18جون2012ءکو ینگ ڈاکٹر زنے
ہڑتال کا آ غاز کر دیا۔ یہ کوئی ئنی بات نہیں بلکہ گزشتہ چار سالوں کے
دوران بھی کم و بیش وہ پانچ مرتبہ ہڑتالیں کر چکے ہیں ۔ ینگ ڈاکٹرز کا موقف
یہ ہے کہ ان کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ ورنہ وہ ہڑتال بند نہیں کریں
گے۔لیکن اس کے برعکس حکومت پنجاب کا موقف یہ ہے کہ وہ پچھلے سال ہی ینگ
ڈاکٹر کی تنحواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کر چکی ہے اب ہر سال ان مطالبات کو
تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
محکمہ صحت کا کہناہے کہ اگر ینگ ڈاکٹر کے مطالبات کو مانا جائے تو مراعات
فراہم کرنے پر 370ارب سے زائد خرچ آئے گا۔جبکہ ینگ ڈاکٹر زکا کہنا ہے کہ کل
خرچ 6 ارب سے زائد نہیں ہے۔
جہاں تک ینگ ڈاکٹر کے مطالبات کا تعلق ہے ان میں سے بعض تو بالکل ٹھیک ہیں
اور کسی حد تک مانے جاسکتے ہیں جیسے ینگ ڈاکٹر ز کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹ
کی طرح ان کے بھی پے سکیل ترتیب دیئے جائیں تاکہ تجربے کے ساتھ ان کے درجے
میں بھی ترقی ہو۔ایک رپورٹ کے مطابق صوبے میں بھرتی کئے جانے والے 50فیصد
ڈاکٹر ز اسی تنخواہ پر ریٹائر ہوجاتے ہیں جن پر انہیں بھرتی کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں انتظامی مسائل جیسے چھٹی کی درخواست کی
منظوری کے لیے بھی سیکرٹریٹ جانا پڑتا ہے ۔جہاں وہ سرکاری ملازمین کے رحم
وکرم پر ہوتے ہیں ۔ اور یہ اختیار میڈ یکل سپرنٹنڈنٹ کو دے دینا چاہیے۔ یہ
ایسے مطالبات ہیں جنہیں تسلیم کر لینے میں حرج نہیں بلکہ میڈیکل کے شعبے
میں ترقی کی نوید بن سکتے ہیں۔لیکن ان نوجوان مسیحاؤں کا منفی رویہ اختیار
کرنے اور مریضوں کے لیے محض اپنے مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں علاج
ومعالجے سے انکار کر دینا کسی طور پر درست نہیں کیونکہ ان کے اس منفی فعل
سے صرف انکا شعبہ متاثر نہیں بلکہ عام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے جن
میں مذہبی راہنماﺅں سے لے کر ایٹمی سیاستدانوں اور ایک مزدور سے لے کر بڑے
بڑے تاجروں تک کا بنیادی حق ہے۔جس سے کبھی بھی محروم نہیں کیا جاسکتا ۔سرکاری
ہسپتالوں میں علاج کرانے والوں کی اکثریت متوسط وغریب اور نادارلوگوں کی
ہوتی ہے جن میں سے بعض تو محض کرائے ادا کرنے پر بھی قادر نہیں ہوتے اور ان
کے ساتھ یہ ظلم انتہائی نازیبا ہے ۔ جس کی ہر ممکن حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
ینگ ڈاکٹر ز کی اکثریت ان ہونہار ڈاکٹرز پر مشتمل ہے جہنوں نے سرکاری
اداروں میں محض دو ہزار روپے ماہانہ فیس ادا کر کے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی
ہے۔ جبکہ حکومت نے ان کی تعلیم میں خرچہ ہونے والے لاکھوں روپے خرچ کا بوجھ
برداشت کیا اور اخراجات عوام کا پیسہ ہوتے ہیں۔ جو حکومت کسی نہ کسی مد میں
ان سے وصول کرتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ پبلک کے ساتھ سراسر ناانصافی
ہے۔گزشتہ سال بھی ینگ ڈاکٹر زنے ہڑتال کی جو کہ ایک سال طویل عرصے پر محیط
تھی۔ حکومت پنجاب نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے 5ارب روپے کے پیکج
کا اعلان کیا تھا۔ اگر ڈاکٹروں اور دیگر محکموں کے سرکاری افسران کی
تنخواہوں کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کا
مطالبہ کس حد تک درست ہے۔دیہی علاقے میں سکیل 17کا ڈاکٹر اسے 60ہزار روپے
جبکہ سول آفیسر کو 29ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ شہری علاقے میں سکیل 17کے
ڈاکٹرزکو 48ہزار سے 72ہزار تک جبکہ دوسرے محکموں کے اس گریڈ کے آفیسر کی
تنخواہ اضافہ نہیں کیا جاتا۔ گریڈ 18کے ٹیچنگ ہسپتال کا ڈاکٹر ایک لاکھ
19ہزار سے دو لاکھ 29ہزار روپے وصول کرتا ہے۔ جبکہ گریڈ 20کے سول آفیسر کی
تنخواہ ایک لاکھ چار ہزار بنتی ہے ڈاکٹر کے مالی حالات بہتر بنانے کے لیے
اضافی الاؤنس بھی ملتا ہے۔اس کے نتیجے میں گریڈ 17 سے 20گریڈ کے ڈاکٹر زکی
دوسرے محکموں کے اسی گریڈ کے آفسیروں سے 106سے 372فیصد زیادہ مالی فوائد
حاصل ہوتے ہیں ۔ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو بنیادی تنخواہ
کا 50فصید زائد ملتا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز نے اپنے مطالبات مرحلہ وار پورے کرنے
کا جو عندیہ دیا ہے اس کی لاگت 26236.864ملین روپے بنتی ہے۔
اتنی خطیر رقم ڈاکٹرز کی مراعات میں خرچ ہو جانے کے باوجود ینگ ڈاکٹرز کا
بار بار مطالبہ غیر اخلاقی ہے۔ ان مسیحاﺅں نے اپنی طبی تعلیم قوم کی خدمت
کے لئے حاصل کی ہے۔ اگر یہی لوگ قوم کے لئے وبالِ جان بن جائیں تو افسوس
ناک امر ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر ہڑتال بند کر دیں اور
اپنے مطالبات پر زور دینے کی بجائے کوئی مثبت پہلو اختیار کریں اور عوام
الناس کی خدمت میں مخلص بن کر مصروف ہو جائیں کیونکہ معاشرہ ان سے بہت سی
توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے۔
آخر میں ینگ ڈاکٹرز کے والدین سے بھی دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے
ہونہار بچوں کو سمجھائیں اور انہیں قوم کی خدمت کے جذبے کا احساس دلائیں
تاکہ وہ سوسائٹی کی امیدوں پر پورا اتر سکیں اور اپنے فرائض بہترین طریقے
سے انجام دے سکیں۔ |