لیجئے جناب! اب استثنا کا معاملہ
صدر ، وزیر اعظم ، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں وغیرہ سے نکل کر پولیس تک بھی
پہنچ گیا، پنجاب اسمبلی نے کثرت رائے سے ایک بل منظور کرلیا ہے جس کے مطابق
پولیس پر ”پیڈا ایکٹ“ لاگو نہیں ہوسکے گا۔ سرکاری ملازمین کے لئے یہ ایکٹ
دفعہ 302کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر لگ جائے اس کی خیر نہیں ۔ تاہم پولیس پر
چونکہ پنجاب حکومت کی خصوصی نظر کرم ہے ، اس کو زیادہ اختیارات دے کر ہی
شاید دہشت گردی اور امن وامان کا قیام ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ پنجاب پولیس
کو سابق حکومت کے دور سے ہی زیادہ سے زیادہ مراعات ، سہولیات، گاڑیاں، جدید
اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کروایا گیا تھا، ماڈل تھانوں کی بات
بھی ہوئی، گریجوایٹ بھرتیوں کا ذکر بھی ہوا مگر تبدیلی کہیں نظر نہ آئی۔
پنجاب پولیس کے سربراہ حاجی حبیب الرحمن نے جنوبی پنجاب کا طوفانی دورہ
کیا، اپنے پہلے دوروں کی طرح اس مرتبہ بھی درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہا،
پولیس کو بتایا گیا کہ وہ عوام کو انصاف فراہم کرے، رشوت نہ لے، ان فرمودات
پر عمل نہ کرنے کی صورت میں کڑے احتساب کا مژدہ سنایاگیا، پولیس کو’ عام
آدمی‘ سے قریبی رابطہ رکھنے کا حکم بھی دیا گیا، تاکہ خلیج کم ہوسکے، کہ
عام آدمی ہمارا دست وبازو ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو انصاف کی فراہمی
شہباز شریف کا وژن ہے،انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ نیٹو سپلائی پولیس نے
بحال نہیں کی ، مگر اس کے بعد پولیس کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے، ان کے بقول
پولیس کی ان غیر ضروری مصروفیات کے باعث جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آئی جی
نے یہ بھی کہا کہ” دہشت گردوں کی کاروائیوں کی وجہ سے پولیس حالت جنگ میں
ہے، میاں شہباز شریف نے انہیں دہشت گردی کے خاتمے کا خصوصی ٹاسک دیا ہے،
خادم پنجاب نے انہیں خصوصی طیارہ دیا ہے تاکہ پنجاب کا دورہ کرکے دہشت
گردوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ہم نے سرگرم دہشت گردوں کی فہرستیں تیار کرلی
ہےں، مجرموں کے خلاف مہم سے جرائم اور اغوا برائے تاوان میں کمی آئی ہے،ہم
دہشت گردوں کو امن تباہ نہیں کرنے دینگے۔ “
ادھر خادم پنجاب کے ٹینٹ آفس میں سائلین کے مسائل سنتے ہوئے وزیراعلیٰ نے
کہا کہ” عوام کی داد رسی نہ کرنے والے پولیس افسران اپنا رویہ درست کرلیں،
اگر وہ بے سہار ا اور مظلوم لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کرسکتے تو اپنے
عہدوں سے الگ ہوجائےں، انصاف ہماری پہلی ترجیح ہے، غفلت اور کوتاہی برداشت
نہیں کی جائے گی۔ “ عجیب بات ہے کہ یہ ”سائلین“ کی آمد بھی ٹینٹ آفس کی
برکت سے ہی شروع ہوئی ہے، ورنہ اس سے قبل ’اعلیٰ سطحی‘ اجلاس اور ملاقاتوں
وغیرہ کی خبر تو ہوتی تھی مگر عوامی مسائل سننے کا رواج دفتر میں کم ہی
تھا۔ دوسرا یہ کہ سائلین بھی زیادہ پولیس کے ستائے ہوئے ہی نکلے، یہی وجہ
ہے کہ خادم اعلیٰ کو پولیس کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا پڑی۔
کیا تقریروں اور دھمکیوںسے معاملات درست ہوسکتے ہیں؟ کیا خادم اعلیٰ اور
پولیس کے سربراہ کے کہنے سے رشوت ختم ہوجائے گی، کیا ان کی تقریریں سن کر
عوام کو انصاف ملنا شروع ہوجائے گا، کیا ان کے اخباری بیانات سے مظلوم اور
بے سہار اعوام کی داد رسی ہونے لگے گی؟ کیا ”جہازی دوروں“ سے انقلاب برپا
ہوجائے گا؟ کیاآئی جی صاحب نے پولیس والوں کی لٹکتی توندیں کم کروالیں؟ کون
نہیں جانتا کہ پولیس کی ”غیرضروری مصروفیات“ کیا ہیں، کیاغیر ضروری
پروٹوکول پر ہزاروں کی تعداد میں پولیس تعینات نہیں۔ کیا ہمارے حکمران نہیں
جانتے کہ ڈسپلن قائم رکھنے کے لئے سخت قوانین ضروری ہوتے ہیں، کیا پولیس کی
”پیڈا ایکٹ“ سے نکال کر انہیں مزید ’ہتھ چھٹ‘ نہیں بنادیا جائے گا، کیا اس
سے دیگر سرکاری ملازمین پر منفی اثر نہیں پڑے گا؟کیا پنجاب حکومت نے صوبہ
کو پولیس سٹیٹ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ |