نماز نہ پڑھنا تو گویا کوئی خطا ہی نہیں!!!؟

دعا کے5 مَدَنی پھول
مدینہ١:پہلا فائِدہ یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حُکم کی پَیروی ہوتی ہے کہ اُ س کا حُکْم ہے مجھ سے دُعاء مانگا کرو۔جیسا کہ قُراٰنِ پاک مےں ارشاد ہے:
اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط
( پ ٢٤، مؤ مِن ٦٠)

ترجَمہئ کنزالایمان: مجھ سے دُعاء کرو میں قَبول کروں گا۔
مدینہ٢:دُعاء مانگنا سُنَّت ہے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا مکّی مَدَنی مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکثر اَوقات دُعاء مانگتے ۔لہٰذا دُعاء مانگنے میں اِتّباعِ سُنَّت کا بھی شَرَف حاصِل ہوگا۔
مدینہ٣:دُعاء مانگنے میں اِطاعَتِ رَسُول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دُعاء کی اپنے غُلاموں کو تاکِید فرماتے رہتے ۔
مدینہ٤:دُعاء مانگنے والا عابِدوں کے زُمْرہ (یعنی گُروہ)میں داخِل ہوتا ہے کہ دُعاء بَذاتِ خود ایک عِبادَت بلکہ عِبادَت کا بھی مَغز ہے۔جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے-:
اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔

ترجَمہئ:دُعاء عِبادَت کا مَغْزہے ۔
مدینہ٥:دُعاء مانگنے سے یا تو اُس کا گُناہ مُعاف کیا جاتا ہے یا دُنیا ہی میں اُس کے مسائِل حل ہوتے ہیں یا پھر وہ دُعاء اُس کے لئے آخِرت کا ذَخِیرہ بن جاتی ہے۔

نہ جانے کون سا گناہ ہو گیا ہے
محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے؟ دُعاء مانگنے میں اللّٰہ رَبُّ الْعِزَّت عزوجل اور اُس کے پیارے حَبیب ماہِ نُبُوَّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِطاعَت بھی ہے ،دُعاء مانگنا سُنَّت بھی ہے، دُعاء مانگنے سے عِبادَت کا ثواب بھی ملتا ہے نِیز دُنیا و آخِرت کے مُتَعَدَّد فَوائِد حاصِل ہوتے ہیں۔بَعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دُعاء کی قَبُولِیَّت کیلئے بَہُت جلدی مچاتے بلکہ مَعَاذاللّٰہ ! عزوجل باتیں بناتے ہیں کہ ہم تَو اتنے عَرصہ سے دُعائیں مانگ رہے ہےں ، بُزُرگوںسے بھی دُعائیں کرواتے رہے ہیں، کوئی پیر فقیر نہیںچھوڑا،یہ وظائف پڑھتے ہیں،وہ اَوراد پڑھتے ہیں ، فُلاں فُلاں مزار پر بھی گئے مگر اللہ عزوجل ہماری حاجَت پُوری کرتا ہی نہیں ۔ بلکہ بَعض یہ بھی کہتے سُنے جاتے ہیں:
''نہ جانے ایسا کون سا گُناہ ہوگیا ہے جس کی ہمیں سزا مِل رہی ہے۔''
نماز نہ پڑھنا تو گویا کوئی خطا ہی نہیں!!!

اس طرح کی'' بَھڑا س ''نِکالنے والے سے اگر دَریافت کیا جائے کہ بھائی ! آپ نَماز تَو پڑھتے ہی ہوں گے؟تَو شاید جواب ملے، ''جی نہیں۔ ''دیکھا آپ نے !زَبان پر تَو بے ساختہ جاری ہورہا ہے،''نہ جانے کیا خَطا ہم سے ایسی ہوئی ہے؟ جس کی ہم کو سزا مِل رہی ہے!''اور نَماز میں اِن کی غَفلت تَو اِنہیں نظر ہی نہیں آرہی ! گویا نَماز نہ پڑھنا تَو (مَعَاذاللّٰہ عزوجل) کوئی گُناہ ہی نہیں ہے! ارے! اپنے مختصرسے وُجُودپرہی تھوڑی نظر ڈال لیتے ، دیکھئے تو سہی!سَرکے بال اِنگریزی، اِنگریزوں کی طرح سَر بھی بَرہنہ (بَ۔رَہْ۔نَہ) لِباس بھی اِنگریزی ، چِہرہ دُشمنانِ مُصْطَفٰے آتَش پَرَسْتوں جیسایعنی تاجدارِرسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظےم سُنَّت داڑھی مُبارَک چِہرے سے غائِب ! تَہذِیب وتَمَدُّن اِسلام کے دُشمنوں جیسا، نَماز تک بھی نہ پڑھیں۔ حالانکہ نماز نہ پڑھنا زبردست گُناہ،داڑھی منڈانا حرام اور بھی دِن بھر میں جُھوٹ ،غِیبت ،چُغلی ،وَعدہ خِلافی ، بدگُمانی ،بدنگاہی، والِدَین کی نافرمانی ،گالی گلوچ،فِلمیں ڈِرامے،گانے باجے وغےرہ وغےرہ نہ جانے کتنے گُناہ کئے جائیں۔لیکن یہ گُناہ ''جناب'' کو نظر ہی نہ آئیں۔ اِتنے اِتنے گُناہ کرنے کے باوُجُود شَیطان غافِل کردیتا ہے ۔اور زَبان پر یہ اَلْفاظِ شِکوہ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ ؎
کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے ؟

جس کی ہم کو سزامِل رہی ہے!''
جس دوست کی بات ہم نہ مانیں
ذرا سوچئے تَوسہی !آ پ کا کوئی جِگری دَوست آپ کو کئی بارکچھ کام بتائے مگر آپ اُس کا کام نہ کریں۔اور کبھی آپ کو اپنے اُسی دَوست سے کام پڑجائے تَو ظاہِر ہے آپ پہلے ہی سَہْمے رہیں گے کہ میں نے تَو اِس کا ایک بھی کام نہیں کیا اب وہ بھلا میرا کام کیوں کرے گا ! اگر آپ نے ہمّت کرکے بات کرکے بھی دیکھی اور واقِعی اُس نے کام نہ بھی کیا تب بھی آپ شِکوہ نہیں کرسکیں گے کیوں کہ آپ نے بھی تَو اپنے دوست کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔

اب ٹھنڈے دِل سے غور کیجئے کہ اللّٰہ عزوجل نے کتنے کتنے کام بتائے ، کیسے کیسے اَحْکام جاری فرمائے۔ مگر ہم اُس کے کون کون سے اَحْکام پر عمل کرتے ہیں ؟ غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ اُس کے کئی اَحْکامات کی بَجاآوَری میں نِہایت ہی کَوتاہ واقِع ہوئے ہیں۔ اُمّیدہے بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ خود تو اپنے پروَرْدگار عَزَّوَجَلَّ کے حُکموں پر عَمَل نہ کریں۔ اور وہ اگرکسی بات (یعنی دُعائ) کا اثرظاہِرنہ فرمائے تَوشِکوہ ، شِکایت لے کر بیٹھ جائیں۔ دیکھئے نا!آپ اگر اپنے کسی جِگری دَوست کی کوئی بات بار بار ٹالتے رہیںتَو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے دوستی ہی خَتْم کر دے ۔لیکن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بندوں پر کس قَدَر مِہربان ہے کہ لاکھ اُس کے فرمان کی خِلاف وَرزی کریں۔پھر بھی وہ اپنے بندوں کی فِہرِس سے خارِج نہیں کرتا۔وہ لُطف وکرم فرماتا ہی رہتا ہے۔ذرا غور تَو فرمائیے!جوبندے اِحسان فَراموشی کا مُظاہَرہ کر رہے ہیں۔اگر وہ بھی بَطورِ سزا اپنے اِحسانات ان سے روک لے تَوان کا کیا بنے ؟یقینا اُس کی عِنایَت کے بِغیرایک قَدم بھی نہیں اُٹھاسکتا۔ ارے ! وہ اپنی عظیم ُالشّان نعمت ہوا کوجو بالکل مفت عطا فرما رکھی ہے اگرچند لمحوں کیلئے روک لے تَو ابھی لاشوں کے اَنبار لگ جائیں!!

قبولیتِ دعاء میں تاخیر کا ایک سبب
محترم قارئین کرام!!بَسا اَوقات قَبولِیَّتِ دُعاء کی تاخِیر میں کافی مَصْلحَتیں بھی ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔حُضُور ، سراپا نُور ، فَیض گَنْجُورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا فرمانِ پُر سُرور ہے،جب اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کا کوئی پیارا دُعا ء کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جِبرئیل (عَلَیہِ السَّلَام) سے ارشاد فرماتا ہے ، ''ٹھہرو! ابھی نہ دو تاکہ پھر مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز پسند ہے۔''اور جب کوئی کافِر یا فاسِق دُعاء کرتا ہے ،فرماتا ہے،''اے جِبرئیل (عَلَیہِ السَّلَام) !اِس کاکام جلدی کردو،تاکہ پھر نہ مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز مَکرُوہ (یعنی ناپسند )ہے۔(کنزالعمال ،ج٢،ص٣٩،حدیث٣٢٦١)

حکایت
حضرتِ سَیِّدُنا یَحْیٰبِن سَعید بِن قَطَّان(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو خواب میں دیکھا،عَرْض کی،اِلٰہی عَزَّوَجَلَّ!میں اکثر دُعاء کرتا ہوں۔اور تُو قَبول نہیں فرماتا؟حُکم ہوا،''اے یَحْٰی!میں تیری آواز کو دَوست رکھتا ہوں ۔ اِس واسِطے تیری دُعاء کی قَبولِیَّت میںتاخِیر کرتا ہوں۔''(اَحْسَنُ الْوِعَاء ،ص٣٥)

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!ابھی جو حدیثِ پاک اور حِکایت گزری اُس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللّٰہ عزوجل کو اپنے نیک بندوں کی گِریہ وَزاری پسند ہے تو یُوں بھی بسا اوقات قَبُولِیَّتِ دُعاء میں تاخِیر ہوتی ہے۔اب اِس مَصلحت کو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں! بَہَر حال جلدی نہیں مچانی چاہئے۔ اَحسَنُ الوِعَاء ،ص ٣٣ میں آدابِ دُعاء بَیان کرتے ہوئے حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِین مولٰینا نَقِی عَلی خان عَلَیْہِ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:۔
جلدی مچانے والے کی دعاء قبول نہیں ہوتی!

(دعاء کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ)دُعاء کے قَبول میں جلدی نہ کرے ۔ حدےث شریف میں ہے کہ خُدائے تعالیٰ تین آدمیوں کی دُعاء قَبول نہیں کرتا ۔ایک وہ کہ گُناہ کی دُعاء مانگے۔دوسرا وہ کہ ایسی بات چاہے کہ قَطْعِ رِحم ہو۔تیسرا وہ کہ قَبول میں جلدی کرے کہ میں نے دُعاء مانگی اب تک قَبول نہیں ہوئی۔ (الترغےب والترہیب ،ج٢،ص٣١٤،حدیث٩)

اس حدیثِ میں فرمایا گیا ہے کہ ناجائز کام کی دُعاء نہ مانگی جائے کہ وہ قَبول نہیں ہوتی۔نیز کسی رِشتہ دار کا حق ضائع ہوتا ہوایسی دُعاء بھی نہ مانگیں اور دُعاء کی قَبولِیَّت کیلئے جلدی بھی نہ کرےں ورنہ دُعاء قَبول نہیں کی جائے گی۔

اَحسَنُ الْوِعَاءِ لِاٰدابِ الدُّعاء پر اعلیٰ حضرت ،امامِ اَہلِسُنَّت ، مولٰینا شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے حاشِیہ تحریر فرمایا ہے۔اور اس کا نام ذَیلُ الْمُدَّعا لِاَحسَن الْوِعائرکھا ہے ۔اسی حاشیہ میں ایک مَقام پر دُعاء کی قَبولِیَّت میں جلدی مچانے والوں کو اپنے مخصُوص اور نِہایَت ہی عِلْمی انداز میں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

افسروں کے پاس تو باربار دھکے کھاتے ہو مگر۔۔۔۔
سَگانِ دُنیا(یعنی دُنْیوی اَفسروں) کے اُمِّیدواروں (یعنی اُن سے کام نِکلوانے کے آرزو مَندوں)کو دیکھا جاتا ہے کہ تین تین برس تک اُمِّیدواری (اور انتظار)میں گُزارتے ہیں ،صُبح وشام اُن کے دروازوں پر دَوڑتے ہیں،(دَھکّے کھاتے ہیں)اور وہ (اَفسران)ہیں کہ رُخ نہیں مِلاتے ، جواب نہیں دیتے ،جِھڑَکْتے ،دِل تنگ ہوتے ،ناک بَھوں چَڑھاتے ہیں،اُمِّیدواری میں لگایا تَو بَیگار(بے کار محنت) سَرپرڈالی،یہ حضرت گِرِہ (یعنی اُمِّید وار جیب)سے کھاتے ،گھر سے منگاتے ،بیکار بَیگار (فُضُول محنت) کی بَلاء اُٹھاتے ہیں ، اور وہاں( یعنی افسروں کے پاس دھکّے کھانے میں) برسَوں گُزریں ہُنُوز (یعنی ابھی تک گویا )روزِ اوّل (ہی )ہے۔مگر یہ( دنیوی افسروں کے پاس دھکّے کھانے والے ) نہ اُمّیدتَوڑَیں ، نہ(افسروں کا ) پیچھا چَھوڑَیں۔اور اَحْکَمُ الْحَاکِمِین،اَکْرَمُ الْاکْرَمِیْن، عَزَّجَلَالُہ، کے دروازے پراَوّل تَو آتا ہی کون ہے! اور آئے بھی تَو اُکتاتے ،گھبراتے ،کل کا ہوتا آج ہوجائے،ایک ہفتہ کچھ پڑھتے گُزرا اور شِکایَت ہونے لگی ،صاحِب !پڑھا تَو تھا،کچھ اَثَر نہ ہوا!یہ اَحمَق اپنے لئے اِجابَت (یعنی قَبولِیَّت )کا دروازہ خُود بند کرلیتے ہیں۔ مُحمَّد رَّسُوْ لُ اللّٰہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:
یُسْتَجابُ لِاَحَدِکُمْ مَا لَمْ یُعَجِّلْ یَقُوْلُ دَعَوْتُ فَلَمْ یَسْتَجِبْ لِی۔
(صحےحُ البخاری ،ج٤، ص٢٠٠، حدیث ٦٣٤٠ )

ترجمہ:''تُمہاری دُعاء قَبول ہوتی ہے جب تک جلدی نہ کرو یہ مت کہوکہ میں نے دُعاء کی تِھی قَبول نہ ہوئی۔''
بَعض تَواِس پر ایسے جامَے سے باہَر(یعنی بے قابو ) ہوجاتے ہیںکہ اَعْمال واَدْعیہ (یعنی اوراد اور دُعاؤں)کے اَثر سے بے اِعتِقاد ،بلکہ اللہ عزوجل کے وَعدئہ کرم سے بے اِعتِماد ، وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ الْکَرِیْمِ الْجَوَّاد۔ایسوں سے کہاجائے کہ اَے بے حَیائ!بے شَرمو!!ذرا اپنے گَرِیبان میں مُنہ ڈالو۔اگر کوئی تُمہارا برابر والا دَوست تم سے ہزار بار کچھ کام اپنے کہے اور تُم اُس کا ایک کام نہ کرو تَو اپنا کام اُس سے کہتے ہوئے اَوّل تَو آپ لَجاؤ (شرماؤ)گے،(کہ) ہم نے تَو اُس کا کہنا کیا ہی نہیں اب کِس مُنہ سے اُس سے کام کو کہیں؟اور اگر غَرَض دِیوانی ہوتی ہے(یعنی مطلب پڑا تو) کہہ بھی دیا اور اُس نے (اگر تمہاراکام)نہ کیا تَو اصْلاً مَحَلِّ شِکایَت نہ جانو گے( یعنی اس بات پر شکایت کروگے ہی نہیں ظاہر ہے خود ہی سمجھتے ہو) کہ ہم نے (اُس کاکام ) کب کیا تھا جو وہ کرتا۔

اب جانچو،کہ تم مالِک عَلَی الْاِطْلَاق عَزَّجَلَالُہ، کے کِتنے اَحکام بَجالاتے ہو؟ اُس کے حُکم بجا نہ لانا اور اپنی دَرخواست کا خواہی نَخَواہی (ہرصُورت میں)قَبول چاہنا کیسی بے حےائی ہے!

او اَحمَق ! پھر فَرق دیکھ ! اپنے سَر سے پاؤں تک نَظَرِ غور کر! ایک ایک رُوئیں میں ہَروَقت ہر آن کتنی کتنی ہزاردَرْ ہزار دَرْ ہزار صَد ہزار بے شُمار نِعمتیں ہےں۔تُو سوتا ہے اور اُس کے مَعْصُوم بندے (یعنی فِرِشتے)تیری حِفاظت کو پَہرا دے رہے ہیں ،تُو گُناہ کررہا ہے اور (پھربھی) سَرسے پاؤں تک صِحّت و عافِیَّت،بَلاؤں سے حِفاظَت ،کھانے کا ہَضم ،فضلات ( یعنی جسم کے اندر کی گندگیوں) کا دَفع ،خُون کی رَوانی ، اَعضاء میں طاقَت، آنکھوں میں روشنی ۔ بے حِساب کرم بے مانگے بے چاہے تُجھ پر اُتر رہے ہیں۔ پھر اگر تیری بَعض خواہِشیں عطا نہ ہوں،کِس مُنہ سے شِکایَت کرتا ہے ؟ تُو کیا جانے کہ تیرے لئے بَھلائی کا ہے میں ہے!تُو کیا جانے کیسی سَخْت بَلاآنے والی تھی کہ اِس (بظاہرنہ قَبول ہونے والی ) دُعاء نے دَفع کی ،تُو کیا جانے کہ اِس دُعاء کے عِوَض کیسا ثواب تیرے لئے ذَخِیرہ ہورہا ہے ،اُس کا وَعدہ سچّا ہے اور قَبول کی یہ تینوں صُورتیں ہیں جن میںہر پہلی، پچھلی سے اَعلیٰ ہے۔ ہاں، بے اِعتِقادی آئی تَویقین جان کہ ماراگیااور اِبلیسِ لَعِین نے تجھے اپنا ساکر لیا۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِِ سُبْحٰنَہ، وَتَعَالٰی۔( اور اللہ کی پناہ وہ پاک ہے اور عظمت والا)

اَے ذَلیل خاک!اے آبِ ناپاک!اپنا مُنہ دیکھ اور اِس عظیم شَرَف پر غور کر کہ اپنی بارگاہ میں حاضِر ہونے ،اپنا پاک، مُتَعَالی( یعنی بلند ) نام لینے ،اپنی طرف مُنہ کرنے ،اپنے پُکارنے کی تجھے اجازت دیتا ہے۔لاکھوں مُرادیں اِس فَضْلِ عظیم پر نِثار۔

اوبے صَبرے !ذرابھیک مانگنا سِیکھ۔اِس آستانِ رَفیع کی خاک پر لَوٹ جا۔اور لِپٹا رہ اور ٹِکٹِکی بندھی رکھ کہ اب دیتے ہیں ،اب دیتے ہیں!بلکہ پُکارنے ، اُس سے مُناجات کرنے کی لَذَّت میں ایسا ڈوب جا کہ اِرادہ ومُراد کچھ یاد نہ رہے ، یقین جان کہ اِس دروازے سے ہرگِز مَحروم نہ پِھر ےگاکہ مَنْ دَقَّ بَابَ الْکَرِیْم اِنْفَتَحَ(جس نے کریم کے دروازے پر دستک دی تو وہ اس پر کُھل گیا ) وَبِاللّٰہِِ التَّوْفِیْقُ۔ (اور توفیق اللہ عزوجل کی طرف سے ہے) (ذَےلُ الْمُدَّعا لِاَحسَنِ الْوِعائ، ص٣٤تا ٣٧)

دعاء کی قبولیت میں تاخیر تو کرم ہے
حضرتِ سَیِّدُنا مولٰینا نَقِی علی خان (عَلَیہِ رَحمَۃُ الرَّحمٰن)فرماتے ہیں ،اَے عزیز! تیرا پروَردگار عزوجل فرماتا ہے،
اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِلا
(پ٢ ،البقرہ ١٨٦)

تَرجَمہئ کنزالایمان:دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے ۔
فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ 0
(پ٢٣،الصّٰفٰت ٧٥)

تَرجَمہئ کنزالایمان:توہم کیا ہی اچھے قبول کرنے والے ۔
اُدْعُوْ نِیْۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط
(پ٢٤،مؤمن٦٠ )

تَرجَمہئ کنزالایمان:مجھ سے دعا کرومیں قبول کروں گا۔
پس یقین سمجھ کہ وہ تجھے اپنے دَر سے مَحروم نہیں کرے گااوراپنے وَعدے کو وَفا فرمائے گا۔وہ اپنے حَبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے فرماتا ہے :
وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْھَرْ 0
(پ٣٠، والضحٰی ١٠)

تَرجَمہئ کنزالایمان:اور منگتا کو نہ جِھڑکو۔
آپ عزوجل کس طرح اپنے خوانِ کرم سے دُور کرے گا۔بلکہ وہ تُجھ پر نظرِ کرَم رکھتا ہے۔ کہ تیری دُعاء کے قَبول کرنے میں دیر کرتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حال۔ ( اَحسَنُ الْوِعَاء ،ص٣٣)
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.