رمضان المبارک کا مقدس مہینہ
اپنے فیوض و برکات خدائی نوازشات کی جولانیوں کے ہمراہ پوری ان بان اور شان
سے جاری ہے۔ یہ مہینہ امت محمدی کے لئے عظیم خزانہ ہے۔ ماہ صیام کودیگر
مہینوں کے مقابلے میں برتری فضیلت و فوقیت حاصل ہے کیونکہ رشد و ہدایت فلاح
و نجات انسانیت اور دنیا و اخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے اور
رب العالمین کی عدالت میں سرخرو ہونے کے نسخہ جات پر مشتعمل قران پاک اور
دیگر الہامی کتابیں اسی مہینے میں نازل ہوئیں۔ رمضان المبارک فطرت یذداں کے
گرانقدر انعامات کی موسم بہار کا نام ہے۔ اہل ایمان اور دین محمدی کے
پیروکار سارا سال صیام مبارک کی راہ دیکھنے کے لئے دیدہ دل فرش واہ کئے
رہتے ہیں۔ حضرت عباد بن صابت سے روایت ہے کہ جب ماہ صیام شروع میں آقائے
دوجہاں حضرت محمد صلعم اپنی جماعت اور ساتھیوں کو بار بار یہ دعاپڑھنے کی
ہدایت فرماتے۔ یا اللہ تو مجھے رمضان کے لئے سلامت رکھ اور رمضان کو میرے
لئے سلامتی کا زریعہ بنادے۔ رمضان کو میری خاطر مقبول بنا کر سلامت رکھ۔
اللہ عزوجل نے رمضان کو نزول قران اور محسن انسانیت حضرت ﷺ نے رحمت مغفرت
اور دوزخ سے نجات کا مہینہ قرار دیا۔ اللہکے اخری نبیﷺ نے روزے کو صبر و
تحمل ایثار ایمان او ایقان ہمدردی کا نتیجہ قرار دیا۔ ماہ رمضان میں رب
العالمین کے حکم سے شیطانی قوتیں مغلوب ہوجاتی ہیں۔رمضان تزکیہ نفس تطہیر
قلب عقل و خرد پر چھائی گناہوں کی سیاہی کو منورکرنا احکامات خدا کی پیروی
انسانی یکجہتی الفت و یگانگت غم خواری غریب طبقات کی دستگیری انصاف کی
فراہمی دیانت صداقت کا نام ہے۔حضرت سلیمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ شعبان
کے آخری عشرے میں اللہ کے نبی ﷺ منبر پر جلوہ گر ہوئے فرمایا کہ تم پر ایک
مبارک مہینہ سایہ فگن ہونے والہ ہے جس میں ایک رات لیلتہ لقدر ایسی ہے جو
دیگر سے70 فیصد زیادہ ثواب کا زریعہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق روزہ
افطار کرانے والے کو جنت کا پروانہ ملتا ہے۔ جید اصحابہ نے سردار انبیا سے
پوچھا کہ جو شخص روزہ افطار کرانے کی استعاعت نہیں رکھتا وہ کیا کرے؟ آپ ﷺ
نے جواب دیا کہ کسی روزے دار کو پانی کی گھونٹ اور ایک کھجور سے افطاری
کروائی جائے تو اجر اور خدائی انعامات یکساں ہیں۔ حضرت صلعم نے فرمایا کہ
رمضان کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا دوزخ سے نجات کا پروانہ عطا
کرتا ہے۔ احادیث مبارکہ ہے کہ جو شخص اپنے نوکروں چاکروں اور غلاموں پر کام
کا بوجھ کم کردے گا تواللہ عزوجل بروز جزا اسے جہنم کی اگ سے بچاؤ کا
پروانہ ملے گا۔ ماہ رمضان کے محولہ بالہ متن کو ہمارے سیاسی اسلامی تہذیبی
انتظامی اور سماجی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں شرم انے لگتی ہے اور انسان
یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی رمضان مبارک کے دستور کی پیروی
کرتے ہیں کیا ہم رمضان مبارک کی اقدار و روایات کی عظمت کا تحفظ کرتے ہیں
یا پھر منشور رمضان کے اعجاز و افتخار کا ستیاناس کرتے ہیں؟ ہم شیطانی
قوتوں کو ماہ رمضان میں مغلوب کر لیتے ہیں یا پھر اسکی الٹی تصویر عیاں
ہوتی ہے؟ کیا ہمارے روزے دربار الہی میں منظوری کا شرف حاصل کرسکتے ہیں یا
نہیں؟ ماہ صیام میں جو حرکتیں ہم کرتے ہیں کیا وہ ہماری اسلامی تاریخی
روایات کا عکس ہیں؟رمضان شروع ہوتا ہے تو ہمارے بازاروں میں مہنگائی کا جن
بوتل سے باہر نکل کر ہر انچ انچ پر رقص بسمل کرنے لگتا ہے۔ حکومتوں کی
نگرانی میں قائم رمضان بازاروں میں بھی مہنگائی جوبن پر ہوتی ہے۔ روزہ
داروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔ زخیرہ اندوزوں کا مال دھڑا دھڑ
مارکیٹوں میں بکنے کے لئے وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ زخیرہ اندوزوں کی
چاندی ہوتی ہے۔ہر طرف لوٹ مار عروج پر ہوتی ہے۔ دفاتر میں رشوت اور کرپشن
کا ریٹ عیدی کے نام پر دوگنا ہوتا ہے۔بیوروکریسی سے لیکر چپڑاسی تک نذر و
نیاز وصول کرتے ہیں۔ دہشت گرد اور انتہاپسند رمضان کے دنوں میں خون کی ہولی
سے تائب نہیں ہوتے لسانی گروہی اور مذہبی افراط و تفریط اور سیاسی انتشار
پچھلے مہینوں کی طرح روز افزوں ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے کارناموں میں
دوگنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے سماج میں صبر و تحمل نام کی چڑیا کا کوئی
تصور نہیں۔ جلاو گھیراو کے مناظر ہر چینل پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے
دس کروڑ سے زائد گھرانے عید منانے کا تصور نہیں کرسکتے۔ قانون کے محافظ
حیلہ ساز بنے ہوتے ہیں۔ ایک طرف ہم بڑے فخریہ انداز میں اپنے روزے کا دم
بھرتے ہیں تو دوسری جانب ہم یتیم و غریب کے سر پر ہاتھ پھیرنےکی زحمت گوارہ
نہیں کرتے۔ افطار پارٹیاں فیشن شو بن گئی ہیں جن میں پیسوں کا بے جا
استعمال کیا جاتا ہے مگر امرا کی ان پارٹیوں میں کسی غریب کو مدعو ہی نہیں
کیا جاتا۔ نفسا نفسی کا گراف اسمانوں تک پہچ چکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی
اکثریت فروخت شد ہے۔ ہر روز نوے فیصد اینکرز صاحبان حالات و واقعات کو دجال
کی نظر سے دیکھنے کے نشئی بنے ہوئے ہیں جو دلائل اور سیاسی مخاصمت کی اڑ
میں لغویات پر مبنی داستانوں کا اتوار بازار سجاتے ہیں۔جھوٹ اتنے تواتر سے
بولتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ یہ سلسلہ رمضان مبارک میں بھی جاری ہے۔ حکمران
اور سیاسی زعما ایک طرف قوم کو ماہ رمضان کی مبارک دیتے ہیں مگر یہی ٹولہ
ایک ماہ چپ کا روزہ نہیں رکھ سکتے اور ایک دوسرے پر غلیظ و رکیک کیچڑ
اچھالتے رہتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ کیبل نیٹ ورک پر پابندی لگانے کی بجائے
انہیں ازاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔فحاشی عریانی ہندوانہ تہذیب و ثقافت کی ترقی و
ترویج جاری ہے۔ دوکروڑ سے زائد نوجوان کیبل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کے دلدادہ
ہیں انکی اکثریت سارا دن کیبل اور انٹرنیٹ پر برباد کرتے رہتے ہیں مگررمضان
کے مہینے میں یہ نسل مساجد کا رخ ہی نہیں کرتی۔ راقم ایسے کم مایہ قلمقار
کے تجزئیے کے مطابق ہم رمضان کی مقدسیت کو پامال کرتے ہیں ہم منشور رمضان
پر حرف غلط پھیرتے ہیں۔ غلاموں اور نوکروں کا بوجھ ہلکا نہیں ہوتا۔ اللہ
پاک نے مسلمانوں کو یہود و نصاری سے دور رہنے کا حکم دیا ہے مگر ہم انکے
فرنٹ لائنر اتحادی ہیں۔ امت مسلمہ فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ شام اور افغانستان
میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہہ چکا ہے مگر مسلم حکمران اپنی سابقہ ڈگرپر
رواں دواں ہیں یعنی وائٹ ہاوس کی غلامی۔ کیا محولہ بالہ تھیوری کی رو سے یہ
صاف نہیں ہوجاتا کہ ہم احکامات خدا اسوہ حسنہ اور تعلیمات قران کی تکذیب کے
زمہ دار نہیں؟ کیا ہمارے روزے شرف قبولیت کا درجہ رکھتے ہیں ہر مسلمان اپنی
گریبان میں جھانک کر دیکھے تو ہم اسانی سے نتیجہ اخز کرسکتے ہیں کہ ماہ
رمضان میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ |