انسان ہو یا جانور اللہ تعالیٰ
نے اِن کی خصلت میں آزادی لکھ دی ہے۔ چڑیا ،پرندے آزاد فضا میں اڑیں تو ہی
خوش ، جانور آزادی سے جنگل میں گھو میں تو ہی سکھی۔ پھر انسان تو اشرف
المخلوقات ہے بھلا اسے آزادی کیسے عزیز نہ ہو۔ لیکن طاقتور اقوام طاقتور ہی
تب ہی کہلاتی ہیں کہ وہ کمزور اقوام کی آزادی پر شب خون ماریں اور انہیں
غلام بنا لیں۔ برصغیر میں مسلمان آئے تو اپنے ساتھ ایک ایسا مذہب لائے جو
انسان کو شرف انسانیت سے سر فراز کرتا ہے اور یہ شرف انسانیت انسان کو
انسان سے محبت سکھاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ یہاں تیزی سے پھیلا ۔مسلمان
فاتحین یہاں آئے تو لوگوں کی جانوں سے بڑھ کر ان کے دلوں پر حکومت کرتے رہے
ایک ہزار سال تک باوجود حکمرانی رنجشوں کے، یہاں کے عام باشندوں پر وہ
قدغنیں نہیں تھیں جو انہیں حکمرانوں سے بدظن کرتیں۔ ملک خوشحال تھا اس لیے
دنیا کی حریص نظریں اس پر رہیںدولت کی فراوانی زیادہ ہوئی توکچھ اہل مغرب
کی مکاری اور کچھ حکمرانوں کی عیاشی کہ ملک ہاتھوں سے گیا اور جب مکمل طور
پر غلام بنا تو ملت کی آنکھیں کھل گئیں ۔دیر تو ہو چکی تھی لیکن کچھ عظیم
رہنمائوں کی رہبری اور کچھ عوام کی غیرت نے اجنبی قابضین کو ملک چھوڑنے پر
مجبور کر دیا۔ اس راہ میں مشکلات بھی آئیں، خون بھی بہا، عصمتیں بھی لٹیں،
یتیمی کے دکھ بھی سہے گئے، جلوسوں پر بھی گولیاں چلیں ،سڑکیں بھی رنگین
ہوئیں اور پھانسی گھاٹ بھی آباد ہوئے لیکن مسلمانوں کو ایک دولت میسّر رہی
اور وہ تھی مخلص رہنمائی کی دولت۔ مسلمان اگر جانیں لٹاتے رہے اورمالی
نقصان برداشت کرتے رہے تو انہیں یہ تسلی تھی کہ ان کے رہنما انہیں اپنے
وعدے کے مطابق اسی راستے پر لے کر چلیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور
پھر تاریخ نے دیکھا کہ اسی مخلص رہنمائی اور عوامی قوت نے دنیا کا نقشہ
محاورۃََ نہیں حقیقتاََ بدل کر رکھ دیا اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کا
اضافہ ہوا جس کا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا دنیا کی سب سے بڑی مسلم
آبادی کا انتہائی اہم ملک۔ جس ملک پر دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی نظریں جمی
ہوئی رہتی ہیں۔ جو اگر اپنے محل وقوع اور اپنی آبادی کی طاقت کو ہی استعمال
کرے تو بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ایسا ہوا
نہیں۔ اس زمین کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال کر
رکھا ہے۔ اگر چہ یہاں عرب دنیا کی طرح تیل نہیںابلتا لیکن اللہ نے اس زمین
کو کوئلے کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہوا ہے ،اسے سونے اور کاپر جیسی
قمیتی دھاتوں سے نوازا ہوا ہے،سمندر کے کھلے سینے اسے عطا کئے ہیں، چار
موسموں کے پھل اور فصلیں اسے عطا کی ہیں اور سب سے بڑھ کر اٹھارہ کروڑ
زرخیز دماغ اور ہاتھ عطا کیے ہیں جو اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔ جب جب
اس کے لوگوں نے کسی کام کی ٹھانی تو اسے کر کے چھوڑا۔ 1948 میں ایک
نوزائیدہ ملک پر جنگ مسلط کی گئی تو پوری قوم سپاہی بن گئی اور دشمن کو
اپنی جرات اور ان حماقت کا احساس دلادیا۔ 1965 میں بزدل دشمن نے حملہ کیا
تو نہ صرف فوج بلکہ نفسیاتی محاذپر اس کے عوام نے بھی عظیم کارنامے سرانجام
دیئے اور ایثار و قربانی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ قوم آج بھی ان پر فخر
کرتی ہے۔ دفاع وطن سے لیکر تعمیر وطن تک ہر مرحلے پر اس قوم نے خود کو
منوایا ۔دنیا بھر کی مخالفت لے کر بھی اسے ایٹمی قوت بنا یا، پا بندیاں
برداشت کیں لیکن اپنی طاقت کا سودا نہیں کیا اور یوں آج ہم صرف اسی ایٹمی
قوت ہونے کے ناطے ہی بہت سارے خطرات سے بچے ہوئے ہیں۔ آج جب کہ حالات زیادہ
موافق نہیں ملک اور قوم مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں ملکی اور بین
الاقوامی سطح پر بہت ساری سازشوں اور مخالفتوں کا سامنا ہے ۔ دہشت گردی،
بھتہ خوری ، قتل اورڈکیتی ہمارے معاشرے کا نشان بنتے جا رہے ہیں۔ حکومتیں
کچھ خود ملک سے زیادہ اپنے مفاد کو ترجیح دے رہی ہیں اورکچھ سیاسی رنجشیں
انہیں پنپنے نہیں دیتی ہیں۔ اور ان حالات کا ہی شاخسانہ ہے کہ تجارت و
معیشت بھی زوال کا شکار ہیں۔ اِن سارے حالات کا صرف ایک علاج ہے کہ انقلابی
اور ہنگامی بنیادوں پر ملک کے لوگوں کو متحد کیا جائے ۔حکومت صرف برائے
حکومت نہیں بلکہ برائے خدمت و رہنمائی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسے حالات کسی
دوسرے ملک میں پیش نہیں آ تے وہاں بھی چوری ، ڈکیتی، قتل ،معاشی دبائو سب
کچھ ہو جاتا ہے لیکن زندہ قومیں حالات قابوکر لیتی ہیں اور بجائے حالات کے
مطابق ڈھلنے کے انہیں اپنے مطابق ڈھال لیتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کے عوام
اور حکومت کو مل کر ملک کو اِن حالات سے نکالنا ہوگا اگر ہم عوام اسے صرف
حکومت کی ذمہ داری سمجھ کر خود کسی بھی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جائیں اور
یہ سمجھیں کہ حالات درست ہو جائیں گے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے
مترادف ہوگابلکہ عوام کو دُہری ذمہ داری نبھانی ہے انہیںحکومت کو سیدھے
راستے پر بھی رکھنا ہے اور کام بھی کرنا ہے۔ اگر یہ کروڑوں ہاتھ کام کرنے
لگ جائیں تو پھر تو نا کامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ حکومتوں اور
حاکموں کو اپنی تجوریاں بھرنے اور اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنے کے
بجائے اس ملک کی آنے والی نسلوں اور اسکے مستقبل کی فکر کرنی ہوگی۔ یوں تو
ہم ہر سال چودہ اگست مناتے ہیں لیکن بے روح یوم آزادی منانے سے ہم ملک و
قوم کی کوئی خدمت نہیں کرتے نہ ہی جھنڈیاں لگانے سے ترقی کی دوڑ میں آگے
نکلا جا سکتا ہے ۔ یہ سب وطن سے محبت کی نشانیاں سہی لیکن محبت کو با رآور
اور ثمربار ہونا چاہیے ۔ جشنِ آزادی ہمیں زندگی کا احساس دلاتا ہے لیکن
تقاریر نعرے اور سجاوٹ جب جب زندگی کے ساتھ زندگی کی حرارت بھی پیدا کریں
تو ہی فائدہ مند ہیں۔ اس چودہ اگست کو صرف منانے کے لیے نہیں بلکہ ملک
بنانے کے عزم کا دن بنایئے اس عہد کے ساتھ کہ یہ ملک جس مقصد کے لیے بنا
تھا اس کو اس کا طرئہ امتیاز بنائیں گے اور اسے حقیقی معنوں میں اسلام کا
قلعہ بنائیں گے۔ ہم میں سے جو جس شعبے میں ہے اُسی شعبے کو بہترین بنا کر
ملک کی خدمت کریں تو یقین کریں ہر شعبہ زندگی چمک اٹھے گا صرف اُسی ہمت اور
عزم کی ضرورت ہے جس نے یہ ملک حاصل کیا آج رہنمائوں میں وہی جذبہ اور عوام
میں وہی قوت اورعزم زندہ ہوجائے تو تاریخ پھر سے بدلی جا سکتی ہے۔ |