آسام ہندوستان کے مشرق میں واقع
یہ ریاست پرفضا ماحول رکھتی ہے مگر آج کل یہ زمین امت مسلمہ کے لیے سخت
آزمائش بن چکی ہے۔ وہاں موجود دہشت گرد گروہ’ بوڈوز‘مسلمانوں پر ظلم کے
پہاڑ توڑ رہا ہے۔ آسام میں جاری دہشت گردی کا گجرات،ممبئی یا بھاگلپور جیسے
فسادات سے موازانہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان علاقوں میں اور ریاستوں میں
کافی حد تک مرکز کا کنٹرول ہے۔ وہاں پر فساد کی مخالفت کرنے والے لوگ بھی
موجود تھے۔ ان سب سے ہٹ کر یہ فسادات صرف دو مذہبی گروہ کے درمیان طاقتور
گروہ کے مظالم تھے۔ جبکہ آسام کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ وہاں پر جاری
فسادات صرف دو مذہبی گروہ میں طاقتور اور کمزور کی جنگ نہیں بلکہ حکومت اور
عوام کا ایک نہتی اقلیت سے جنگ ہے۔
بوڈو قبائل اپنے لیے ایک آزاد مملکت بوڈو لینڈ کی مانگ کرتے آئے ہیں۔ بوڈو
لینڈ کا علاقہ ریاست آسام کا مغربی علاقہ ہے جس کے جنوب میں ریاست
میگھالیہ،شمال میں بھوٹان اور مشرق میں بقہ ریاست آسام واقع ہے۔
بوڈو قبائل ہتھیاربند جنگلی غیر مہذب قبائلیوں کے باغی دہشت گرد گروہ ہیں۔
جو اپنے لیے پچھلی کچھ ہی دہائیوں سے آزاد ملک کی مانگ کر رہا ہیں۔ بوڈو
قبائل نے بوڈولینڈ کے لیے الگ سے پرچم بھی بنا رکھا ہے ۔ حکومت ہند نے انکی
جانب حد درجہ دلچسپی دکائی ہے اور انھیں 1980 کے بعد سے ابتک مختلف
مراعاتیں دیتی رہی ہے۔ بوڈوزکی جانب سے جاری دہشت گردی کو دیکھتے ہوئے
حکومت ہند نے ان کی کئی مانگوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ مستقبل میں ایک
آزاد بوڈولینڈ جوکہ ان دہشت گرد قبائیلیوں کی دیرینہ مانگ ہے اس کی تشکیل
کے لیے بھی راستہ صاف کر رہی ہے۔ 2003 میں اس شرط پر کہ بوڈو قبائل ہتھیا ر
چھوڑ دیں گے۔ حکومت ہند نے بوڈولینڈ کے انتظامات ’بوڈولینڈ ٹیری ٹوریل
کونسل (BTC ) کے حوالے کردیے ۔ لیکن ان قبائلی گروہ کی کثیر تعداد نے اب
بھی ہتھیار نہیں چھوڑے۔ صوبہ کوکرا جھار جہا ں سے ان فسادات نے سر اُٹھایا
ہے، یہ صوبہ بوڈولینڈ کے صدر مقام کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
بڑے تعجب و افسوس کی بات ہے کہ ایک اور ریاست ہے جو اس طرح کا مطالبہ کرتی
ہے نہیں بلکہ اس کا حق بھی رکھتی ہے۔ اس پر حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں
رینگتی بلکہ وہاں کثیر خرچ برداشت کر سیکیوریٹی فورسیز تعینات کر رکھی جو
آئے دن وہاں کی عوام پر مظالم ڈھاتے رہتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پہلی
آزاد ریاست کی مانگ کرنے والوں کا تعلق یہاں کے قدیم اور اکثریتی مذہب سے
ہے ، اور دوسری ریاست والوں کا تعلق اسلام سے ہے۔
آسام کی کل آبادی لگ بھگ 3,25,00000 (سوا تین کروڑ ) ہے۔ جس میں سرکاری
تعدد کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 85 لاکھ ہے۔ جو کہ آبادی 30%ہے۔ دہشت گردی
میں ملوث بوڈو قبائل کی تعداد 20,00,000 کے آس پاس ہے۔ ان قبائلیوں کی
اکثریت (91%) ہندو مذہب کی ماننے والی ہے۔ بقیہ 9% کا تعلق عیسائی مذہب سے
ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آسام تک دلی کی مسلم سلطنتیں نہیں پہنچ پائیں۔
اسلام کی آمد بھی یہا ں17 ویں صدی میں ہوئی۔ البتہ بنگال اور برما کے علاقے
میں اسلام قرون وسطی ہی میں آچکا تھا ۔ بنگال میں عرصہ دراز تک مسلم حکومت
قائم رہی۔موجودہ مسلم دشمنی کے بیج اتنے ہی قدیم جتنے بقیہ ہندوستان میں ہے۔
یہ علاقہ بنگلہ دیش کے قریب ہونے کی وجہ سے تقسیم ہند کے اثرات بھی اس
دشمنی کی وجوہات میں شامل ہے۔فی الوقت جاری فسادات کی شروعات بوڈو لینڈ سے
ہوئی ۔بوڈو لینڈ آسام کا وہ علاقہ جس کا مکمل کنٹرول بوڈودہشت گرد گروہوں
کی مختلف تنظیموں کے ہاتھوں میں ہے ۔ حکومت ہند نے ان دہشت گردوں سے اس شرط
پر کہ وہ ہتھیار چھوڑدیں گے بوڈو لینڈ کا انتظام ان کے ہاتھوں میں دے دیا۔
لیکن اس دہشت گرد باغی گروہ نے ہتھیار نہیں چھوڑے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس
علاقے کا مکمل انتظام بوڈو دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں میں ہے۔ حکومتی
انتظام ، پولس، عدلیہ سبھی پر بوڈو دہشت گرد وں کا کنٹرول ہے۔بوڈو لینڈ کے
علاقے میں بھی 32 تا 35% مسلم عوام رہتی ہے۔
فسادات پھوٹ پڑنے کی وجوہات:
فسادات کی اولین وجہ ہندو ، مسلم تعصبات ہیں۔
دوم بوڈو لینڈ میں موجود مسلمان حکومت ہند کی تائید کرتے ہیں جو بوڈو دہشت
گردتنظیموں کو بالکل منظور نہیں۔
سوم بوڈو دہشت گرد تنظیمیں وہاں موجود مسلمانوں کو مقامی باشندے تسلیم نہیں
کرتے ۔
چہارم وہاں پر بسنے والے اکثر مسلمان بنگالی زبان بولتے ہیں ۔ جبکہ بوڈو
دہشت گرد وں کی اپنی الگ قبائیلی زبان ہے۔ بنگالی بولی کے سبب بوڈو دہشت
گرد مسلمانوں پر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔
حال میں جاری فسادات کی بنیاد آسام کی خاتون ممبر اسمبلی رومی ناتھ کاقبول
اسلام بھی ہوسکتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس واقعہ سے بوڈولینڈ
سمیت تمام آسام اور ملک کی اسلام دشمن طاقتیں بوکھلا اُٹھی ہیں برما جوکہ
آسام کے قریب ہی واقع ہے ۔وہاں کے فسادات نے بھی بوڈو دہشت گرد وں کی حوصلہ
افزائی کی۔ یہ سب موقع کی تلاش میں تھے کہ کس طرح اپنے غصہ اظہار کیا جائے۔
اسی اثناء میں کچھ بوڈو قبائیلیوں نے دو مسلمانوں کو قتل کردیا۔ جس پر
مسلمانوں نے انکے قتل کے خلاف احتجاج کیا اور بوڈو حکومت سے خاطیوں کو سزا
دلوانے کا مطالبہ کیا۔ چونکہ انتظامیہ مکمل بوڈو دہشت گرد وں کے ہاتھ میں
ہے۔ اس لیے حکومت نے کو ئی دلچسپی نہیں دکھائی اور مظاہرین پر سختی استعمال
کرنے لگی ۔ آخر کار وہاں کے مسلمانوں نے طیش میں آکر4 لوگوں کا قتل کردیا
جنکا تعلق بوڈو قبائل سے تھا۔ جسکے بعد بوڈو لینڈ سمیت تمام آسام میں مسلم
مخلف فسادات شروع ہوگئے ۔ جس میں اب تک ہزاروں لوگ قتل،بے گھر اور ملت کی
بیٹیاں بے آبرو کی جارہی ہے ۔ لوگ جنگلوں کا رخ کر رہے ہیں۔ رمضان المبارک
میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
کہنے کو ہمارے ملک کے بڑے بڑے رہنما اور وزراء بشمول وزیر اعظم نے فساد زدہ
علاقوں کا دورہ کیا ۔ لیکن خبریں تو یہ بھی آرہی ہیں کہ یہ دورے صرف بوڈو
قبائل کے پنا ہ گزین کیمپس اور علاقوں تک ہی محدود ہے۔ مسلم متاثرین جن میں
کثیر تعداد کو پناہ گزین کیمپ بھی میسر نہیں اور جو جنگلوں میں پناہ لینے
پر مجبور ہیں ان علاقوں پر کسی کا دورہ نہیں ہوا سوائے چند مسلم تنظیموں کے
رہنماؤں کے۔
حال ہی میں یہ خبر بھی آئی ہے ان کیمپوں میں مکمل انتظامات نہ ہونے کی وجہ
سے بڑے پیمانے پر ملیریا اور دیگر وبائیں پھیل رہی ہیں۔
اللہ ہماری اور انکی مدد فرمائے۔ تمام عالم اسلام کی جان مال عزت آبرو کی
حفاظت کرے آمین۔
اس سلسلے میں کئی دینی تنظیموں نے آسام کے لیے ریلیف کے کاموں میں تعاون کی
درخواست کی ہے آپ سب سے گزارش ہے کہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ |