آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید رمضان
میں مہنگائی کرنے والوں کا ذکر کرنے جارہا ہوں۔ بلاشبہ یہ بھی ایک بڑی
مافیا ہے۔ ماہِ صیام میں کچھ دن باقی ہیں مگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں
اضافے نے ابھی سے عوام کی چیخیں نکالنا شروع کردی ہیں۔ ”مسلمان“ دکانداروں
نے آٹا، چینی، دالیں، پیاز، آلو ، تیل وغیرہ ”حسبِ توفیق“ مہنگی کردی ہیں
اور یہ سلسلہ پورے جوش وخروش سے جاری ہے۔ آج ہم ایک اور مافیا کی بات
کریںگے، جو ناجائز منافع خوری سے کسی طور کم نہیں ہے۔
جس کالونی میں رہتا ہوں وہاں درجنوں ایسے گھرانے بھی آباد ہیں جنہیں لوگ
”انٹرنیشنل بھکاری“ کہتے ہیں، گاڑیوں، بس اسٹاپوں، ٹریفک سگنلوں اور
بازاروں میں بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اپنے اسی دھندے کے سلسلے میں
بیرون ملک بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ آج کل یہ لوگ بہت خوش ہیں، کیونکہ چند
روز بعد ان کی کمائی کا سیزن شروع ہونے والا ہے۔ ان لوگوں نے بہت سے مخیر
حضرات کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے گھیر رکھا ہے۔ رمضان کی آمد سے قبل ہی
بڑے شہروں پر گداگروں کی یلغار شروع ہوگئی ہے۔ اہم مقامات کی نیلامی جاری
ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بعض ”بھیک پوائنٹ“ کا ٹھیکا لاکھوں روپے میں
گیا ہے۔ سفاک ٹھیکیدار بچوں کو ایک ماہ کے لیے کرائے پر حاصل کررہے ہیں۔
خاص طور پر معذور بچوں کی بڑی مانگ ہے، کیونکہ ان بچوں کو دیکھ کر دل پسیج
جاتے ہیں اور ہاتھ نہ چاہتے ہوئے بھی جیب کی طرف چلا جاتا ہے۔
کراچی میں رمضان المبارک سے قبل قتل وغارت میں جو تیزی آتی ہے، اس کا بڑا
سبب بھی یہی ہے۔ ایک پارٹی زکوٰة اور فطرہ جمع کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ
علاقوں پر قبضے کی کوشش میں دوسری پارٹی سے ٹکراجاتی ہے۔ آپ کسی پینا فلیکس
بنانے والے یا پرنٹنگ کا کام کرنے والے کے پاس چلے جائیں، کام کے ”رش“ کی
وجہ سے اسے کان کھجانے کی بھی فرصت نہیں۔ ”آپ کی زکوٰة، صدقات اور فطرے کے
اصل حقدار“ کے عنوان سے دھڑا دھڑ بینر، بل بورڈ، پملفٹ تیار ہورہے ہیں۔
اگلے دو چار روز میں شہر کی سڑکیں اور چوراہے اس اشتہاری مواد سے سج جائیں
گے۔
عوام کو حکومت پرذرہ بھر اعتماد نہیں، اس کے باوجود ہر سال بینکوں کے ذریعے
سرکاری خزانے میں اربوں روپے کی زکوٰة جمع ہوجاتی ہے۔ اس سے آپ اندازہ
لگاسکتے ہیں کہ لوگ ہر سال اپنی مرضی سے کتنی زکوٰة نکالتے ہوں گے۔ بعض
لوگوں کا خیال ہے ملک بھر سے زکوٰة وصدقات کی مد میں نکالی جانے والی رقم
قومی بجٹ کے قریب تر ہوتی ہے۔ ویسے تو زکوٰة کے لیے کوئی مہینہ مخصوص نہیں
ہے، مگر زیادہ تر لوگ رمضان میں ہی زکوٰة نکالتے ہیں۔ گویا زکوٰة لینے اور
دینے کی تیاریاں ہورہی ہیں، اس لیے دو باتوں کی طرف آپ کی توجہ چاہتا ہوں۔
بعض لوگ صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود سرے سے زکوٰة دیتے ہی نہیں اور بہت بڑی
تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو محض اندازے سے زکوٰة دیتے ہیں۔ یہ دونوں
رویے ٹھیک نہیں ہیں۔ زکوٰة نہ دینے پر جو وعیدیں آئی ہیں، علمائے کرام اس
کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مال کا ٹھیک
ٹھیک حساب لگاکر پھر شرعی مقدار کے مطابق زکوٰة نکالی جائے۔ یہ بات ذہن میں
رہنی چاہیے جس طرح زکوٰة دینا فرض ہے، اسی طرح اسے حقدارتک پہنچانا بھی
لازم ہے۔ اس معاملے میں بہت کوتاہی برتی جاتی ہے۔
پہلے ذکر کرچکا ہوں، رمضان کے آتے ہی پیشہ ور اور ماڈرن بھکاریوں کا سیلاب
بھی امڈ آتا ہے۔ روایتی گداگروں سے تو آپ کا روز ٹاکرا ہوتا ہے، انہیں
بآسانی شناخت بھی کیاجاسکتا ہے، البتہ ”ماڈرن“ بھکاریوں کا طریقہ واردات
ذرا ” مہذب“ ہوتا ہے۔ یہ مساجد کے باہر یا دیگر عوامی مقامات پر ہاتھ
پھیلاکر بھیک مانگنے کی بجائے جدید تکنیک کا سہارا لیتے ہیں۔ ”این جی اوز“
کا روپ دھارے یہ بھکاری بڑے پیمانے پر اشتہاری مہم چلاتے ہیں۔ جگہ جگہ دیو
قامت بل بورڈ نصب، گاڑیوں اور گھروں میں پمفلٹ پھینکوائے اور اخبارات میں
اشتہارات چھپوائے جاتے ہیں۔ بعض تو فنڈریزنگ کے لیے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں
افطارڈنر کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان میں بیشتر صرف ”رمضانی این جی اوز“ ہوتی
ہیں۔ یہ یکم رمضان کو پیدا اور عید کا چاند نظرآتے ہی دفن ہوجاتی ہیں۔ ان
کا مقصد محض رمضان میں ”بزنس“ کرنا ہوتا ہے۔ یہ این جی اوز لا کھوں روپے
خرچ کرکے کروڑوں روپے سمیٹ کر اپنی راہ لیتی ہیں۔
جو این جی اوز رمضان سے پہلے اور بعد میں بھی کام کرتی نظر آتی ہیں، وہ بھی
عموماً زکوٰة کے مسائل سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس مد میں حاصل کی گئی رقم
کو اس کے ٹھیک مقام پر نہیں لگاپاتیں۔ کھلاڑیوں، فنکاروں اور دیگر معروف
افراد کے اداروں کو آپ اس خانے میں رکھ سکتے ہیں۔ بظاہر ان لوگوں کی این جی
اوز بہت اچھا کام کررہی ہیں، مگر بات وہیں آکر اٹک جاتی ہے کہ کیا ان کو
زکوٰة، صدقات اور فطرے کے شرعی مصرف کا علم ہے؟ اگر علم ہے تو کیا یہ رقم
اسی جگہ خرچ ہورہی ہے، جہاں ہونی چاہیے؟
میرے خیال میں زکوٰة وغیرہ دیتے ہوئے دو باتوں کو ضرور پیش نظر رکھنا
چاہیے۔ ایک یہ کہ جس کو یہ رقم دی جارہی ہے اس کے بارے میں امکانی حد تک یہ
تسلی کرلی جائے کہ وہ واقعی اس کا مستحق ہے۔ اگر رقم کسی ادارے کو دینے کا
ارادہ ہے تو پہلے یہ دیکھ لیا جائے اس کے چلانے والے شرعی معاملات سے کس حد
تک واقف ہیں؟ دوسری بات یہ کہ پیسے جن کے حوالے کیے جارہے ہوں ان کی امانت
ودیانت معروف ہو۔ کتنا اچھا ہو اگر ہم زکوٰة کے فرض کی ادائیگی کے ساتھ
ساتھ اسے حق دار تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی پوری کرنے کی کوشش کریں۔ |