اسلام معتدل اور امن پسند مذہب
ہے۔اخوت ، محبت ،سچائی ،رواداری ،ہم آہنگی ،یگانگت ،انصاف اور اخلاقیات کا
درس دیتاہے۔اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں نہ دھوکہ دہی کی گنجائش ہے نہ
کذب بیانی کی ،نہ منافقت کا تصور ہے نہ عہد شکنی کا ،نہ کرپشن کی اجازت ہے
نہ انصاف کی دھجیا ں اڑانے کی ۔اسلا م کے سایہ تلے امیر غر یب ،حاکم محکوم
سب برابر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات تمام ادیان سے بہتر اور غالب
ہیں۔کیونکہ اس میں غریب کے حقوق بھی موجود ہیں اور امیر کی امارت اور سیادت
کی حد بندی بھی متعین ہے،عورت کے حقوق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور مرد کی
اطاعت و فرمانبرداری پر بھی زور دیا گیا ہے ،چھوٹوں پر شفقت کرنے کا حکم
بھی ہے اور بڑوں کی تکریم کرنے کی تلقین بھی ہے ۔اسلام کمزور،لاچار ،ناتواں
اور معذور لوگوں کی کفالت کا درس بھی دیتا ہے اور مظلوم پر ڈھائے جانے والے
مظالم کی حوصلہ شکنی بھی کرتاہے۔الغرض اسلا م ایک عالمگیر مذہب ہے جس میں
پوری انسانیت کے لیے ہدایت ہی ہدایت ہے۔
اسلامی تعلیمات میں دو چیزوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ،نبی آخر الزمانﷺاور
قرآن مقدس۔یہ دونوں اسلا م کی اساس ہیں ان کے بغیر اسلا م مکمل ہوسکتا ہے
نہ مسلمان ۔حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جس طرح نبی آخر الزمان پر
ایمان لانا اور ادب واحترام کر نا لازم ہے ٹھیک اسی طرح قرآن مقدس پر ایما
ن لانا اور اور ادب و احترام کر نا ضروری ہے۔قرآن اور صاحبِ قر آن ﷺکی
توہین اور گستاخی کسی صورت برداشت نہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان کی توہین کا
مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے ۔تاریخ اسلامی گواہ ہے کہ جب بھی کسی
ملعون نے ان مقدس ستونو ں کو گرانے کی کوشش کی تو فیروزدیلمیؓ،غازی علم
الدین اور عامر چیمہ جیسے سرفروشان اسلام نے ان کے وجود سے فورازمین کو پاک
وصاف کر دیا۔مسلمانوں کو ان دونو ں سے جتنی عقیدت اور محبت ہے ان کو الفاظ
کی لڑی میں پرونا مشکل ہے ۔ادنی سے ادنی مسلما ن بھی ان کے خلاف ایک لفظ تک
نہیں سن سکتا۔لیکن ۔۔۔؛زن،زر اور زمین کی ہوس نے امت مسلمہ کو بے ضمیر
کردیا ہے۔آئے دن توہین رسالت اور توہین قرآن کی جاتی ہے پھر بھی ہم غفلت سے
بیدار نہیں ہوتے۔کبھی گستاخانہ خاکہ شائع کیے جاتے ہیں تو کبھی قرآن مقدس
کو جلایا جاتاہے ،کبھی یہ مذموم حرکت ملعون ”ٹیر ی جونز “کرتاہے اور کبھی
اسلامی مملکت میں چھپے میر جعفر اورمیر صادق کے جانشین کرتے ہیں ۔لیکن ان
ہر کاروں کو لگام دینے کے لیے کوئی نہیں اٹھتا ،نہ حکمران یہود ونصاری سے
وفاداریا ں چھوڑتے ہیں نہ عیش پرست قوم خواہشات ترک کرتی ہے۔بس برائے نا م
چند دن کے لیے احتجاج کیاجاتاہے اور مذمتی قرار دادیں پاس ہوتی ہیں جن کا
اثر نہ ملعونوں پر ہوتاہے نہ میر جعفروں پر ۔
امت مسلمہ کی بے حسی ،بے توقیر ی اور نام نہاد حکمرانوں کی چاپلوسی کی وجہ
سے آئے روز ”کفر “ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتاہے ۔گذشتہ دنوں بہاولپور
کے قریب احمد پو ر شرقیہ کے علاقہ میں آستین کے سانپ نے مسلمانوں کی مقدس
کتاب کو سر عام چوک میں جلایا ،پولیس اور قانون سے متنفر عوام نے اس ملعو ن
کو فورا جہنم واصل کردیا ۔اس ملعون کی پشت پناہی کے لیے نام نہاد انسانی
حقوق کی تنظیمیں توکیا اسلام کے دعویدار بے ضمیر حکمران بھی چیخ اٹھے کہ یہ
سر اسر انسانی حقوق کے خلاف ہے ۔میڈیانے بھی منافقت اور دوغلے پن کا مظاہر
ہ کیا ،واقعہ کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا اور دنیا کو غلط تاثر دیا کہ یہ ملعون
”معذور “تھا۔اور تو او رمعاشرے میں امن وامان قائم کر نے والے بھی بول اٹھے
کہ یہ ملعون ”ذہنی مریض “تھا۔کوئی ان عقلمندوںسے پوچھے بھلا”ذہنی مریض“ کو
جلانے کے لیے صرف قرآن ہی ملا؟افسوس !دنیامیں جب بھی یہ مذموم حرکتیں کی
جاتی ہیں تو نام نہاد تنظیمیں متحرک ہوجاتی ہیں اورمجر م کو بچانے کے لیے
اسے” ذہنی مریض “کالقب دے دیاجاتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیاذہنی مریض صر ف
قرآن ہی جلاتے ہیں ؟غورکیاجائے تویہ حقیقت خوب واضح ہوجاتی ہے کہ اس جیسے
تمام واقعات سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کروائے جاتے ہیں ۔ویسے بھی ”کفر “کی
یہ عادت رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لیے اس طرح کی حر کتیں
کرتارہتاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری ساری رہے گا ۔کیا
اس کی روک تھام کے لیے کوئی مناسب اقدام نہیں کیا جائے گا۔۔؟یقینا کیا جائے
یہی وقت کی ضرورت ہے ۔
بحثیت مسلم ہمارافر ض بنتا ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے منظم ادارہ
بنایا جائے بلکہ پہلے سے موجود اداروں کو فعال کیا جائے جو پوری دنیامیں ان
واقعات کے خلاف عملی کام کریں ،احتجاج اور فرضی قراردادیں پاس کرنے کی
بجائے اسلامی تشخصات کی حفاظت کریں۔اسی طرح ملک پاکستان میں قانون نافذکرنے
والوں کا فرض بنتاہے کہ وہ عملاقانون کا نفاذ کریں اور ان واقعات کا سد باب
کریں کیو نکہ اگر یہ ادارے قانون کے مطابق سزایا کاروائی نہیں کریں گے تو
پھر یا ”تو زندہ جلا نے کی روایت پڑجائے گی “( جس کی اسلام قطعا اجازت نہیں
دیتا) یا پھر ممتاز قادری جیسے سپوت اور نڈر لو گ پید اہوں گے ۔ |