پاکستان کو معرض وجود میں آئے
پینسٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک پاکستانی قوم نے شعور کی منازل طے
نہیں کیں،آج بھی ہم بحثیت قوم ایک نہیں ہوئے،اس لئے آج ہم اپنے آپ کو
پنجابی ،سندھی، بلوچی،کشمیری اور پٹھان کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں
شاید خود کو پاکستانی کہلواتے ہوئے کوئی عار محسوس ہوتی ہے،دنیا میں صرف
وہی قومیں ترقی کے مدارج طے کرتی ہیں جن میں اتفاق،اخوت اور یگانگی وافر
مقدار میں موجود ہوتی ہے لیکن ہم اخلاقیات سے گرتے چلے جا رہے ہیں ،ہم
قانون اپنے ہاتھ میں لینا اور اسے توڑنا فخر محسوس کرتے ہیں ،جھوٹ اور دروغ
گوئی کو اپنی چالاکی تصور کرتے ہیں،اس قوم کے افراد کی پستی کا اندازہ اس
بات سے لگالیجئے،جہاں ہارن بجانا منع ہوگا یہ وہاں پر ہارن بجائیں گے ،جہاں
تھوکنا منع ہوگا وہاں تھوکیں گے،جہاں اشتہار لگانا ممنوع ہوگا یہ وہاں پر
بڑے شوق سے اشتہار لگائیں گے اور بے شرمی کی انتہا دیکھئے یہ اس پر بجائے
ندامت کے فخر محسوس کریں گے ۔
جب اس قوم کو کسی چیز کے خلاف احتجاج کرنا ہوتا ہے تو اپنی املاک کی توڑ
پھوڑ کرتے ہیں اور خود ہی نقصان پہنچا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں ،اس
قوم میں بے حسی انتہا کے درجے میں پائی جاتی ہے انہیں صرف ذاتی مفاد عزیز
ہوتا ہے یہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کو نقصان پہنچانا معمولی خیال
کرتے ہیں ،اس قوم کے افراد صرف اپنے پیٹ کو بھرنے کوترجیح دیتے ہیں چاہے
سامنے کوئی ایڑیاں رگڑ کر دم توڑ رہا ہو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
پاکستانی قوم اپنی مصنوعات سے زیادہ امپورٹ کی گئی اشیا کو زیادہ اہمیت
دیتی ہے شاید اسی لئے اس قوم کو امپورٹ کی گئی قیادت میسر آتی ہے جس قیادت
کے کاروبار تو دوسرے ممالک میں ہیں لیکن وہ اقتدار کیلئے پاکستان آتے ہیں
اور اپنا وقت پورا کرنے کے بعد واپس اپنے ممالک میں لوٹ جاتے ہیں اور ہم
کسی نئے حکمران کو امپورٹ کر لیتے ہیں ۔
اس ملک کو معرض وجود میں آئے پینسٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن یہ ترقی کے بجائے
زوال کی طرف گامزن ہے روز بروز میرے ملک کی کرنسی ڈاﺅن ہوتی چلی جا رہی ہے
اس ملک کے ساتھ آزاد ہونے والا ملک بھارت کہاں سے کہاں تک جا پہنچا ،چین کی
تو بات ہی چھوڑ دیں وہ تو اس وقت سپر پاور بن چکا ہے ہم تو اپنے ٹوٹے ہوئے
حصے بنگلہ دیش سے بھی گئے گزر چکے ہیں ،بنگلہ دیش کا ذکر جب بھی آتا ہے تو
دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن ہم پھر بھی سبق نہیں سیکھ رہے اس لئے آج پھر
دشمن چالیں چلنے میں مصروف ہے پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دی
جا رہی ہے لیکن ہمارے حکمران خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ،خدارا! اٹھ جاﺅ
اور میرے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے مناسب حکمت عملی اپنا
لو،یہ نہیںجاگیں گے کیونکہ اس ملک کی عوام بھی سو رہی ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا
یہ خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی قوم بڑے زور شور سے آزادی کا دن مناتی ہے واقعی
زندہ قومیں اپنی تاریخ کو یاد رکھتی ہیں اور اس سے سبق سیکھتی ہیں لیکن آج
ہم آزادی کا دن تو یاد رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ جڑی گہری یادیں بھلائے
ہوئے ہیں ،ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ ملک کس لئے حاصل کیا تھا؟اس کا مقصد کیا
تھا؟ہمارے آباﺅ اجداد نے ایک آزاد اور خود مختار ملک حاصل کرنے کیلئے کیا
کیا قربانیاں دیں تھی ؟کتنا خون بہا تھا؟کتنی عزتوں و عصمتوں کو تار تارکیا
گیا تھا؟کتنی لاشیں گری تھیں؟کتنے مصائب جھیلے گئے؟؟؟
افسوس ہماری قوم کے مستقبل کے معماروں کو نظریہ ءپاکستان کا بھی علم نہیں
ہے وہ توآزادی کے دن بھنگڑے ڈالیں گے ،مسوسیقی پر رقص کریں گے ،موٹر سائیکل
کے سائلنسر نکال کر ریسیں لگائیں گے اور باجے بجائیں گے،وہ کیا جانیں کہ
آزادی کی یہ عظیم نعمت ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کی تھی؟؟
کیا آج ہم آزاد ہو کر بھی آزادہیں؟ہم گوروں کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں ہم
ہر کام کرنے سے قبل ان سے ڈکٹیشن لینا ضروری سمجھتے ہیں ،اسی لئے آج ہم
ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہیں،ہمیں خود پر اعتماد کرنا ہوگا ،اپنے
زور بازو سے اپنی قسمت کو بدلنا ہو گااور اپنے پیارے ملک کو ترقی کی راہوں
پر گامزن کرنا ہو گا۔
یہ 14اگست کا دن ہمیں سبق دیتا ہے کہ جیسے آج سے پینسٹھ سال قبل تم ایک
متحد قوم تھے اور آج کیونکر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہو؟؟اس دن ہمیں
عہد کرنا ہو گاکہ ہم آپس کی نفرتوں کو مٹا کر محبت کے دیئے جلا کر دنیا کو
یہ پیغام دیں گے کہ ’ہم کل بھی ایک تھے اور آج بھی ایک ہیں‘
اس پرچم کے سائے تلے
ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ |