جیب بھلے اجازت نہ دے لیکن بچے
کی فرمائش پوری کرنے کے لیے آپ دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ ” بھئی ہم
کماتے کس کے لیے ہیں ، بچوں پر خرچ نہیں کریں گے تو کس پر کریں گے ۔“ آج کل
کے بچے کافی ذہین ہیں ۔ وہ والدین کے سامنے اپنی خواہشات اور مطالبات پیش
کرنے کے لیے مختلف طریقے آزماتے ہیں ۔کئی والدین بچوں کے سامنے ہتھیار ڈال
دیتے ہیں ۔ کچھ والدین کا رویہ تو یہ ہوجاتا ہے کہ یہاں بچے کے منہ سے کوئی
بات نکلی ، وہاں اس کی خواہش پوری کر دی گئی ، دونوں میں سے کوئی ایک طرز
عمل کی مخالفت کر رہا ہوتا ہے کہ بچے کی ہر ضد پوری نہ کی جائے ۔ بعض
صورتوں میں ماں اور باپ دونوں ہی کوشش کرتے ہیں کہ بچے کی ہر خواہش پوری کر
دیں ۔ یہ طرز عمل اختیار کر کے ماں باپ تو اپنے خیال میں نباہ رہے ہوتے ہیں
۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اولاد کو خوشی کے چند لمحات فراہم کرنے کے لیے اس کی ہر
بات مان لینی چاہیے ۔ لیکن ایک خواہش پوری ہوتے ہی بچہ دوسری فرمائش کر
دیتا ہے ۔ معصوم ذہن ہر بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ والدین کو اس کی
ایک خواہش پوری کرنے کے لیے کن مشکلات کا سامنا پڑا یا وہ مزید فرمائشیں
کرکے اُلجھنیں تو نہیں بڑھا رہا ؟ ظاہر ہے کہ ننھا ذہن ان باتوں کا ادراک
نہیں کر پاتا ۔
عام طور پر والدین یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر بچے کی بات نہ مانی جائے تو وہ
ضدی ہوجاتا ہے ، معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ جب والدین بچوں کی محبت میں ان کی
ہر خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو بچے کی ضد بڑھنے لگتی ہے ۔ جب بچہ
اپنے والدین کے دل میں اپنی ہر خواہش کا احترام پاتا ہے تو پھر نوبت انوکھے
لاڈلے کے چاند مانگنے تک آتی ہے ۔ والدین ہر خواہش پوری کر دیتے ہیں تو بچہ
بھی ہر روز نئی خواہش کرنا اپنی روش بنا لیتا ہے ۔ اس نہج پر پہنچ کر
والدین کو سختی کا خیال آتا ہے ، کیوں کہ جیب اجازت نہیں دیتی کہ مزید
خواہشات کو پورا کیا جائے ۔ نتیجتاََ بچے کو سختی سے سدھارنے کی کوشش کی
جاتی ہے ، کیوں کہ بطچہ اب اتنا ضدی ہو چکا ہوتا ہے کہ ملنے جلنے والوں کے
سامنے بھی اپنی کسی خواہش کے پورا نہ ہونے پر رونے دھونے سے باز نہیں آتا ۔
آخر کار ڈانٹ ڈپٹ کا سلسلہ گھر آنے والوں کے سامنے بھی جاری رہتا ہے ۔ یعنی
ذرا غور کیجیے کہ ایک غلط رویہ کتنے مسائل جنم دیتا ہے ۔ حد سے زیادہ لاڈ
پیار اور حد سے زیادہ سختی دونوں صورتوں میں بچہ مختلف نفسیاتی اور معاشرتی
مسائل کا شکار ہوجاتا ہے ، جو اٹھارہ بیس برس کی عمر میں شدت کے ساتھ سامنے
آتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ مسائل اتنے سنگین ہو جاتے ہیں کہ بچے کی پوری
شخصیت ہی بگاڑ کا شکار ہوجاتی ہے اور یہ بگاڑ تاعمر اس کی ذات کا حصہ بن
جاتا ہے۔ یعنی شخصیت میں اعتدال نہیں رہتا ہے ۔ خواہشوں اور ضرورتوں کے
درمیان فرق بھلا دینے والا انسان جب اپنی ہر بات منوانے کے درپے ہوجاتا ہے
تو اس سے نا صرف ان کا خاندان متاثر ہوتا ہے ، بل کہ اس کے مزاج میں پیدا
ہونے والا خود پسندی کا عنصر اس کے لیے عملی زندگی میں بھی کئی مسائل پیدا
کر دیتا ہے ۔ بات رویے میں اعتدال کی ہے ۔ مناسب طرز عمل اختیار کیجیے ،
تاکہ یہ پودے میٹھے ثمر دینے والے تناور اور مضبوط درخت بن سکیں ۔ بچوں کی
ہر بات ماننے کی صورت میں ابتداََ اس میں ضد اور پھر بغاوت جنم لیتی ہے ۔
اگر شخصیت متوازن اور مضبوط نہ ہو تو نواجون عملی زندگی میں قدم رکھنے کے
بعد مختلف انفرادی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کرتے ہیں ۔ بعض اوقات عارضے
کی سورت میں عمر بھر ان کی ذات کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور باقاعدہ نفسیاتی
علاج کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ والدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ
اپنے بچے کے لیے انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ ہمیں کوشش کرنی ہے کہ اپنے
بچے کو وقت دیں ، ان کی بات سمجھیں ۔ ان کی کسی بے وجہ خواہش کے جواب میں
انہیں سمجھا کر قائل کرنے کی کوشش کریں ۔ لاڑ پیار اپنی جگہ لیکن غلطی کی
صورت میں بچے کو ضرور سمجھائیں ۔
بچے کے مزاج کی نا ہم واری دور کرنے کے لیے پر تشدد راستہ اختیار کرنا تباہ
کن ثابت ہوتا ہے ۔ اس کے بہ جائے اگر اسے کسی غلطی کا احساس دلانا مقصود
ہوتو کچھ مختلف انداز سے اس تک یہ بات پہنچائیں ۔ مثال کے طور پر کچھ دیر
کے لیے ایک جگہ بٹھا دیں اور اس سے بات نہ کریں ، عموماَ۔ بچے اس گھریلو ”
سوشل بائیکاٹ “ کا گہرا اثر لیتے ہیں اور اپنے والدین کی ناراضی برداشت
نہیں کر تے ۔ اسی ناراضی کے خوف سے دوسری بار غلطی سے اجتناب کرتے ہیں ۔
والدین کو اپنے بچے کی ہر شرارت کو بدتمیزی یا اپنے لیے پریشانی تصور نہیں
کرنا چاہیے ۔ بچوں کی معصوم شرارتیں ، کوتاہیاں نظر انداز کرنا سیکھیں ۔
ممکن ہوتو اپنے اندر اتنی برداشت پیدا کیجیے کہ غصے میں آنے کے بہ جائے آپ
ان کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہونے لگیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز
نہیں کہ ضد ، جھوٹ اور ہٹ دھرمی کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے ۔ اس بات کا خیال
رکھیں کہ دوسروں کے سامنے یعنی باہر کے کسی فرد یا عزیزو اقارب کے سامنے
برا بھلا نہ کہین ، بلکہ تنہائی میں ذرا نرمی یا سختی سے سمجھا دیا جائے ۔
یہ رویہ رفتہ رفتہ بچے میں مثبت تبدیلی لائے گا اور اس کی انا بھی مجروح
نہیں ہو گی ، بلکہ وہ آپ کا احترام کرے گا کہ میرے والدین میرے لیے اچھا ہی
سوچتے ہیں ۔
والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ براتاﺅ کریں ۔ بچے کے سوالات کو صرف یہ
سوچ کر نظر انداز کردینا درست نہیں کہ وہ آپ کی بات کیا سمجھے گا ۔ بچوں کے
معاملات سے لاتعلقی جھنجھلاہٹ یا دوسروں کے غلط رویے کی وجہ سے پیدا ہونے
والا غصہ اپنی اولاد پر اُتارنا یہ سب باتیں بچے کو آپ سے دور کردیتی ہین ۔
یہ طرز عمل انتہائی خطرناک اور غیر مستحکم شخصیت کو جنم دیتا ہے ۔
ہر وقت کی روک ٹوک بچپن کی رنگینی چھین لیتی ہے ، اس سے گریز کیجیے ۔ اچھے
برے وقت کا فرق بچے کو سمجھا دیجیے ، وقت بہت بڑا استاد ہے ۔ کوئی بھی
انسان ابتدائی عمر میں اپنے ساتھ رکھے جانے والے رویوں اور معاشرے کے برتاﺅ
سے اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے ۔ اس لیے والدین کو بچوں کے ساتھ اپنے رویے
کی اہمیت کو سمجھانا چاہیے ۔ اپنی ذمے داریوں کو سمجھتے ہوئے صحیح سمت کا
تعین کیجیے اور اس سے بچوں کی تربیت کا عمل آگے بڑھایے کیوں کہ ہماری اولاد
ہی ہماعا اصل سرمایہ ہے ۔ |