گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
گنہگاروں کی4 حکایت ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔
(١) قَبْر میں آگ بھڑک اٹھی !
حضرتِ سَیِّدُنا عَمْرو بن شُرَ حبِیْل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
ایک ایسا شخص اِنْتِقال کرگیا جس کو لوگ مُتَّقیسمجھتے تھے۔جب اُسے دَفْن
کردیا گیا تو اُس کی قَبْر میں عذاب کے فِرِشتے آپہنچے اور کہنے لگے، ہم
تجھ کو اللّٰہ عَزَّوَجَل کے عذاب کے سو کوڑے ماریں گے۔اُس نے خوفزدہ ہوکر
کہا کہ مجھے کیوں مارو گے؟میں تَو پرہیز گار آدمی تھا۔تَو اُنہوں نے
کہا،اچّھا چلو پچاس ہی مارتے ہیں مگر وہ برابر بَحث کرتا رہاحتّٰی کہ
فِرِشتے ایک پر آگئے اور اُنہوں نے ایک کوڑا مار ہی دیا ۔ جس سے تمام قَبْر
میں آگ بھڑک اُٹھی اور وہ شخص جل کرخاکِسْتَر (یعنی راکھ ) ہو گیا ۔پھر اُس
کو زِندہ کیا گیا تو اُس نے دَرد سے تِلمِلا تے اور روتے ہوئے فریاد کی،
آخِر مجھے یہ کوڑا کیوں مارا گیا؟تو اُنہوں نے جواب دیا، ایک روزتُو نے بے
وُضُو نَماز پڑ ھ لی تھی ۔ اور ایک روز ایک مظلوم تیرے پاس فریاد لے کر آےا
مگرتُونے فریاد رَسی نہ کی۔
(شَرحُ الصُّد ور، ص١٦٥)
محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے؟اللّٰہ عَزَّوَجَل ناراض ہُوا تو اُس نے نیک
اور پرہیز گار شخص کی بھی گرِفت فرمائی اور وہ عذابِ قَبرمیں گھِرگیا ۔اللّٰہ
عَزَّوَجَل ہمارے حالِ زار پر رَحم فرمائے۔اور ہماری بے حساب مغفِرت فرمائے۔
(٢)ماپنے میں بے اِحتیاطی کے سبب عِتاب
حضرتِ سَیِّدُنا حارِث مُحَاسِبِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فر ما تے ہیں کہ
ایک کَیّال ـ(یعنی غَلّہ ماپنے والے)نے اِس کام کو چھوڑدیا اور عِبادتِ
الہٰی عَزَّوَجَلَّمیں مشغول ہوا۔ جب وہ مر گیا۔ تَو اُس کے بَعض اَحباب نے
اُس کو خواب میں دیکھا تَو پوچھا، ما فَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟یعنی اللّٰہ
عَزَّوَجَل َّنے تیرے ساتھ کیا مُعامَلہ کیا؟ اُس نے کہا، ''میرا وہ پیمانہ
جس میں غَلّہ وغےرہ ماپاکرتا تھا،اُس میں میری بے اِحتِیاطی کی وجہ سے کچھ
مِٹّی سی بیٹھ گئی تھی جس کو میں نے لاپرواہی کے سَبَب صاف نہ کیا تو ہر
مرتبہ ماپنے کے وَقت بقَدَر اُس مِٹّی کے کم ہوجاتا تھا ۔میں اُس قُصُور کے
سَبَب عِتاب میں گَرِفتار ہوں۔'' (اَخْلاقُ الصّٰلِحِین،ص ٥٦)
(٣) قَبر سے چلانے کی آواز
اِسی طرح ایک اور شخص بھی اپنی تَرازُو کو مِٹّی وغیرہ سے صاف نہیں کرتا
تھااور اِسی طرح چیز تَول دیتا تھا۔جب وہ مرگیا تَو اُس کو بھی قَبرمیں
عذاب شُروع ہوگیا۔یہاں تک کہ لوگوں نے اُس کی قَبْرسے چیخنے چِلّانے کی
آواز سُنی ۔بعض صالِحِین(یعنی نیک لوگوں ) کو قَبْرسے چِلّانے کی آواز سُن
کر رَحم آگیا اور اُنہوں نے اُس کیلے دُعائے مَغفِرت کی تَو اِس کی بَرَکت
سے اللّٰہ تعالیٰ نے اُس کے عذاب کو دَفْع کیا۔ (اَیضاً)
حرام کی کمائی کہاں جاتی ہے؟
مذکورہ دونوں لَرزہ خیز حکِایات سے وہ لو گ ضَرور دَرْسِ عِبرت حاصِل کریں
جو ڈَنڈی مارتے او ر کم ماپ تَول کرتے ہیں۔ مُسلمانو!ڈنڈی مار کر کم ماپ کر
بَعض اَوقات بظاہِر مال میں کچھ زیادَتی نظر آبھی جاتی ہے مگر ایسی آمَدَنی
کس کام کی! بسا اوقات دُنیا میں بھی اِس قِسْم کا مال وَبال بن جاتا
ہے۔ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹروں کی فِیسوں،بیماریوں کی دواؤں،جیب کَتروں ،چوروںیا
رِشوت خورَوں کے ہاتھوں میں یہ مال چلا جائے۔اور پھرمَعاذَاللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ آخِرت کا عذابِ شدید بھی بُھگتنا پڑ جائے۔
کر لے توبہ ربّ کی رَحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی
آگ کے دو پہاڑ
روحُ البیان میں ہے،''جو شخص ناپ تَول میں خِیانت کرتا ہے ، قِیامت کے روز
اُسے دوزخ کی گہرائیوں میں ڈالا جائے گا اور آگ کے دوپہاڑ و ں کے درمیان
بِٹھا کر حُکم دیا جائے گا ، اِن پہاڑوں کو ناپو اور تولو!جب تولنے لگے گا
تو آگ اُسے جَلا ڈالے گی۔ ''(تفسیر روحُ البیان، ج١٠، ص٣٦٤)
محترم قارئین کرام!خوب غور فرمایئے!مختصر سی زندگی میں چند فانی سِکّے
حاصِل کرنے کیلئے اگر ڈنڈی مارلی تَو کس قَدَر شدید عذاب کی وَعید ہے۔آج
معمولی گرمی برداشت نہیں ہوتی تو جہنَّم میں آگ کے پہاڑوں کی تَپَش کِس طرح
برداشت ہوگی!خُدارا!اپنے حال پر رَحم کرتے ہوئے مال کی ہَوَس سے دُور
رہئے۔ورنہ مالِ غیرِ حَلال دونوںجہاںمیں وَبال ہی وَبال ثابِت ہوگا۔
(٤)تنکے کا بوجھ
حضرتِ سَیِّدُنا وَہْب بن مُنَبِّہ( مُ۔نَب۔بِہْ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں ، ''بنی اسرائیل کے ایک نوجوان نے ہر قِسْم کے گُناہوں سے تَوبہ
کی ۔پھر ستَّر سال تک مُسَلسَل عِبادت کرتا رہا۔دِن کو روزہ رکھتا،رات کو
جاگتا۔اُس کے تَقْویٰ کا یہ عالَم تھاکہ نہ کسی سایہ کے نِیچے آرام کرتا
اور نہ ہی کوئی عُمدہ غِذا کھاتا۔جب اُس کا اِنتِقال ہوگیا تَو اُس کے بَعض
دوستوں نے اُسے خواب میں دیکھ کر پُوچھا، مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟یعنی
اللّٰہ عَزَّوَجَل نے تیرے سا تھ کیا مُعَامَلہ کیا؟اُس نے بتایاکہ ،
اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے میرا حِساب لیا،پھر سب گُناہوں کو بَخش دیا مگر
آہ!ایک تِنکا ، جِسے میں نے اُس کے مالِک کی مرضی کے بِغیر لے لیا تھا اور
اُس سے دانتوں میں خِلال کیا تھا وہ تِنکا اُس کے مالِک سے مُعاف کروانا
رَہ گیا تھا ۔ افسوس صَد افسوس !ا ِسی سَبَب سے ابھی تک مجھے جنّت سے روکا
ہواہے۔ (تنبیہ المُغْتَرِّین، ص٥١)
گناہ آخر گناہ ہے
محترم قارئین کرام! لرز جاؤ ! تَھرَّا اُٹھو !!کہ جب غَضَبِ جَبَّاراور قہرِ
قَہّار عَزَّوَجَلَّ جوش پر آتا ہے تَو ایسے گُناہ پر بھی گرفت ہو جاتی ہے
جسے دنیا والوں کے نزدیک بَہُت ہی معمولی تَصوُّر کیا جاتا ہے۔جیسا کہ ابھی
حِکایت میں گُزرا کہ ایک عابِدوزاہِد اور نیک بندہ صِرف اور صِرف اِس وجہ
سے جنّت سے روک دیا گیا کہ اُس نے ایک حَقیر تِنکا اُس کے مالِک کی اِجازت
کے بِغیر لے کر اُس سے دانتوں میں خِلال کرلیا اور پھر بے مُعاف کروائے
اِنتِقال کرگیا تَو پھنس گیا۔ ذرا سوچئے! غور کیجئے!!ایک تِنکا تَو کیا شَے
ہے ؟ آج کل تو لوگ نہ جانے کیسی کیسی قیمتی اَمانتیں ہڑپ کرجاتے ہیں اور
ڈَکار تک نہیں لیتے۔
ادائے قرض میں بلا مہلت لئے تاخیر گناہ ہے
مُسلمانو!ڈرجاؤ!!حُقُوقُ الْعِبادکا مُعامَلہ نِہایت ہی سَخت ہے ۔ اگر ہم
نے کسی بندے کا حق دَبا لیا۔یا اُس کو گالی دے دی ،آنکھیں دکھا کر ڈرایا،
دھمکایا ، غُصّہ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جس سے اُس کا دِل دُکھا۔اَلْغَرَض کسی طرح
بھی بے اجازت شرعی اُس کی دِل آزاری کی یا قَرضہ دبا لیابلکہ بِغیرصحیح
مجبوری کے قَرض کی ادائیگی میں تاخیر ہی کی۔ یہ سب بندوں کی حق تلفیاں
ہیں۔یا د رکھئے! اگر آپ نے کسی سے قَرض لیا اور ادائیگی کےلئے رقم پاس نہیں
ہے مگر گھر کے اَسباب ، فرنیچروغیرہ بیچ کر قَرض ادا کیا جاسکتا ہے تَویہ
بھی کرنا پڑے گا۔قَرض ادا کرنے کی ممکن صُورت ہونے کے باوُجُود قرضدار سے
مُہلَت لئے بِغیر آپ قرض کی ادائیگی میںجب تک تاخیر کرتے رہیں گے گنہگار
ہوتے رہیں گے۔اب خواہ آپ جاگ رہے ہوں یا سو رہے ہوںایک ایک لمحے کاگُناہ
لکھا جاتا رہے گا۔ گویا ادائیگیء قرض تک مُسَلسَل آپ کے گُناہوں کا
مِےٹَرچلتا رہے گا۔اَلْامَان وَالحَفِیْظ۔جب قَرض کی ادائیگی میں تاخِیر کا
یہ وَبال ہے تَو جو کوئی پُورا قَرضہ ہی دَبالے اُس کا کیا حال ہوگا!
تین پیسے کا وبال
میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت ، مو لٰیناالشاہ امام اَحمد رَضا خان
علےہ رحمۃُ الرَّحمٰن سے قرضے کی ادائیگی میںسُستی اورجھوہٹے حِیَل
(حِ۔یَ۔ل) و حُجّت کرنےوالے شخص زَیدکے بارے میں اِستِفسار ہواتوآپ رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:''زَید فاسِق وفاجِر ، مُرتَکِب کَبائر
،ظالِم ،کذّاب ،مُستحَقِ عذاب ہے اس سے زِیادہ اور کیا اَلقاب اپنے لئے
چاہتا ہے!اگراِس حالت میںمر گیا اوردَین (قرض) لوگوں کا اِس پر باقی رہا
،اِس کی نیکیاںاُن (قَرضخواہوں )کے مُطا لَبہ میں دی جائیں گی ۔کیونکر دی
جائیں گی(یعنی کس طرح دی جائیں گی۔ یہ بھی سُن لیجئے) تقریباََ تین پیسہ
دَین (قرض) کے عِوَض(یعنی بدلے) سات سو نَمازیں باجماعت(دینی پڑیں گی) ۔جب
اِس(قرضہ دبا لینے والے) کے پاس نیکیاں نہ رہیں گی اُن (قرضخواہوں ) کے
گناہ اِس(مقروض) کے سر پر رکھے جائیں گے اورآگ میں پھینک دیا جائے گا ۔ ' '
(مُلخصاًفتاوٰی رضویہ ،ج٢٥،ص٦٩ )
مت دبا قرضہ کسی کا نابَکار
روئے گا دوزخ میں ورنہ زار زار
محترم قارئین کرام! دُنیا میں کسی پر ذرّہ برابر ظُلم کرنے والابھی جب تک
مظلوم کو راضی نہیں کرلے گا اُس وقت تک اُس کی خَلاصی (یعنی چُھٹکار ا)
ناممکِن ہے۔ ہاں ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اگر چاہے گا تو اپنے فضل وکرم سے
قِیامت کے روز ظالم و مظلوم میں صُلح کروادے گا۔ بَصُورتِ دِیگر اُس مظلوم
کو ظالِم کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔اگر اس سے بھی مظلوم یا مظلومِین کے
حُقُوق ادا نہ ہوئے تو مظلومِین کے گُناہ ظالِم کے سَر پر ڈال دئےے جائیں
گے اور اِس طرح وہ ظالِم اگر چِہ دنیا میں نیک وپرہیزگار رہ کر بڑی بڑی
نیکیاں لے کر قِیامت میں آیا ہوگا۔مگر بندوں کے حُقُوق ضائِع کرنے کے سَبَب
بِالکل مُفلِس وقَلّاش ہوجائے گا اور اِسی وجہ سے جہنَّم رَسِید کردیا جائے
گا۔والْعِیاذُ بِاللّٰہِ تعالٰی ۔
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |