ہنستی مسکراتی زندگی ہر کسی کو عزیز
ہے ۔لیکن شاید انسان اس معاملہ میں غافل ہے کہ کسی کی ہنستی مسکراتی زندگی
اسے کچھ بھلی نہیں لگتی ۔انسانوں کی اک تعداد دوسروں کی زندگیوں کو بے چین
دیکھنے میں ،بے چین کرنے میں راحت محسوس کرتے ہیں ۔دوسروں کے حقوق سلب کرنے
میں کچھ عار محسوس کرتے ہیں ۔ظلم وبربریت کے وہ عبرت ناک کام کرگزرتے ہیں
کہ جس سے انسانیت پشیماں ہوجائے ۔
محترم قارئین!اس وقت آپ اپنے گلی محلہ کو دیکھیں ،گھر کو دیکھیں ،ملک کو
دیکھیں ،عالمی افق پر دیکھیں چار سو ظلم کی بکھری داستانیں ہمیں منہ
چڑھارہی ہیں ۔چنانچہ ایسے میں انسانوں کو ظلم اور اس کے اثرات سے محفوظ
رکھنے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو دنیاوی زندگی میں اس کے
نقصانات اور اخروی زندگی میں برے انجام سے آگاہی دی جائے۔
تو آئیے ہم کچھ بات ظلم و جبر کے متعلق کرلیتے ہیں ۔اللہ عزوجل !ہمیں حق و
سچ کہنے اس پر عمل کی توفیق عطافرمائے۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ظلم کا
انجام کسی طور اچھا نہیں ہے۔ ماضی اور زمانہ موجود میں بہت سارے ایسے
واقعات رونما ہوئے جن میں اہل خرد کے لیے عبرت کا بہت سا سامان موجود ہے۔
اے بنی نوع انسان :مظلوم کی فریاد اس تیر کی طرح ہے جس سے ظالم کبھی نہیں
بچ سکتا۔ نبی کریمؐنے جب حضرت معاذ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا:.. واتَّقِ
دعوۃَ المظلومِ؛ فإنہ لیس بینہا وبین اللہ حجابٌ؛ متفق علیہ.
مظلوم کی بددعا سے بچ! اللہ اور اس کے مابین کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔
ظالم کی عاقبت نااندیشی کا اندازہ اس سے کیجئے کہ مظلوم کی دعا ہر صورت میں
مقبول ہوتی ہے چاہے وہ فاجر حتیٰ کہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔
نبی کریمؐکا ارشاد گرامی ہے:
لا تُردُّ دعوۃُ المظلومِ ولو کان فاجِرًا ففُجورُہ علی نفسہ.
مظلوم کی دعا رد نہیں ہوتی، چاہے دعا کرنے والا فاجر ہی ہو۔ بے شبہ اس کا
فجور اس کے نفس کے ساتھ (خاص) ہے۔
ایک دوسرے مقام پر آپؐنے فرمایا:
اتَّقوا دعوۃَ المظلوم وإن کان کافرًا؛ فإنہ لیس بینہا وبین اللہ حجابٌ.
مظلوم کی بددعا سے بچو چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ اللہ اور اس کے
مابین کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے
لا تظلِمنَّ إذا ما کنتَ مُقتدرًا فالظلمُ ترجِعُ عُقباہُ إلی النَّدَمِ
تنامُ عیناک والمظلومُ مُنتبِہٌ یدعُو علیکَ وعینُ اللہ لم تنَمِ
جب تم مقتدر ہو تو ظلم نہ کرنا، ظلم کا انجام ندامت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تمہاری آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن مظلوم جاگ کر تیرے لیے بددعا کرتا ہے؛ اور
اللہ کی آنکھیں کبھی نہیں سوتیں۔
اے وہ انسان! جس کے لیے مسلمانوں کےخون قدرو قیمت سے خالی ہو گئے ہیں، جس
کے لیے مسلمانوں کی عزت کی کوئی اہمیت نہیں، جس کے لیے ان کے اموال کی
حیثیت پرکاہ سے بڑھ کر نہیں۔ اللہ سے ڈر جا!
محترم قارئین :اب عبرت کے لیے ظلم بھری داستانوں کو بھی پڑھ لیجیے !
تاریخی کتب میں خالد بن عبداللہ برمکی کا واقعہ منقول ہے کہ جب وہ اور اس
کا بیٹا جیل میں تھے تو اس کے بیٹے نے کہا: ابا جی! کیا وجہ ہے کہ ہم اس
قدر شان و شوکت کے بعد قید خانے کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں؟ تو خالد بن
عبداللہ نے کہا: ہمارا آج یہ حال اس وجہ سے ہے کہ ہم نے مظلوم کی کان پر
کان نہیں دھرے جبکہ اللہ اس سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتا۔
ایک اور حکایت:
علمائے کرام نے مالک بن دینار کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کو
بخارہوگیا، جب کچھ افاقہ ہوا تو ضروری کام سے باہر نکلے۔ باہر پولیس کے کچھ
اہلکاروں سے سامنا ہوا کہتے ہیں کہ انھوں نے (بلاوجہ) مجھے پکڑکر زمین پہ
لٹایا اور ایک شخص نے میری پیٹھ پر کوڑے مارنا شروع کر دئیے، جن کی تکلیف
بخار سے کہیں زیادہ تھی۔ تو میں نے اسے کہا: اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھ کاٹے!
کہتے ہیں کہ اگلے دن کچھ ہمت کر کے ضروری کام سے باہر نکلا تو دیکھتا ہوں
کہ اسی شخص کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں اور وہ انھیں گردن میں لٹکائے پھر رہا ہے۔
اے ظالم اور متشدد انسان! اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈر! اور مظلوم کی دعا
کا شکار ہونے سے بچ جا!اے بے حس انسان اپنی تنظیم اپنے مفادات ،اپنے وسائل
،اپنی وقار کی خاطر مظلوم انسانوں کا خون کرنے والے سنبھل جاؤ ،سنبھل
جاؤ۔ورنہ تمہاراوہ عبرتناک انجام ہوگاکہ لوگ تمہاراذکر کرنے میں عار محسوس
کریں گئے ۔اللہ اور اس کی مخلوق کے ہاں تم ذلیل ہوجاؤگئے ۔
پچھلے دنوں جب کراچی کے حالات خراب تھے تو آئے دن سننے کو ملتاتھا کہ فلاں
علاقہ میں ایک چوکیدار کو ماردیا،فلاں علاقے میں موچی کو ماردیا،فلاں علاقہ
میں ایک راہگیر بچے کو گولیوں سے چھلنی کردیا،فلاں جگہ دوخواتین کو سرمیں
گولیاں مارکرہلاک کردیا،فلاں مارکیٹ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے تاجر
کو ماریا۔
اے اللہ کی زمین پر فساد کرنے والے !اے اسلحہ کے زور پراتراتے پھرنے
والو۔اے بے حس لوگو!تم اخبار میں نامعلوم ہو۔تم پولیس اسٹیشن میں نامعلوم
ہو۔لیکن یاد رکھو !ربّ تعالٰی کے دفتر میں تم ملعونوں میں لکھے گئے
ہو،ظالموں ،قاتلوں میں لکھے گئے ہو۔وہ تمہیں خلوت میں جلوت میں دیکھ رہاہے
۔کیوں کسی مظلوم کی بددعالیتے ہو۔
واقعہ :طبرانی میں صحیح سند کےساتھ ایک روایت ہے کہ ایک آدمی (اللہ کے
بجائے) حضرت علی سے مدد طلب کیا کرتا۔ حضرت سعدبن ابی وقاص نے اسے ایسا
کرنے سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ حضرت سعد نے کہا پھر میں تیرے لیے
بددعا کروں گا۔ آپ نے اس کے لیےبددعا کی تو کچھ ہی دیر بعد ایک چنگھاڑتے
ہوئے اونٹ نے اسے روند ڈالا۔ جس سے وہ مر گیا۔
اے لوگوں پر ظلم ڈھانے والے! چاہے جو بھی ہوجائے تجھے اللہ کی پکڑ سے کوئی
نہیں بچا سکتا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن اللہَ لیُملِی للظالمِ حتی إذا أخَذَہ لم یُفلِتْہُ
بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے، پھر جب اس کو پکڑ لیتا ہے تو اس
کو چھوڑتا نہیں۔
پھر نبی کریمؐ نے یہ آیت پڑھی:
وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ
أَخْذَہُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ (ہود: 102).
تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں
کو پکڑتا ہے بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔
اے مسلمان! خلق خدا پر ظلم نہ کر اور ہر اس قول اور عمل سے اپنے آپ کو بچا
کے رکھ جس سے ظلم کی مدد ہوتی ہو۔مظلوم کی آہ تیراسب کچھ برباد کردے گی ۔تو
کہیں کانہیں رہے گا۔اس دنیامیں بہتریرے بڑھے بڑھے عہدوں پر براجمان ہیں جن
کے ہاتھ مظلوموں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں ۔اک تعداد ہے جو ان کے شر سے
واقف ہونے کے باوجود حقیقت کے لیے زبان کو حرکت دینے میں اپنی اور اپنے
آباء کی جان کا خطرہ محسوس کرتی ہے ۔
میرے پیارے ،عزت مآب قارئین!
اک لمحے کے لیے سوچیے گاہ کہ جس طرح درندوں سے انسان ڈرتاہے اسی طرح انسان
سے بھی ڈرتاہو!تو اس انسان کو سوچ لینا چاہیے کہ وہ انسانی شکل میں درندہ
ہے ۔خداکے لیے کسی سے زیادتی مت کیجے !کسی کا دل مت دکھائیے ،کسی کی
بددعامت لیجیے۔کوڑا کرکٹ چننے والے سے لیکر معاشرے کا ہرہرفرد قیمتی ہے اس
کے حقوق کا پاس ہماری ذمہ داری ہے ۔کسی کو حقیر جان کراس کے ساتھ آپ کا
ناروارویہ کہیں آپ اور آپ کی آتی نسلوں کو برباد نہ کردے ۔سب
سے دعائیں لیں ۔بددعائیں نہ لیں ۔
کاش ظلم کا یہ نظام بے نام ہوجائے
تفتیش کو انکے کوئی اہتمام ہوجائے
میری ملت کے سبھی لوگوں کے لیے
بعد جرائم سے ہمیشہ عام ہوجائے
ظہورشمع سے شمع جلائیں ہم سب
امن کی ضوء پھریوں پیغام ہوجائے |