پنجاب کے ضلع خانیوال کے کچہ کہو
علاقے میں پانچ بچوں کی ماں کو کسی کی زمین سے گھاس کاٹنے کے جرم کی پاداش
میں پتھر اور اینٹیں مار مارکر ہلاک کر دیا گیا۔سپریم کورٹ میں اس واقعہ کا
از خود نوٹس لینے پر اس معاملے کا نوٹس لیا گیا۔مزید نوٹس وزیر اعلٰی پنجاب
میاں محمد شہباز شریف کی توجہ اور مظلوم خاندان کے گھر جانے پر لیا
گیا۔وزیر اعلٰی پنجاب ایک گھنٹہ سے زائد وقت ظلم کی شکار خاتون کے اہل خانہ
کے ساتھ ان کے گھر پہ رہے۔نامزد ملزمان میں سے تین گرفتار کئے گئے جبکہ
دیگر تین عارضی ضمانت پر ہیں۔وزیر اعلٰی نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ اس
معاملے میں کوئی نرمی نہ برتی جائے اور عدالت میں مقدمے کی مکمل پیروی کو
یقینی بنایا جائے۔میاں شہباز شریف نے متاثرہ خاندان کو یقین دہانی کرائی کہ
وہ خود روزانہ اس معاملے سے آگاہ رہیں گے اور اس سنگین جرم میں ملوث افراد
کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
ترقی یافتہ ملکو ں میں عوامی ہدایت کے لئے کوئی تحریر آویزاں ہوتی ہے تو اس
کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ ”یہ قانون ہے“۔جبکہ ہمارے ملک میں ایسی ہدایات کے
نیچے لکھا ہوتا ہے کہ ” ببحکم فلاں “۔یعنی ہمارے ملک میں قانون نہیں بلکہ
حکم چلتا ہے ،ملک میں قانون حاوی نہیں بلکہ حکم حاوی ہے۔قانون کی خلاف ورزی
پر انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں نہیں آتے بلکہ حکم و
ہدایت پر کاروائی شروع ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں اکثر اوقات جب تک اعلی
شخصیت،اعلی سرکاری،حکومتی عہدیدار نوٹس لیکر کاروائی کرنے کا حکم جاری نہیں
کرتا اس وقت تک کوئی قانونی کاروائی نہیں ہوتی۔ہماری رائے میں وزیر اعلی
پنجاب کو متاثرہ خاندن کے گھر کا دورہ کرنے کے بجائے انسپکٹر جنرل پولیس پر
سختی کرنا چاہئے تھی کہ ان کی پولیس فورس کیا کر رہی ہے کہ اتنا بڑا ظلم
رونما ہونے پر سپریم کورٹ اور سی ایم کے نوٹس لینے تک مقامی پولیس کی طرف
سے کوئی کاروائی کیوں نہیں کی گئی اور اپنی ذمہ داری سے روگردانی پر مقامی
پولیس کے خلاف بھی سخت کاروائی کی جاتی۔تب آئندہ کسی علاقے کی پولیس کو
قانون کی خلاف ورزی پر کاروائی کے لئے احکامات کی ضرورت نہ رہتی۔
وزیر پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے سماجی رابطے کی مقبول ویب سائٹ ”فیس
بک“ پر عوام سے قریبی رابطے کا موثر سلسلہ شروع کیا ہے ۔اس سائٹ
https://www.facebook.com/Sharif.Shehbaz پر عوام وزیر اعلی پنجاب سے اپنی
بات کہہ سکتے ہیں اور وزیر اعلی کے دفتر کے افسران کی ایک ٹیم اس پر فوری
کاروائی کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کے افسران کو ہدایات جاری کرتے ہیں۔ انٹر
نیٹ کے ذیعے آسان ترین رسائی کا یہ سلسلہ عوام میں پسند کیا جا رہا
ہے۔گزشتہ دنوں وزیر اعلی پنجاب کے اس فیس بک اکاﺅنٹ کی وال پہ دیکھا کی
وزیر اعلی میاں شہباز شریف پنجاب کے پبلک پارکوں کی دیکھ بھال اور کھیل کے
میدان بنانے پر خاص توجہ دے رہے ہیں،یہ دیکھ کر میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے
راولپنڈی کے سٹلائٹ ٹاﺅن ایف بلاک میں واقع میونسپل کارپوریشن کے پبلک چنار
پارک کے ستم کی اطلاع انہیں دی کہ کس طرح پولیس نے ناجائز طور پر علاقے کے
معزز شہریوں کو ہراساں کرتے ہوئے سرکاری پبلک پارک پر لینڈ مافیا کو قابض
کرایا ۔ میں نے فیس بک پر وزیر اعلی پنجاب کو لکھا کہ لینڈ مافیا نے کسی
اور خسرہ نمبر کا عدالتی فیصلہ ہاتھ میں لیکر پولیس کے ذریعے ناجائز طور پر
سرکاری پارک پر قبضہ کیا ہے جبکہ یہ قانون موجود ہے کہ کسی پبلک پارک کی
زمین کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی۔پبلک چنار پارک سٹلائٹ
ٹاﺅن کے ماسٹر پلان کے مطابق بھی پارک ہی ہے۔میں نے یہ بھی لکھا کہ اگر
علاقے کے شہری اپنی جانوں کو بار بار خطرے میں ڈال کر اور لاکھوں روپے کے
اخر اجات نہ کرتے تو لینڈ مافیا اب تک پنجاب حکومت کے اس پبلک پارک میں
مکانات بنا کر کروڑوں کا مال بنا چکا ہوتا۔جس دن میں نے وزیر اعلی پنجاب کے
فیس بک اکاﺅنٹ پر یہ شکایت تحریر کی، اسی شام میرے موبائل فون پر چیف منسٹر
آفس سے کال آئی ۔ایک افسر نے مجھ سے پبلک چنار پارک کے اس معاملے میں
دریافت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ سی ایم آفس کی طرف سے راولپنڈی کے ’سی پی
او‘ کو ہدایت کی جا چکی ہے کہ پبلک چنار پارک کو واگزار کرایا جائے۔ میں نے
یہ اطلاع اہلیان علاقہ کو دی تو علاقے بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ لوگ
ہاتھ اٹھا اٹھا کر میاں محمد شہباز شریف کو دعائیں دینے لگے۔ دن ہفتوں میں
گزرتے گئے لیکن پولیس کی طرف سے سرکاری چنار پارک کو واگزار کرنے کی کوئی
کاروائی نہیں ہوئی۔ اب معلوم نہیں کہ لینڈ مافیا پنجاب حکومت سے زیادہ
طاقتور ہے ،یا چیف منسٹر آفس کی ہدایت بھی پولیس کے سامنے بے بس ہے؟ یا
ایسا ہے کہ راولپنڈی میں مسلم لیگ(ن) کے ممبران اسمبلی میاں محمدشہبار شریف
اور میاں محمد نواز شریف کے ”نادان دوست “ ثابت ہو رہے ہیں؟
چند ہفتے قبل پنجاب کے ہی ایک علاقے میں سینکڑوں افراد نے تھانے پر حملہ
کرتے ہوئے حوالات میں قید ایک ادھیڑ عمر شخص کو توہین قرآن کے جرم میں چوک
میں تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا۔حملہ آور وں کی لگائی آگ سے تھانے سے ملحقہ
ایک پولیس اہلکار کا گھر بھی جل گیا جس سے اس کی بیٹیوں کے جہیز کے سامان
کے علاوہ قرآن پاک کے دو نسخے بھی جل گئے۔ پولیس کے مطابق زندہ جلا کر مارے
جانے والا شخص مجذوب معلوم ہوتا تھا۔اس واقعہ کو پاکستانی میڈیا میں کوریج
نہیں دی گئی ،’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق جلا کر مارے جانے والے شخص کے
خلاف تو’ ایف آئی آر ُدرج ہے لیکن پانچ چھ ہزار افراد کی طرف سے ایک شخص کو
سر عام زندہ جلانے کی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔ اس واقعہ کا ”از خود نوٹس“ نہیں
لیا گیااور نہ ہی پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی کاروائی دیکھنے میں آئی۔کچھ
عرصہ پہلے تک میں بھارت کے ان انتہا پسند ہندوﺅں کی درندگی پر حیران ہوتا
تھا کہ کس طرح وہ اقلیتی فرقوں کے افراد کو سرعام زندہ جلا دیتے ہیں اور
بھارت میں یہ عام بات بن چکی ہے۔اب سمجھ میں آیا کہ ایک ہی خطے کے ایک ہی
مزاج کے لوگ ہیں اور ایک ہی طرح کے جنونی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ |