سب سے بڑی تباہی

رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ کے شروع ہونے سے کچھ دن پہلے کوٹ اسحاق گوجرانوالہ میں ایک درزی کے ہاں چند دوست مہمان آئے درزی نے ان مہمانوں کی خاطر مدارت کرنے کےلئے اپنی بیوی کو چائے بنانے کےلئے کہا ۔چائے بنانے میں دیر ہونے کی وجہ سے درزی نے فرط مردانگی میں آکر چائے کےلئے رکھا گیا برتن بمعہ کھولتا ہوا پانی اپنی بیوی اوروجہ رزق و برکت بیٹی پر انڈیل دیا جس کی وجہ سے درزی کی بیوی اور بیٹی بری طرح جھلس گئیں جنہیں قریبی ہسپتال میں پہنچا کر ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی جس سے ماں بیٹی کی ظاہر ی حالت قابل بھروسہ ہوگئی ۔میرے سمیت تقریباً سبھی افراد نے یہ خبر پڑھ کر یا سن کر افسوس کے چند الفاظ کے ساتھ ساتھ یقیناً درزی کو برا بھلا کہا ہو گا اور ساتھ ساتھ درزی کو گالیوں سے بھی نوازا ہو گاجبکہ اس ملک کے بدترین حالات کے کرتا دھرتاﺅں نے یہ خبر پڑھی یا سنی ہی نہیں ہوگی اور اگر کسی نے غلطی سے پڑھ یا سن لی ہوگی تو افسوس کی ایک آہ تک اپنے منہ سے نہ نکالی ہوگی کیونکہ ان عوامی نمائندوں کو ایسی خبروں سے کیا لینا دینا انہوں نے اپنے مخالفین کے کتوں پربحث کرنی ہے ، دوسروں کے والدین ، بیوی بچوں یا آباﺅ اجداد پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ انہیں کیا کہ کسی کا جوان بیٹا گولیوں سے چھلنی ہوتا ہے یا معصوم بچے ڈرون کا لقمہ بنتے ہیں کسی کی ماں بہن کی عزت و آبرو کا جنازہ نکلتا ہے یا پھر کسی گھر کا واحد کفیل کفر و شرک کے اس معاشرے سے تنگ آکر خود سوزی پر اتر آتا ہے ۔انہیں تو بس سیاست چمکانی ہے دوسروں کی ذات اور دوسروں کے ورثا ءپر تہمتیں لگا کر سرخرو ہونا ہے ۔

ہمارے ہاں تو ایسے واقعات کی بھر مار ہے ان واقعات کی بھر مار نے ہمارے ذہنوں کو غلامی کی اس پستی تک دھکیل دیا ہے کہ جس میں ظاہر ی اسباب ہی سب کچھ ہوتے ہیں یعنی کہ جو ظاہر ہے وہی سچ ہے اور جو آنکھ سے ذرا ہٹ کے ہے وہ جھوٹ ہے اور اس کا کوئی وجود نہیں یہ نا مہذب ترین سوسائٹی کی علامات میں سے ایک علامت ہے لہذا ہم اپنے معاشرے کو مہذب ترین معاشرہ کسی صورت بھی نہیں کہہ سکتے ہیں۔یہ درزی والا واقعہ اگر کسی ذرہ برابر مہذب سوسائٹی میں بھی ہوا ہوتا تو وہاں کی عوام بھی درزی کو برا بھلا کہتی لیکن ساتھ ساتھ ان عوامل اوران اسباب پر بھی گہری نگاہ ڈالتی کہ جسکی وجہ سے درزی اتنا اشتعال انگیز ہوا حکومت کی جانب سے درزی کو سزا بھی ملتی اور ان عوامل اور اسباب کی روک تھام کےلئے پائیدار اقدامات بھی کئے جاتے کہ جس کی وجہ سے درزی انتہا کو پہنچا ۔جہاں عوام کی سوچ اتنی باریک بین ہوتو پھر ایسے معاشرے میں حکومت خود بخود محتاط ہو جاتی ہے اور اپنے آپ کو عوام کی سوچ اور عوام کی ذہنیت کے مطابق ڈھال لیتی ہے لیکن یہ سب ایک مہذب سوسائٹی میں ہوتا ہے ۔جب سے یہ کائنات بنی ہے تب سے تاریخ کے ایک ایک صفحے کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں حضور پاک ﷺ کی قائم کردہ سوسائٹی ہی مہذب ترین سوسائٹی نظر آئے گی دنیا کے تمام تھنک ٹینک ایک جگہ بیٹھ کر مہذب ترین سوسائٹی تلاش کریں تو یقیناًدین اسلام کے سنہری اصولوں سے مزین قائم کردہ حضور پاک ﷺ کی سوسائٹی ہی مہذب ترین سوسائٹی کہلائے گی اور یہی وہ سوسائٹی ہے کہ جس کو اپنانے کےلئے ہمارے آباﺅ اجداد نے لاکھوں قربانیوں دےکر یہ ارض وطن حاصل کیا لیکن ہماری بدقسمتی کے ہم نے اندھی تقلید کرتے ہوئے اپنے آباﺅ اجداد کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر مہذب ترین سوسائٹی اپنانے کے بجائے غیر مہذب ترین تہذیب و تمدن اور افکار کو اپنالیا جس سے یہ ہوا کہ ہم مہذب ترین سوسائٹی کی حدود سے نکل کر ایک اندھی وادی میں گم ہو چکے ہیں ۔وہ ملک جو 1947میں کلمہ طیبہ اور اسلامی سنہرے اصولوں کو بنیاد بنا کر بنایا گیا تھا آج اس ملک میں اسلام اور مسلمان ایسے ہیں کہ جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ الفاظ ” اسلامی جمہوریہ“۔

خیر بات ایک درزی کی ہورہی تھی تو ملک خداداد میں درزی جیسے واقعات کی بھر مار ہے ملک کی خراب ترین حالت سے یہاں آدھے سے زیادہ افراد ذہنی مریض بن چکے ہیں ۔درزی کی مشین بجلی سے چلتی ہے اور اس ایٹمی ملک میں بجلی 16سے18 گھنٹے تک غائب رہتی ہے باقی 6سے 8گھنٹوں میں درزی نے سونا بھی ہے کھانا پینا بھی ہے ، معاشرے میں ہونے والی غمی خوشی میں بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے اور سب سے بڑھ کربیوی بچوں کی کفالت بھی کرنی ہے جس کےلئے گاہکوں کی ڈیمانڈ بھی پوری کرنی پڑتی ہے اور جب گاہکوں کی ڈیمانڈ پوری نہیں ہوگی تو سارے معاملات دھرم بھرم ہوجائیں گے پھر نہ دین رہے گا اور نہ دنیا تو پھر کیا ہو گا ؟؟ وہی ہو گا جو کوٹ اسحاق گوجرانوالہ میں کچھ عرصہ پہلے ہوا۔میں پہلے بھی گوش گزار کر چکا ہوں بدترین حالات کے سبب صرف یہی درزی ذہنی کشمکش کا شکار نہیں ہو ا یہاں تو ہر دوسرا فرد ذہنی اضطراب کا شکار ہے ۔برداشت کا مادہ اتنا کم ہو چکا ہے کہ سیدھی بات بھی الٹی لگتی ہے جس کی وجہ سے آئے دن قتل و غارت اور پر تشدد واقعات رونما ہورہے ہیں ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کی یادتازہ ہوجاتی ہے ۔لاتوں گھونسوں کی بات اب پرانی ہو چکی ہے ذرا سی بات ہوئی پستول، چھری ، چاکو، ڈنڈا ، آہنی راڈ وغیرہ کا بے دریغ استعمال کر کے قتل و غارت اب عام ہوچکی ہے ، میاں بیوی کے جھگڑے اب توں توں میں میں سے شروع ہو کر میکے پر ختم نہیں ہوتے بلکہ اب توں توں میں میں کے ساتھ ہی طلاق ، طلاق، طلاق کے الفاظ کے ساتھ ہی خاندان کے خاندان اور نسلوں سے نسلیں تباہ ہورہی ہیں غرض کے معاشرہ دن بدن تنزلی کا شکار ہو کر زمانہ جاہلیت کی طرف گامزن ہے ۔

یہ سب کچھ جاننے کے بعد یقیناً ذہن میں ایک سوال لازمی آتا ہے کہ ان تمام وجوہات اور بگاڑکی وجہ کیا ہے ؟؟ یقیناً ہم خود۔وہ ملک کے جسکو پانے کےلئے کائنات کا سب سے مہذب ترین اور سچا مذہب چنا گیا اس کے باسیوں نے مہذب ترین تہذیب کو پس پشت ڈال کر غیر مہذب ترین اعمال کا چناﺅ کر کے اپنے لیے تباہی کا سودا کر لیا ہے ۔غلامی کا ایک ایسا طوق باندھ لیا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نہ مہذبیت کو اپنانا پڑ رہا ہے وہ معاشرہ کہ جسے مہذب ترین اور تہذیب یافتہ ہونا چاہیے تھا اب اتنا بگڑ چکا ہے کہ یہ بگڑاﺅ وراثت در وراثت منتقل ہو رہا ہے یعنی کا غلامی کا طوق موجودہ نسل آنے والی نسل کو منتقل کر رہی ہے اور یہی سب سے بڑی پریشانی ہے اور اگر اس غلامی کے طوق سے چھٹکارہ حاصل نہ کیا گیا تو پھر۔۔۔۔تو پھر یہی سب سے بڑی تباہی ہے ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86071 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.