اثاثے

ابھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کے اس حکم کی آخری تاریخ بھی نہیں آئی تھی ، جس میں انہوں نے عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ملازمین کے اثاثوں کی مکمل تفصیلات طلب کی تھیں، یہ جون کے آخر کا واقعہ ہے اور آخری تاریخ 31جولائی مقرر ہوئی تھی۔ ایک ایسا ہی حکم نامہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے جاری ہوگیا ہے، جس میں گریڈ17سے22تک کے تمام افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اور خاندان کے مکمل اثاثے یکم ستمبر تک سٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیج دیں، جس میں ان کو تحائف اور دینے والوں سے تعلق کی نوعیت بھی ظاہر کی جائے، گزشتہ سات برسوں میں جتنا مال ودولت اکٹھا کیااس کی تفصیل دی جائے، بیوی بچوں کے پرائیویٹ غیرملکی دوروں کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے، مجموعی آمدن ظاہر کی جائے، اندرون اور بیرون ملک بچوں کے تعلیمی اخراجات بتائے جائیں، بیوی اور بچوں کے زیر استعمال موبائل، گیس اور بجلی کے اخراجات بھی طلب کئے گئے ہیں۔ انکار کرنے یا اثاثے چھپانے یا غلط اعدادوشمار دینے پر کاروائی کی جائے گی، جس میں نوکری سے خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔

کسی صوبے میں قانون کا سب سے بڑا محافظ وہاں کے چیف جسٹس کو ہی قرار دیاجاسکتا ہے، موصوف کے اس حکم کی تائید میں اس ناچیز نے بھی ایک عدد کالم لکھا تھا، اور دیگر محکموں سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ بھی اسی حکم کو مشعل راہ بنائیں، اس مثال پر عمل کرتے ہوئے اگر تمام محکموں کے سربراہ ایسے ہی حکم جاری کردیں، تو کرپشن کو اپنی جان کے لالے پڑ سکتے تھے، مگر یہ خیال ہی مایوسی بن کر دماغ کو ماؤف کردیتا ہے کہ کون سا محکمہ یا ادارہ ہے جس کا سربراہ ”آبیل مجھے مار“ کے محاورے کو عملی جامہ پہنائے اور خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی کاوارکرلے۔ اس قسم کے احکامات میں ایک اور زبردست کمی رہ جاتی ہے کہ ان پر عمل کی نوبت کم کم ہی آتی ہے۔

اگرچہ یہ حکم عوام کے دلوں کی آواز ہے، عوام چاہتے ہیں کہ بیوروکریسی کا بھی احتساب ہو، ان کے لئے تو مراعات بھی کرپشن کی حد تک زیادہ ہیں، جنہیں بدقسمتی سے آئینی تحفظ حاصل ہے، ان کے ضلع کی حد تک کے افسران کے پاس چار سے آٹھ کنال تک کے ’سرکاری غریب خانے‘ شہروں کے عین وسط میں موجود ہیں، گاڑیوں ، اختیارات اور دیگر مراعات کا حساب کسی کو معلوم نہیں، ان کے صوابدیدی فنڈز بھی ہیں جو قومی خزانے میں نقب کا ذریعہ ہیں، ان کے علاوہ ’اوپر‘ کی آمدنی کا بھی کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، سرکاری گاڑیوں کا بے جا استعمال عام افسر بھی بے دریغ کرتا ہے، بیوی بچے تو تقریباًً ہر صاحب سواری سرکاری افسر کے سواری کے استعمال کو اپنا استحقاق جانتے ہیں، گاڑیوں کے ذاتی استعمال پر تو شاید کسی دیانتداری کے دعویدار حکمران کو بھی اعتراض نہیں۔

اس ضمن میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری افسران کے اثاثوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، حکومت کا فرض ہے کہ جب کوئی کسی اہم منصب پر بھرتی ہوا، سال بہ سال اس کے اثاثے ٹیکس وغیر ہ کی غرض سے سامنے آتے ہیں، انہی سے بہترین حساب لگایا جاسکتا ہے، اگر حکومتوں کے پاس ایسا کوئی خود کار انتظام نہیں تو پھر ان احکامات اور پروفارمے بھیجنے سے بھی کوئی نتائج برآمد نہ ہوسکیں گے، جو لوگ کرپشن کرسکتے ہیں، اثاثوں کو چھپانے کا بندوبست کرنا ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اگر کوئی حکومت ایسا فریضہ نبھانے کا تہیہ کرلے اور فیصلہ کرلے کہ کرپشن کا قلع قمع کرکے ہی دم لینا ہے تو یہ ناممکنات میں سے نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مراعات اور عیاشیوں کا نشہ اترنے والا نہیں، اثاثوں کا حساب کتاب لینے والا بظاہر تو کوئی نظر نہیں آتا، اگر یکایک اور راتوں رات کسی میں ایمانداری اوراصلاح کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم یہ اپنے مخالفین کو دبانے کا حربہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود اورمایوسیوں کے ہوتے ہوئے ہماری دعا ہے کہ ان احکامات پر عمل کی نوبت آئے اور لوٹ مار کے کلچرکا خاتمہ ہوسکے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472337 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.