تھانہ برائے فروخت

دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں وہاں ہر کام کے لیے کُچھ لوگ مختص ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ اگر آپ چیونٹوں کے ایک گھرانے کا معائنہ کریں تو اس میں بھی مختلف قسم کے گروہ بنے ہوتے ہیں جو کہ اپنے ذمہ عائد فرایض سرانجام دیتے ہیں۔شہد کی مکھیاں ہوں ےا کوئی بھی دوسرے جاندار انسان کے لیے اللہ کی اس پاک اور باحکمت ذات نے ایک ایک ذرے میں مثال رکھی ہے۔مگر انسان نے اس سے سبق سیکھنے کی بجائے اپنے لیے خود مثالیں قائم کر لی ہیں۔اس کا بہترین مظاہرہ پاکستان میں ہوتا ہے۔جہاں ہر بندہ وہ کام کر رہا ہے جو اس کے ذمے نہیں ہے۔میڈیا باخبر رکھنے کی بجائے بلیک میلنگ میں ملوث،سیاستدان خدمت سے ذیادہ اپنا مال بنانے میںمصروف،پولیس قانون نافذ کرنے کی بجائے قانون شکنی کی مرتکب،مسیحا معالج بننے کی بجائے ہڑتالوں پر ہیں،جنہوں نے کاروبار کرنا تھا وہ حکومت میں آگئے اور جن کو ملک کا مستقبل سنوارنا تھا ہمارے ملک کے وہ نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ایسے حالات میں جہاں بے ایمانی اور نا انصافی عروج پر ہے ۔کوئی بھی شخص ایمانداری جیسے جرم میں مرتکب ہونے کے لیے تےار نہیں ہے۔صرف اور صرف قیمتیں مختص کر کے ہر کوئی اپنے لیے بازار مصر بنا کر عزیز کے انتظار میں ہے۔شعبہ کوئی بھی ہو۔عمر کوئی بھی ہو ،کام کوئی بھی ۔پاکستان میں ہر چیز بکتی ہے۔کُچھ چھپ کر بکتاہے۔کچھ سامنے بکتا ہے۔سب سے ذیادہ عام بکنے والی پاکستان کی پولیس اور ان کا قانون ہے۔بچہ بچہ اس بات سے واقف ہے کہ کوئی بھی کام پولیس کے ذمے ہو تو اسے قیمت دینا پڑتی ہے۔میانوالی کا تھانہ صدر اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ایک مقدمہ جس کا قانونہ پہلو کئی ذمہ دار اور تجربہ کار لوگوں کو دکھایا گیا۔سب کے سب نے اسے قابلِاندراج مقدمہ قرار دیا۔مگر تھانہ صدر کا ایس ایچ او ان سب باتوں سے غافل نظر آتا ہے۔علاقے میں آئے دن بڑھتی ہوئی وارداتیں اور آئے دن لڑائی جھگرے ، اور منشیات کا بڑھتا ہوا دھندا یس ۔ایچ ۔او۔ صاحب کی محنت اور اپنے کام سے لگنم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مگر پھر بھی سب کے سب لوگ ان سے خوش ہیں۔کیونکہ وہ تھانہ صدر کے علاقے سے آنے والے ہر بندہ کا کام چند عناصر کی اجازت کے سوا نہیں کرتا۔اور وہ اشخاص کسی بھی حکومتی نشست پر نہ ہیں ۔نہ ہی وہ کوئی سول عہدیدار ہیں۔محض پیسوں کی بنیاد پر انہوں نے تھانہ کے عہدیداروں کو خرید رکھا ہے۔محض پیسے لیکر مقدمہ کے اندراج اور اخراج کا کنٹرول تھانے سے باہر موجود ہے۔عہدیدار اس بات پر قائم ہیں۔کہ اندراج مقدمہ یا اخراج مقدمہ ان کے ہاتھوں میں نہ ہے۔جب تک ان کو بیرونی عناصر سے اجازت نہ ملے گی وہ مقدمہ درج نہ کر پائیں گے۔اعلیٰ عہدیدار اس تماشے پر مکمل خاموش ہیں۔کسی میں اتنی طاقتنہیں کہ وہ ا س کے خلاف آواز اٹھائے۔یہاں جو آکر قیمت ادا کر دے اس کا کام ہو جاتا ہے۔جو قیمت ادا نہ کرے یا اس کی سقت نہ رکھتا ہو تھانہ صدر میانوالی میں اس کے لیے انصاف کا کوئی بھی بھی فیصلہ متوقع نہ ہے۔ایسے حالات میں جب اہل علاقہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔سب ذمہ دارون تک رسائی کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔مگر باوجود اسکے کہیں بھی اس کے تدارک کے لیے نہ تو قدم اٹھا یا گیا نہ ہی ابھی تک کوئی حکمت عملی دیکھنے میں آئی ۔محض اپنی جیب گرم کرنے کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ایسے حالات مین جس کے پاس پولیس خریدنے کے لیے پیسے نہ ہونگے وہ ضرور اپنا جائز حق مانگنے کے لیے چوری و ڈکیتی تک سے پر ہیز نہ کریں گے۔اور یہی نا انصافی ، رشوت خوری اور مافیا عناصر کے ہاتھوں بکے ہوئے ہوئے عہدیدار ان شرفاءکو مجرم بنانے میں اور راہ راست سے نٹانے کے جوابدار ہونگے۔مگر افسوس تب کسی کو بھی حقیقت نظر نہ آئے گی سب کے سب آنکھیں بند کر کے منہ چھپا لیں گے۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 51559 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More