پاکستان قوم کے کردار کو اگر
کتابوں میں دیکھا جائے تو ملن ساز،محنتی ، ایماندار ، بہادر اور ایسے ہی
کئی نام نہاد القاب سے نوازا جاتا ہے۔مگر جب حقیقت کا مطالعہ کیا جائے تو
حقیقت اس کے بر عکس نکلتی ہے۔کہتے ہیں جیسے لوگ ہوں ان پر ویسے ہی حکمران
مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ہم آئے دن حکمرانوں پر کرپشن ، لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی
اور نہ جانے کیا کیا الزام لگاتے رہتے ہیں۔جو کہ کافی حد تک ٹھیک بھی ہوتے
ہیں۔اس کے باوجود اپنے ساتھ اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں ہونے والے فراڈ یا
جعلسازی میرے لیے باعث تعجب ہر گز نہ ہے۔کیونکہ میں نے خود کو ایک پاکستانی
کے طور پر پرکھا ہے۔اور مجھے یہ معلوم کر کے بہت دکھ ہوا کہ جب بھی مجھے
موقع ملتا ہے میں اپنے کسی پاکستانی بھائی کے ساتھ فراڈ یا کر جاتا ہوں۔میں
پاکستان میں کام چوری کاعادی ہوتا ہوں۔کُچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی ملک
سے باہر جاکر خوب محنت کرتے ہیں۔اور لگن و دل جوئی سے کام کرتے ہیں۔درحقیقت
ایسا نہیں ہم لوگ وہاں جا کر بھی ویسے ہی رہتے ہیں۔تبدیلی صرف ےہ آتی ہے کہ
اگر وہاں کام نہ کریں تو وہاں کا ماحول اور نظام ایسا ہے جس میں ہم لوگوں
کے لیے جگہ نہیں بنتی۔اور وہاں پسیے کی لالچ ہمیں انسانیت کے معیار سے گر
دیتی ہے۔ہم رشتے ناطے اور تمام تر تعلقات کو بھول جاتے ہیں۔ملک کا نام روشن
کرنے کی بجائے ملک کے نام کے ساتھ چور اور فراڈ کا جھنڈا لگاتے ہیں۔کئی
پاکستانی جو عرب ممالک میں اپنے رزق کی تلاش میں نکل جاتے ہیں وہاں جا کر
نہ صرف کئی لوگ نا جائز طریقے سے رہتے ہیں بلکہ ملک سے لوگوں کو بیرون
بھجوانے کا جھانسہ دیکر معصوم لوگوں سے فراڈ بھی کر تے ہیں۔دنیا کے مختلف
ممالک میں ہم پاکستانیوں کے رویے مختلف ہوتے ہیں۔عرب ممالک میں نوکری کا
جھانسہ دیکر لوٹ مار میں مصروف ہیں۔جبکہ یورپی ممالک میں موجود پاکستانیوں
کا اگر طریقہءواردات دیکھا جائے ۔تو وہ عرب والوں سے کافی مختلف ہے۔وہاں وہ
ان کو اصل کاغذات بنوا کر دینے کے بہانے سے لوٹتے ہیں۔ایک پاکستانی جو کہ
سپین میں موجود ہیں جب ان سے اس کے متعلق بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ
ہماری قوم(پاکستانی)وہ قوم ہے اسے جہاں بھی لے جاﺅ یہ دھوکہ فریب سے باز
نہیں آتے۔ان کے مطابق انہوں نے کئی ایسے لوگوں کو دیکھا اور ان سے ملے جن
کے ساتھ پاکستانیوں نے خود ہی فراڈ کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ جب پردیس کے غم
میں مبتلا میں ایسے حالات دیکھتا ہوں تو نہ صرف میری آنکھوں سے اشک رواں
ہوتے ہیں۔بلکہ میرا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے۔کہ اور تو ہم ایک نا جائز
کام کر کے ملک کا نام بدنام کر رہے ہیں۔اور لوٹ بھی خود اپنے ہی لوگوں کو
رہے ہیں۔اور کئی سادہ لوح اور شریف لوگوں کو لوٹنے کے لیے گروہ بنے ہوئے
ہیں ۔جن کے خلاف کاروائی کرنے میں سفارتخانوں کے حکام ناکام نظر آتے ہیں۔جو
بات سب سے ذیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ اگر عرب ممالک میں موجود پاکستانیوں
کو دیکھا جائے جو فراڈ جیسے سنگین جرم میں مبتلا ہیں یا یورپ میں موجود
بہروپیے ان میں ایک بات یکسر مشترک ہے ۔کہ یہ ایک اصول کے تحت کام کر تے
ہیں اور وہ اصول یہ ہے کہ یہ لوگ دھوکہ صرف اور صرف پاکستانی لوگوں یعنی
اپنے ہم وطنوں کو دیتے ہیں۔جو پہلے ہی ملک سے دور اپنی مجبوریوں کا رونا رو
رہے ہو تے ہیں اور اس کی رہی سہی کسر ان کے پاکستانی بھائی نکال دیتے
ہیں۔ابھی تک حکومت اس بات پر سنجیدگی سے غور نہیں کر رہی ۔جس کے نتیجہ میں
اس رجحان میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔جو کہ نہ صرف لوگوں کے جان
و مال بلکہ ملک کے عزت و وقار کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔اگر اس
رجحا ن کو بر وقت روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہ کی گئی تو اس کے
سنگین نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ |