بغداد کے اندر جنید بغدادی اپنے
زمانے کا نامی گرامی پہلوان ہوا ہے اس کا مقابلہ پورے بغداد میں نہیں تھا
حسب معمول حکومت نے جنید بغدادی سے عام مقابلے کا اعلان کرکے ایک بھاری رقم
انعام مقرر کر دی۔ مقررہ تاریخ پر میدان سج گیا اور جنید بغدادی میدان میں
اتر کر اپنے کسی مد مقابل کو للکارنے لگا لیکن کوئی مد مقابل سامنے نہیں
آیا کافی دیر کے بعد جنید بغدادی کے مقابلے میں رستم نامی شخص مقابلے کیلئے
میدان میں اتر آیا جنید بغدادی اور رستم کی جسمانی طاقت اور جسامت کا فرق
زمین اور آسمان کے فرق کے برابر تھا بغدادی نے کہاکہ رستم تم میرا کیا
مقابلہ کروگے مرنے سے بہتر ہے میدان سے باہر نکل جاﺅ ۔آگے سے رستم جواب
دیتا ہے کہ بغدادی مجھے علم ہے کہ تم طاقت میں مجھ سے کئی گناہ زیادہ طاقت
ور ہو لیکن میرے پاس کچھ ایسے گر ہیں جو تمہاری طاقت سے کئی گناہ زیادہ با
اثر اور طاقتور ہیں تم مجھے جسمانی طاقت سے شکست دے سکتے ہو مگر میرے تجربے
کے سامنے تمہاری طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی بحرحال کافی ساری بحث کے بعد
مقابلہ شرو ع کرنے کا اعلان ہو گیا رستم بغدادی کی پیٹ چڑھ گیا اور بغدادری
کے کانوں میں کہنے لگا کہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ تم مجھ سے طاقت میں
زیادہ ہو اور میں تم کو شکست بھی نہیں دے سکتا لیکن میں گذشتہ 6دنوں سے سخت
بھوکا ہوں اور تم کو شکست دینے کے نتیجے میں جو رقم ملے گی اس سے کھانا کھاﺅں
گا اور دوسری بات کہ میں سید ہوں اگر تم شکست کھا جاتے ہو تو تم کو ثواب
عظیم نصیب ہو گا چنانچہ بغدادی کا دل موم ہو گیا اور رستم کی بات سننے کے
بعد بغدادی زمین کے نیچے گر گیا اور رستم بغدادی کے سینے پر بیٹھ گیا یوں
رستم نے مقابلہ جیت لیا اور بغدادی شکست کھا گیا اس شکست کے بعد بغدادی پر
لوگ حیران ہو گئے کہ اس کو آخر رستم نے شکست دی کیسے؟؟اس طرح کے لاتعداد
سولات پیدا ہوئے لیکن دنیا کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ بغدادی نے اس
عارضی دنیا کی نسبت ابدی دنیا میں کامیابی کا عظیم ترین سوداکر لیا تھا اور
اس کی پہلی شرط ہی سید زادے کا احترام تھا اور دوسری شرط کہ کسی بھوکے اور
مجبور انسان کی رب کی رضا کی خاطر مدد کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ آج دنیا جنید
بغدادی کو حضرت جنید بغدادی کے نام سے جانتی ہے اور بغداد میں ان کا روضہ
مبارک بھی موجود ہے جنید بغدادی کے ساتھ حضرت لگنا اور بغداد میں روضہ
مبارک قائم ہونا ہی بغدادی کا سودا تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے بحرحال واقعہ
اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی بھی روگردانی کرنے کا مجاذ نہیں ہو سکتا مگر یہاں
پر ایک اور خوبصورت بات بھی جنم لے رہی ہتے کہ 18کروڑعوام کی طاقت ایک طرف
کھڑے ہو کر زرداری نظام کیخلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور ووسری طرف اسی
اٹھارہ کروڑ عوام کا نمائندہ فورم جس کو ہم قومی اسمبلی کہتے ہیں کے
216ممبران زرداری نظام کے پیرو کار راجہ پرویز اشرف کو اپنے ایوان کا قائد
چن لیتے ہیں یعنی پتہ نہیں زرداری صاحب پیٹ پر چڑھ کر عین وقت پر کانوں میں
کیا کہہ دیتے ہیں کہ مدمقابل ان کے سامنے موم ہو جاتاہے اور مدمقابل کو ان
کے سامنے کو ئی بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی اور رستم کی طرح کی چال کھیل
جاتے ہیں مگر یہ یاد رہنا چاہیے کہ رستم اور حضرت ؓبغدادی کا مقابلہ اسلام
نقطہ نظر سے اسلام کی عظیم تاریخ کا حصہ ہے اور اس کی نسبت پاکستان اور
پاکستانی عوام کے ساتھ زرداری نظام جو کچھ کر رہا ہے اس کا کردار پاکستان
کی تاریخ میں تحریر کرتے وقت یقینا مورخ کا سرشرم اور ندامت محسوس کرے گا
اور یقینامورخ کی قلم تاریخ کو مرتب کرتے وقت روانی کے ساتھ چلنے کی بجائے
پل پل کے بعد ڈھگمگائے گی اور پاکستانی تاریخ کو مرتب کرنے کا اعزاز رکھنے
والی قلم ایک دفعہ ضرور اپنے قلم ہونے پر شرم محسوس کرے گی ۔۔۔۔۔۔ |