عمران کافی عرصہ سے یورپ کی ہواﺅں
میں سانس لے رہاہے، قیام یورپ کے دوران یورپ کی شہریت لینے کے لیے عمران ہر
وہ کام کرنے کو راضی ہے جو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا چاہتا ہے۔شہریت حاصل
کرنے کا مقصدہے کہ وہ اپنی فیملی کو بجلی، گیس اور پٹرول کے بحرانواں سے
آزاد کرواکر یورپ کی آزاد فضاﺅں میں لے آئے۔ اس کے خیال میں پاکستان میں
جتنا مرضی کا م کرلووہ ترقی(پیسے) نصیب نہیں ہوگئی جو یورپ میں 8 گھنٹے کام
اور16 گھنٹے کے آرام سے مل جاتی ہے۔عمران کی طرح دیگر پاکستانی نوجوان نسل
بھی دن و رات یورپ و امریکہ جانے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے رکھتے ہیں،
جیسے ہی نوجوان نسل 18 برس کی ہوتی ہے نادرا کی لمبی لائن میں لگ کر اپنا
کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنواتے ہیں اور جب کچھ مزید پیسے(4000-6000 (ہاتھ
لگ جائے تو پاسپورٹ آفس کے ایجنٹوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، اور اپنا قیمتی
فرض پورا کرتے ہیں۔ پاسپورٹ بنتے ہی بیرونی ملک بھیجے کے دعویٰ دار 16-20
لاکھ کے بدلے بیرون ملک کا گرین سگنل دے دیتے ہیں اور پھر دن رات والدین سے
پیسوں کا مطالعبہ شروع ہوجاتا ہے۔
یورپ کے حسین و دلکش منازل کو ذہنوں میں سجاکرنوجوان نسل تعلیم کو خیرآباد
کہہ دیتے، جبکہ اس عمر میں یورپ کے نوجوان اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لگے
ہوتے ہیں ۔ بیشک تعلیم کے میدان میں ترقی کر کے ہی ترقی یافتہ ممالک نے آج
ترقی پذیر قوموں کو اپنی سرزمین پر آنے پر مجبور کیاہوا ہے۔
قارئیں اگر نوجوان نسل اپنی صلاحیتیں پاکستانی سرزمین پر آزمائیں تو وہ
پاکستان کی تقدیر تبدیل نہیں کرسکتے؟ ہم نوجوان پاکستان کو بحرانوں سے باہر
نہیں نکال سکتے؟ ہم لٹیروں کا پاکستان سے خاتمہ نہیں کرسکتے؟ ہم پاکستان
میں قانون کی حکمرانی نہیں لاسکتے؟
پوری دنیا نوجوان نسل کو اپنا مستقبل تصور کرتی ہے اور اسے ہر ممکن سہولت
میسر کی جاتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر رہ کراپنی توانائی صرف کرئے اور ملک
کی ترقی کا سفر جاری رہے۔ جبکہ پاکستان میں ہر ممکن کوشش جاری رہی ہے کہ
کسی نہ کسی طرح نوجوان نسل کو لوٹ کر بیرون ملک بھیج دیا جائے اوروہاں جاکر
مزدوری کرتے رہیں اور اس کے اندر موجود صلاحیتوں کو وہاں پر موجود قریبی
قبرستان میں دفن کر دیا جائے۔ راقم بیشتر لوگوں کی کہانیاں سن و پڑھ چکا ہے
جو بیرون ملک جاکر اپنی تقدیریں تبدیل کرنے کی بجائے اس وقت کو یاد کرکے
روتے ہیں جب وہ پاک سرزمیں کو خیر آباد کہہ کر آئے تھے۔
راقم کے نزدیک حکومت وقت کو چاہیے کہ جلد از جلداپنی نوجوان نسل کی پالیسی
سازی پر غور کرئے اور مستقبل کے معماروں بیرون ملک سڑکوں پر برباد ہونے کی
بجائے پاک سرزمیں پر رہ کر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دیکھائیں۔ بد قسمتی سے ہر
سال نوجوان نسل کے حوالے سے عالمی دن تو منایا جاتا ہے مگرآج تک کسی بھی
فلاحی تنظیم وسرکار نے نوجوان کو مستقبل کا راستہ نہیں دیکھیا۔جبکہ ہر
سیاسی جماعت نے یوتھ ونگ بنا رکھے ہیں جہان پر صرف اور صرف برمعاشی، بلیک
میلنگ اور لڑائی جھگڑئے کی تربیت دی جاتی ہے، موجودہ دور میں کرپشن کی ما ں
نام نہاد فلاحی تنظیمںبھی نوجوان نسل کو صرف اور صرف زکو ة، فطرانہ اور
چندہ اکھٹاکرواتے ہیں۔
میری محب الوطن پاکستانیوں سے درخواست ہے کہ وہ نوجوان نسل کو بیرون ملک
برباد ہونے کی بجائے پاکستان کی سرزمیں پر اپنے جوہر دیکھنے کی تربیت دے۔ |