لڑکیاں گڑیوں سے کھیلتے کھیلتے
خود گڑیاں بن کر ماں باپ کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہیں، مگر پھر آہستہ آہستہ
ماں باپ کی آنکھوں میں کسی بوجھ کی طرح کھٹکنے لگتیں ہیں والدین ان کے رشتے کے
لیے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں، پھر حوا کی بیٹی یہ حقیقت جان کر خواب ریزہ ریزہ
ہو جاتی ہیں کہ یہ گھر ان کا نہیں ہے، اس دکھ کو دل میں دبا کر وہ اپنے جیون
ساتھی کے سپنے دیکھنے لگتی ہے، پھر اک دن ان کو سب چھوڑ کر جانا پڑتا ہے اپنی
گڑیاں بھی، اب سسرال آ کر وہ ساس، سسر، نند، اور دیوروں کو ہر طرح سے خوش رکھنے
کی کوشش کرتیں ہیں، مگر کسی کے گھر والے اس سے خوش نہیں ہوتے تو کسی کا خاوند
اس سے خفا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سسرال والے یہی چاہتے ہیں کہ دلہن ہی خود کو بدلے وہ یہ
نہیں جانتے کہ وہ دل میں کیا ارمان لے کر آئی ہے اس کے دل میں کیا سپنے ہیں، لا
تعداد لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے ساتھ سسرال میں اس قدر زیادتی ہوتی ہے مگر
پھر بھی اپنا گھر بسانے کی غرض وہ برداشت کرتی رہتی ہیں ان کو میکے تک نہیں
جانے دیا جاتا، سگے بہن بھائیوں سے ملنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے، بہت کم
ہوتی ہیں جو اپنے سسرال والوں کو بمعہ خاوند خوش رکھ پاتی ہیں اور جو باقی ہوتی
ہیں ان کو کھانے میں نمک زیادہ ڈالنے پر بھی گھر سے نکال دینے کی دھمکی دی جاتی
ہے بات بات پر گھر سے نکال دینے کی دھمکی سن کر حوا کی بیٹی کو معلوم ہو جاتا
ہے کہ یہ گھر بھی اس کا نہیں ہے،------------پھر کونسا گھر ہے جو اس کا اپنا ہے----------------،جہاں
وہ سکون سے رہ سکے جہاں سے اسے کوئی نکال دینے کی دھمکی نہ دے؟ کیا کسی کے پاس
اس کا جواب ہے کہ بیٹیاں آخر کہاں جائیں؟ کاش کہ یہ لوگ ان کی زندگی میں زہر
گھولنا بند کر دیں کاش۔۔۔ حوا کی بیٹی سے اتنا ظلم کیوں؟ |