درد کا احساس اُس وقت ہو تا ہے
جب آگ اپنے آنگن میں لگتی ہے
آنکھیں نم اُس وقت ہوتی ہیں
جب عزت سر بازار پامال ہوتی ہیں
کونسی خطا سرزد ہوئی ؟ کس گناہ کا ارتکاب کیا ؟ کس بات پر دی سزا کیوں بھرے
بازار ہمیں رسوا کیا ؟ ہم بھی کسی کی بیٹیاں ہم بھی کسی کی بہنیں ہیں ۔ ملت
اسلامیہ میں کیوں حوا کی بیٹیوں کا ہوا جینا محال ؟
ڈیرہ غازی خان کے علاقے فورٹ منرو میں سیر کیلئے آنیوالی ان پانچ لڑکیوں کی
سسکتی ، تڑپتی چیخیں ملک کے ناخداؤں سے سوال کرتی ہیں کہ اسلام میں عورت کو
جو مقام ،عزت و توقیر عطا کی شاید ہی کسی دوسرے مذاہب میں عورت کو ایسا
مقام ملا ہو۔ پاکستان جو اسلامی اصولوں پر رائج ہوا ۔ جہاں شریعت کی
پاسداری اولین ترجیح تھی ۔ وہاں عورتوں کے ساتھ کئی دہائیوں سے زیادتی کے
رونما ہونے والے واقعات کوئی نئی بات نہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک دھائی
قبل میڈٰیا اتنا آزاد نہیں تھا جتنا آج ہے ۔ دوسرا اس وقت حوا کی بیٹیاں ہر
ظلم و ستم سہہ لیا کرتی تھی جبکہ آج کی خواتین میں شعور بیدار ہو چکا ہے۔
گزشتہ سال کوئٹہ میں کچلاک کے مقام پر پولیس اہلکاروں نے نے چیچینیاں سے
تعلق رکھنے والی حاملہ خاتون سمیت دو بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا نا
چاہا ۔ لیکن اپنے تحفظ کے لیے جب انہوں نے ایف سی اہلکاروں کی چھاؤنی میں
پناہ لینی چاہی تو ان بہادر نوجوانوں نے بربریت کی وہ تاریخ رقم کی جس نے
انسانی تاریخ میں ہلاکو اور چنگیز خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔
گزشتہ کئی دبائیوں سے آمر و جمہوری حکمرانوں کی بدترین طرز حکمرانی نے
ناصرف ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردیا بلکہ عوام کی نفسیات و شعور
پر بدترین اثرات مرتب کیے ۔ یہ انہی بدنما اثرات کا نتیجہ ہے کہ انسان کی
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوگئی اور انسان حیوانیت کے درجے سے گرکر
خونخوار درندگی کہی نہج پر آپہنچا ہے ۔ کہیں کم سن بچیوں کو اغواء و زیادتی
کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا جاتا ہے ۔ تو کبھی قبروں کی حرمت کی تذلیل
کی جاتی ہیں ۔ اور کبھی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے بعد عورتوں کو ٹکڑے
ٹکڑے کردیا جاتا ہے ۔
ہم کیسے مسلمان ہیں ؟ یہ کیسا مملکت پاکستان ہے ؟ جہاں جان و مال کا تحفظ
نہیں ، عوام کے محافظ ہی عوام کی عزت کو تار تار کردیتے ہیں ۔ کہیں تالی
بجانے پر قتل کا فتویٰٰ جاری کیا جاتا ہے۔ کہیں کارو کاری قرار دے کر بچیوں
کو زندہ درگور کردیا جاتا ہے ۔ کہیں ونی کی بھینٹ تو کہیں وٹہ سٹہ عورتوں
کا مقدر بن جاتا ہے۔ کبھی کو ڑے برسائے جاتے ہیں تو کبھی بازاروں کی زینت
بنادیا جاتا ہے ۔
عورت کی عزت کی پامالی کے بعد ہی صاحب اقتدار کو ہوش آتا ہے ۔ یہ کیسا سماج
و معاشرہ ہے جہاں دن دیہاڑے لڑکیوں کو بکری کی مانند انسان نما خوانخوار
بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا جاتا ہے ۔ اجتماعی زیادتی کے کیس ۔ تیزاب گردی کے
واقعات روز کا معمول بن گئے ہیں ۔
کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی ، تھانوں میں خواتین کے ساتھ بد فعلی ملک کی
پہچان بن گئے ہیں ۔ اگر ان کا سدباب نہیں کیا گیا اور نامزد ملزمان کو کیفے
کردار تک نہیں پہنچایا گیا ۔ تو مستقبل قریب میں زیادتی کے واقعات تھانے کی
حدود سے باہر نکلتے ہوئے عوام کے منتخب اراکین کے ایوانوں میں کیہں رونما
نہ ہونے شروع ہو جائیں ۔ |