ان کاکام کافی آسان ہے۔ان کا کام
کافی مشکل لگتا ہے۔وہ لوگ ایمانداری کا حلف دیتے ہیں۔مگر کبھی ایمانداری کے
مرتکب نہیں ہوتے۔افسوس صد افسوس۔مگر بے سود۔کیونکہ سرائیکی کی ایک مثال کا
ترجمہ کچھ یوں ہے کہ جلن کا احساس وہاں ہوتا ہے جہاں آگ لگی ہے۔باقی کوئی
اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔مگر مجھے اس پر کام کرنے کا ایک بے مطلب سا شوق
پیدا ہو گیا۔حق لکھنے سے حد درجہ بچنے کی اور کوئی بڑی سفارش ڈھونڈ رکھنے
کی کوشش میں مصروف ہوں۔امید ہے کامیابی ہوگی۔ملک کا آئین اگر پڑھا جائے تو
اس میں مجھ نا چیز کو کئی خرابیاں نظر آئی ہیں۔جن کی دو وجوہات ہیں۔ایک یہ
کہ شائد میں سیاست میں آنے کی کوشش کر رہاہوں ۔یا پھر میری بے عقلی اور ملک
کے فارغ سیاست دانوں کی صحبت میری عادات کو بگاڑ رہی ہے۔پاکستان کے آئین
میں کئی جرائم کی سزا سرے سے مختص ہی نہیں کی گئی ۔حالانکہ ان جرائم کی
سنگینی ملک کے نظام سے بغاوت کے جرم کے عین برابر ہے۔یہاں نہ تو ایمانداری
جیسی بیوقوفی پر کوئی دفعہ مختص کی گئی ہے۔نہ اصول پسندی کو کہیں جرم کہا
گیا ہے۔نہ حق کی بات کرنے والے کو قید کرنے کی کوئی گنجائش رکھی گئی
ہے۔غربت اور مظلومی جیسے بڑے مسائل کو یہاں کے آئین میں جرم کے زمرے تک
نہیں گنا جاتا۔حالانکہ مذکورہ اور چند اور حرکات کو ملک میں سنگین جرائم کی
حیثیت حاصل ہے ۔مگر اس کے خلاف کوئی جامع قانون نہ ہونے کی وجہ سے عدالتیں
اور پولیس ایسے مجرموں کو سزا دینے سے قاصر ہیں۔میری استدعا ہے کی اس کے
لیے جلد از جلد قانون سازی کی جائے۔تاکہ سرکاری محکموں میں موجود بے ایمان
،کام چور ،رشوت خور اور مافیا عناصر اپنے حقوق کے لیے آگے آسکیں اور اپنے
راہ کی رکاوٹ بننے والے ہر ایک خود مقابلہ کر سکیں۔تھانے میں رشوت روکنے
میں تو سب ناکام ہو گئے ہیں۔چاہے خادم اعلیٰ ہو یا وزیراعلیٰ۔تو بہتر یہی
ہے کہ اس کے لیے ایک قانون بنا کر ہر کیس میں ہر عہدے کے لیے ایک مخصوص
معیار رشوت قائم کر دیا جائے پھر اس کو سہی طریقے سے چلانے کے لیے ملک میں
ایک کمیٹی بنا دی جائے جو اس پرخود اپنی زیر نگرانی عمل کروائے۔مگر تھانوں
میں ایسا حال ہر گز نہیں ۔وہاں انصاف پسندی اور قانون کے فروغ سے متعلق وہ
اقدام اٹھائے گئے ہیں جن سے آنکھ چھپانا مشکل ہے۔عوام نے جب بھی پولیس کو
پکارا خواہ وہ چڑیوں کو پکڑنے کھیت کے چُگ جانے کے بعد پنہچی مگر پنہچ
گئی۔ایسا ہی ایک واقعہ میانوالی کی سر زمیں پر ہوا۔جہاں پسند کی شادی کی
سزا اتنی سنگین دی گئی کہ دل دہل گئے۔پاکستان کے اس حصے میں آج بھی پنچائت
ظالمانہ اور اصولوں سے مبرا فیصلے دینے پر دن رات جاری ہے۔اس ظالم سماج نے
اپنے حق کا صحیح استعمال کرنے پر نہ صرف لڑکے کے والدین پر تین لاکھ روپے
جرمانے کی سزا رکھی بلکہ ان کے پورے خاندان کو وہاں سے اپنے گھر چھوڑ جانے
پر مجبور بھی کیا گیا۔ستم کی یہ داستان یہاں پر ختم نہ ہوئی اور انہوں نے
نہ صرف ان کو اس علاقے میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے بلکہ آج بھی ان
کی جان کے دشمن بنے نظر آتے ہیں۔اور شہر کے سرکاری راستے سے گزرنے پر انہوں
نے مسلحہ ہو کر لڑکے کے باپ پر حملہ کر دیا اور اسے شدید زخمی کر دیا ۔مظلومیت
کا شکار ہوکر جب یہ تھانے میں پہنچے تو بااثر افراد نے نہ صرف تھانے کو
اپنے قبضے میں لے رکھا تھا بلکہ ان پر صلح کے لیے نا جائز دباﺅ بھی ڈالا جا
رہاہے۔عدالت کے حضور یہ مقدمہ پیش کیا گیا مگر ابھی اس کی سماعت ہو نی
ہے۔تھانہ انچارج کا کہنا تھا کہ ان پر بہت دباﺅ ہے۔اور وہ جانتا ہے کہ ان
کے ساتھ ظلم ہوا ہے مگر وہ اپنی مجبوریوں کے باعث ان کی مدد نہیں کر سکتا ۔ایسے
میں ایم ۔پی ۔اے اور ایم۔ این ۔اے کہاں ہیں کسی کو نہیں پتہ۔ارے علم کی کمی
میرے موضوع تبدیل کر گئی۔معذرت قبول فرمائیے گا۔میں ملک میں قانون سازی کی
بات کر رہاتھا۔ایک اور اچھی تجویز جس سے کافی زرمبادلہ بھی حاصل ہو سکتا ہے
کہ تھانہ ویسے بھی ریونیو والوں سے ذیادہ پیسے اکٹھے کر لیتا ہے ۔اگر اسے
ٹھیکے پر دیکر اس سے سالانہ آمدنی لی جائے تو اس سے کافی فائدہ حاصل ہو
سکتا ہے۔بے وقوف عوام جو تھانے کو انصاف ملنے کی جگہ سمجھ کر یہاں چلی آتی
ہے ان کا خرچہ بچ جائے۔اور بھی کئی فوائد ہونگے مگر میں وہ نہیں بتا سکتا
کیونکہ میں حق کی بات نہ کرنے کا وعدہ کرکے تحریر کا آغاز کر آیا ہوں۔خیر
بہتر اب یہی ہے کہ میں کچھ اور نہ لکھوں کیونکہ نہ مجھ میں سچ لکھنے کی اور
نہ ہی کسی میں سچ سننے کی ہمت ہے۔خدا کرے کہ جو ہو بہتر ہو ۔آثار نظر نہیں
آتے۔مگر معجزے خدا کی قدرت کی نشانی ہیں۔سب معجزے کے منتظر ہیں خاص طور پر
وہ جو تھانے کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ |