کی چوٹیوں سے پھوٹنے والی روشنی ایک بار پھر
عالم انسانیت کو اپنی آسودگی و راحت بھری گودمیں بھرلے گی،انشاءاﷲ تعالٰی۔ |